وزیر اعظم نریندر مودی نے 2020 میں مرکزی حکومت کی نوکریوں کے لیے ایک کامن ایلیجبلٹی ٹیسٹ کرانے اور نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ چار سال گزرنے کے بعد بھی نوجوان اس کا انتظار ہی کر رہے ہیں۔
احمد آباد: سال 2014 سے 2022 کے درمیان 22 کروڑ سے زیادہ امیدواروں نے مرکزی حکومت کی نوکریوں کے لیے درخواستیں دیں۔ ان میں سے ایک 27 سالہ راہل (بدلا ہوا نام) بھی تھے۔ راہل انجینئر تھے، لیکن انہوں نے ایک ایسی نوکری کے لیے درخواست دی جس کے لیے صرف میٹرک پاس ہونے کی ضرورت تھی – یہ مرکزی حکومت کی انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ میں ٹیکنیشن کے لیے تھا۔
انہوں نے دسمبر 2021 میں درخواست دی تھی۔ اس کے بعد سے کئی بار امتحان لیا گیا اور پھر نتیجہ اچانک رد کر دیا گیا۔ آج تین سال گزرنے کے بعد بھی راہل نوکری کے انتظار میں ہیں۔
‘تین سال کا طویل عرصہ لگتا ہے تو امیدوار مایوس ہو جاتے ہیں،’انہوں نے کہا۔ راہل ہار نہیں مان سکتے۔ ان کا ماننا ہے کہ مرکزی حکومت کی نوکری ‘سکیورٹی’ فراہم کرے گی۔
وہ کہتے ہیں، ‘جب تک عمر اور اٹیمپٹ ہے، کوشش کرتا رہوں گا۔’
راہل اس سے پہلے بھی سرکاری بھرتی کے ناکام عمل کا سامنا کر چکے ہیں۔ ریاستی سطح کی سرکاری بھرتیوں کے ساتھ بھی ان کا ایسا ہی تجربہ رہا ہے۔ 2021 میں ہریانہ پبلک سروس کمیشن نے اپنے امتحانات منعقد کرنے کے آٹھ ماہ بعد بغیر کوئی وجہ رد کر دیے۔ اس کے بعد 2022 میں وہ بہار پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں شامل ہوئے، جسے پیپر لیک ہونے کے بعد رد کر دیا گیا۔
حال ہی میں انہوں نے ایک بار پھر 16 جون کو یو پی ایس سی سول سروسز کا انٹرنس ٹیسٹ دیا ہے۔
کامن ایلیجبلٹی ٹیسٹ اور نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی کی تجویز
راہل جیسے لاکھوں ہندوستانی نوجوان ہر سال ایسے کئی امتحانات میں بیٹھتے ہیں۔ ہر کوشش میں انہیں ذہنی اذیت کے ساتھ ساتھ فارم پُر کرنے کے اخراجات اور ملک کے مختلف حصوں میں امتحان میں شرکت کے لیے جسمانی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں پیسے کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر بھی وہ یہ سب کچھ اس امید میں کرتا ہے کہ ہر سال آنے والی چند سرکاری نوکریوں میں سے کوئی ایک حاصل کر لے گا۔
اس مسئلے کو کسی حد تک حل کرنے کے لیے مرکزی حکومت نے فروری 2020 میں ایک امید افزا تجویز پیش کی۔ یہ تجویز تھی ایک کامن ایلیجبلٹی ٹیسٹ کی، جس کے ذریعے مختلف مڈ اور جونیئر لیول کی ملازمتوں کے لیے امیدواروں کا انتخاب کیا جائے گا۔ ہر سال تقریباً تین کروڑ امیدوار ان آسامیوں کے لیے درخواست دیتے ہیں۔
اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ملک کے نوجوانوں کو مرکزی حکومت کی مختلف شاخوں اور ایجنسیوں کے ذریعے منعقد کیے جانے والے دباؤ سے بھرے ہوئے اور معاشی طور پر کمزور کرنے والے امتحانات نہ دینا پڑے۔ اس اقدام کے ساتھ، ایک امتحان کافی ہوگا، اور اس میں حاصل کردہ اسکور کی بنیاد پر امیدوار مذکور سطحوں پر تمام مرکزی حکومت کی ملازمتوں کے لیے درخواست دے سکیں گے۔
