تلنگانہ کے گوشہ محل سے بی جے پی کے ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ نے گوا میں منعقد ویشوک ہندو راشٹر مہوتسو کے اختتام پر کہا کہ ان دنوں کئی سیاستدان کٹر ہندو لیڈر ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں لیکن الیکشن جیتنے کے بعد سیکولر بن جاتے ہیں۔ ایسے ایم پی اور ایم ایل اے ‘ہندو راشٹر’ کے قیام کے لیے بیکار ہیں۔
نئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ لودھ اکثر اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے ہیں۔ اتوار (30 جون) کو بھی انہوں نے ایک میٹنگ کے دوران ہندو راشٹر کے حوالے سے ایک متنازعہ بیان دیا۔
رپورٹ کے مطابق ، انہوں نے کہا کہ 50 ‘کٹر ہندو ایم پی’ کا انتخاب کرنا ضروری ہے جو پارلیامنٹ میں نڈر ہو کر’ہندو راشٹر’ کے قیام کا مطالبہ کریں گے۔
تلنگانہ کے گوشہ محل انتخابی حلقہ کے ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ ہندو جن جاگرتی سمیتی کے زیر اہتمام منعقد مہوتسو میں شریک تھے۔
ٹی راجہ سنگھ کو بی جے پی کے ہندوتوا چہرے کے طور پر جانا جاتا ہے اور انہوں نے یہ بیان گوا کے پونڈا میں منعقدویشوک ہندو راشٹر مہوتسو کے اختتام کے پردیا۔
دکن ہیرالڈ کے مطابق ، انہوں نے کہا، ‘ان دنوں بہت سے سیاستدان کٹر ہندو رہنما ہونے کا دکھاوا کر رہے ہیں۔ تاہم وہ الیکشن جیتنے کے فوراً بعد سیکولر بن جاتے ہیں۔ ایسے ایم پی اور ایم ایل اے ‘ہندو راشٹر’ کے قیام کے لیے بیکار ہیں۔ ایسے ‘ہندوتوا’ ایم پی جو انتخابی نتائج کے بعد سیکولر بن جاتے ہیں ‘ہندو راشٹر’ کے مطالبے کی مخالفت کریں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ 50 کٹر ہندو ایم پی کا انتخاب کیا جائے جو پارلیامنٹ میں بے خوف ہو کر ‘ہندو راشٹر’ کا مطالبہ کریں گے۔
‘اپیزمنٹ کی سیاست’ کا حوالہ دیتے ہوئے سنگھ نے کہا کہ اس نے ہندو ہندوستان کو عملی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہندو راشٹر کے قیام کے لیے نوجوان نسل کو سخت مطالعہ کرنے اور انتظامیہ میں اہم عہدوں پر فائز ہونے کی ترغیب دی جانی چاہیے، تاکہ وہ اپنا حصہ ڈال سکیں۔
دکن ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق، بی جے پی ایم ایل اے نے ناسازگار دنوں سے بچنے اور ایک ہندو قوم کے قیام کے لیے باقاعدہ روحانی مشق کی بھی وکالت کی۔
قابل ذکر ہے کہ ٹی راجہ کا تنازعات سے پرانا رشتہ ہے۔ سال 2020 میں ہیٹ اسپیچ سے نمٹنے میں جانبداری سے کام لینے پر ہر طرف سے الزامات اور تنقید سے گھرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک نے راجہ سنگھ کو اپنے پلیٹ فارم اور ان کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر پابندی لگا دی تھی۔
ای میل کے ذریعے ایک بیان میں فیس بک کے ترجمان نے کہا تھا کہ ہم نے تشدد اور نفرت کو فروغ دینے والے مواد سے متعلق ہماری پالیسی کی خلاف ورزی کرنے پر ٹی راجہ سنگھ پر فیس بک سے پابندی لگا دی ہے۔
اس سے قبل سال 2019 میں انتخابات میں کامیابی کے بعد انہوں نے پروٹیم اسپیکر ممتاز احمد خان کی موجودگی میں حلف برداری کی تقریب میں شرکت سے انکار کردیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ کسی ایسے شخص کے سامنے حلف نہیں لینا چاہتے جس کی پارٹی ہندوؤں کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ تب انہوں نے اے آئی ایم آئی ایم کو ملک مخالف پارٹی قرار دیا تھا۔
سال 2018 میں بھی انہوں نے ایک متنازعہ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک گائے کو ‘گئو ماتا’ کا درجہ نہیں مل جاتا تب تک مان لنچنگ جیسے واقعات نہیں رکیں گے ۔
Categories: خبریں