حکومت نے کہا کہ وہ اس امتحان کے انعقاد کے لیے نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی یا این آر اے قائم کرے گی۔
بڑے بڑے دعووں، خیالات اور اسکیموں کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی وزیر اعظم نریندر مودی کی عادت کے مطابق اس پہل کا اعلان بھی اسی طرح کے دعووں کے ساتھ کیا گیا۔ مودی نے اسے ‘کروڑوں نوجوانوں کے لیے وردان’ قرار دیا۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک ٹوئٹ میں کہا، ‘این آر اے مودی حکومت کی طرف سے اٹھایا گیا ایک بے مثال قدم ہے کیونکہ یہ ایک انقلابی اوریکساں بھرتی کا لائحہ عمل تیار کرے گا۔’
عام طور پر ہندوستان میں بے روزگاری کی سنگین صورتحال کو کم کرکے بتانے والی حکومت کی جانب سے ایسا قدم انقلابی نہیں تو کم از کم امید افزا تو لگ ہی رہاتھا- بشرطیکہ حقیقت میں نوکریاں دی جائیں۔
مختلف سرکاری ملازمتوں کے لیے الگ الگ درخواست دینے کے عمل کو منظم کرنے کے علاوہ، اس اقدام سے بہت سی دوسری توقعات وابستہ تھیں۔ بار بار پیپر لیک ہونے کی وجہ سے امتحانات رد ہوتے تھے اور یہ ایک بڑا ایشو بن گیا تھا۔ لہذا، یہ توقع تھی کہ این آر اے کی طرف سے تمام ملازمتوں کے لیے مبینہ طور پر امتحان کے مؤثر نظام سے پیپر لیک کو روکا جا سکے گا۔
کاغذپر ہی رہ گئے وعدے
تاہم، رپورٹرز کلیکٹو نے پایا کہ اس اعلان کے چار سال بعد بھی این آر اے نے اب تک ایک بھی اہلیت کا امتحان نہیں لیا ہے۔ ایجنسی میں ملازمین کی کمی ہے۔
حکومت ہر بار اس تاخیر کے لیے الگ الگ بہانے کرتی ہے جبکہ این آر اے مسلسل ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ مرکزی حکومت میں شامل ہونے کے خواہشمند نوجوانوں کے لیے ایک ہی امتحان کا وعدہ صرف کاغذوں پر ہی رہ گیا ہے۔
‘جب ایم پی یا ایم ایل اے کو منتخب کرنا ہوتا ہے تو سسٹم بخوبی کام کرتا ہے۔ لیکن، جب یہی نظام عام ہندوستانی نوجوان کو ملازمتوں کے لیے بھرتی کرتا ہے، تو ناکام ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ سیاسی طور پر قوت ارادی کے فقدان کے باعث ہوتا ہے۔ بھرتی کے امتحانات کو کرانے کے لیے سیاسی طور پر قوت ارادی کا شدید فقدان ہے’، نوجوانوں کی بے روزگاری کے مسائل پر کام کرنے والے گروپ یووا ہلہ بول کے بانی انوپم نے کہا۔
رپورٹرز کلیکٹو نے این آر اے کو ایک مفصل سوالنامہ ارسال کیا ہے، جس کا جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
بھرتی کی ادھوری کوشش
مرکزی حکومت نے 2020 کی بجٹ تقریر میں این آر اے کا تصور پیش کیا تھا، جس کے آپریشن کے لیے پہلے تین سالوں میں 1517.57 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔
اس وقت کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے کہا تھا، ‘فی الحال امیدواروں کو ایک جیسے عہدوں کے لیے مختلف اوقات میں متعدد ایجنسیوں کے ذریعے منعقد کیے جانے والے متعدد امتحانات میں شریک ہونا پڑتا ہے۔ اس میں ان کا بہت وقت ضائع ہوتا ہے، پیسہ خرچ ہوتا ہے اور محنت لگتی ہے۔ ان کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے، نان گزیٹڈ آسامیوں پر بھرتی کے لیے کمپیوٹر پر مبنی آن لائن کامن ایلیجبلٹی ٹیسٹ کے لیے ایک آزاد، پیشہ ور، ماہرین کی تنظیم کے طور پرایک نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی قائم کرنے کی تجویز ہے۔’
یہ اعلان فروری 2020 میں کیا گیا تھا۔ اصولی طور پر این آر اے کے کام کاج کا خاکہ تیار کرنے میں حکومت کو مزید چھ ماہ لگے۔ اگست 2020 میں اس باڈی کو باضابطہ طور پر ‘مطلع‘ کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ ایک سرکاری ادارہ قانونی طور پر وجود میں آ گیا ہے۔
یہ فیصلہ کیا گیا کہ این آر اے گروپ بی اورسی (نچلی سطح کی پوسٹ) کی نان گزیٹیڈ پوسٹوں کے ساتھ ساتھ گروپ بی کی ایسی گزیٹیڈ آسامیوں کے لیے کمپیوٹر پر مبنی ٹیسٹ لے گی، جن کے لیے ایک اور سرکاری بھرتی ایجنسی – یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی)- سے مشاورت کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ مرکزی حکومت کے مختلف حصوں میں درمیانی سے جونیئر سطح کے عہدے ہیں، جن میں ہائی اسکول سے لے کر گریجویشن تک کی اہلیت کے حامل لوگوں کے لیے وسیع مواقع ہیں۔ ڈرائیور، کانسٹبل، الیکٹریشن، اسٹینو گرافر، اسٹاف نرس سے لے کر اکاؤنٹنٹ اور سب انسپکٹر تک، سب ان زمروں میں آتے ہیں۔
دعووں کی حقیقت
سرکاری نوٹیفکیشن کو پڑھنے سے ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کامن ایلیجبلٹی ٹیسٹ (سی ای ٹی) اور این آر اے کے لیے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے بڑے بڑے وعدوں پر پورا اترنا ممکن نہیں ہے۔
سرکاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ این آر اے کی طرف سے لیا جانے والا اہلیتی امتحان تین سطحوں کے امیدواروں کے لیے ہوگا؛ گریجویٹ، جنہوں نے 12 ویں جماعت پاس کر لی ہے، اور وہ جنہوں نے 10 ویں جماعت پاس کرلی ہے۔ درحقیقت یہ امتحان درخواست دہندگان کے لیے نہ تو واحد تھے اور نہ ہی فیصلہ کن ۔
حکومت کے مطابق، یہ تین موجودہ سرکاری ایجنسیوں: اسٹاف سلیکشن کمیشن (ایس ایس سی)، ریلوے ریکروٹمنٹ بورڈ (آرآر بی)، اور انسٹی ٹیوٹ آف بینکنگ پرسنل سلیکشن (آئی بی پی ایس) کی نگرانی میں ‘غیر تکنیکی’ ملازمتوں کے لیے ‘فرسٹ لیول’ کا امتحان تھا ۔ مخصوص آسامیوں کے لیے امیدواروں کو ان تین ریکروٹمنٹ ایجنسیوں کے ذریعے کرائے جانے والے اضافی امتحانات میں شرکت کرنا پڑ سکتی تھیں۔
درحقیقت این آر اے امتحان ان تینوں سرکاری بھرتی ایجنسیوں کے درخواست دہندگان کو چھانٹنے کے لیے فلٹر کے طور پر ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہندوستان میں اب اتنی ہی تعداد میں ملازمتوں کے لیے بھرتی کرنے کے لیے تین کے بجائے چار ایجنسیاں ہو گئیں۔
این آر اے کے قیام کے لیے جاری کیے گئے سرکاری حکم نامے میں کوئی پختہ جانکاری نہیں تھی کہ نئی ایجنسی کب مکمل طور پر یا کم از کم جزوی طور پر کام شروع کرے گی۔ عام طور پر سماجی بہبود کی ایسی ہائی پروفائل اسکیموں کے لیے حکومت واضح طور پر ہدف اور ٹائم لائن کا تعین کرتی ہے اور ان کا اعلان بہت دھوم دھام سے کیا جاتا ہے۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ابتدائی طور پر کچھ عرصے کے لیے سال میں دو بار اہلیتی امتحان لیا جائے گا۔ این آر اے ‘منظم طریقے سے ہر سطح پر سی ای ٹی کی فریکوئنسی میں اضافہ کرے گی تاکہ ایک وقت آئے جب امیدواروں کو اپنی پسند کی تاریخ اور وقت پر ٹیسٹ بک کرنے اوردینے کا موقع دیا جاسکے۔’
اگر این آر اے ایک نئی تعمیر شدہ رہائش گاہ تھی، تو اس میں رہنا شروع کرنے کی کوئی تاریخ نہیں تھی – صرف ایک خاکہ تھا کہ یہ مستقبل میں کسی غیر متعین وقت پر کیسا نظر آسکتا ہے۔
این آر اے کے ڈھانچے میں ہی کچھ گڑبڑی تھی۔ حکومت نے اشارہ دیا تھا کہ ایک رجسٹرڈ سوسائٹی کے طور پر اس کو قائم کیا جائے گا لیکن اندرونی طور پر یہ ایک کمپنی کی طرح کام کرے گی۔ اصول کےمطابق، ایک سوسائٹی کو نسبتاً آسان رپورٹنگ اور اکاؤنٹنگ کے اصولوں پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس، ایک کمپنی کو اپنے کھاتوں اور کام کاج کی رپورٹ حکومت کو دینا ہوتی ہے، اور یہ ریکارڈ عوامی طور پر دستیاب کرائے جاتے ہیں۔
حکومت نے مزید کہا کہ این آر اے خود مختاری سے کام کرے گی، لیکن اسی حکم کی ایک اور سطر میں اس کی خود مختاری کو یہ کہہ کر کم کر دیا گیا کہ ‘حکومت ہند این آر اے اور گورننگ باڈی کو اپنی پالیسیوں کے حوالے سے ہدایات دے گی اور این آر اے اس طرح کی ہدایات پر عمل کرنے کے پابند ہوگی۔’
انتہائی پرجوش منصوبہ
اعلان کے ایک سال بعد بھی این آر اے پر کام جاری رہا۔ 10 فروری 2021 کو اس وقت کے وزیر مملکت برائے عملہ، عوامی شکایات اور پنشن جتیندر سنگھ نے لوک سبھا کو مطلع کیا کہ این آر اے 2021 میں اپنا پہلا امتحان منعقد کر سکتا ہے۔
یہ وعدہ غلط ثابت ہوا۔ این آر اے نے کام شروع نہیں کیا، ایک اور سال بغیر کسی پیش رفت کے گزر گیا۔ مئی 2022 میں حکومت نے دعویٰ کیا کہ این آر اے سال کے آخر تک نان گزیٹیڈ پوسٹوں کے لیے ایک امتحان منعقد کرے گا۔
حکومت کی بڑی بڑی باتیں جاری رہیں۔ وزیر جتیندر سنگھ نے این آر اے کو ایک ‘رہنما’ اور ‘تاریخی’ اصلاحات بتایا، جو ‘نوجوانوں کے لیے خاص طور پر دور افتادہ اور ریموٹ علاقوں میں رہنے والوں کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوگی۔’
اہم پیش رفت کا مشورہ دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘امتحان ہندی اور انگریزی سمیت 12 زبانوں میں اور بعد میں آئین کے 8 ویں شیڈول میں درج تمام زبانوں میں لیا جائے گا۔’
تاہم، اندرونی طور پر این آر اے کو ابھی بھی نصاب، امتحان کے منصوبے اور فیس کے ڈھانچے کو حتمی شکل دینا تھا اور طلباء کے لیے ایک منصفانہ نظام بنانا تھا۔ ماہرین کی ایک مشاورتی کمیٹی مارچ 2022 سے کچھ عرصہ پہلے تشکیل دی گئی تھی تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ کون سی ٹکنالوجی استعمال کی جانی چاہیے۔ ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود کمیٹی کے نتائج واضح نہیں ہیں۔
حکومت نے عوام کے سامنے جو ڈیڈ لائن مقرر کی تھی وہ پہلے ہی پار ہو چکی تھی۔ اگست 2023 میں پارلیامانی اسٹینڈنگ کمیٹی کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق، این آر اے ایک ‘ڈیجیٹل پلیٹ فارم’ بنانا چاہتا تھا، جس کے لیے حکومت کی انفامیشن برانچ، نیشنل انفارمیٹکس سینٹر (این آئی سی) نے جولائی 2022 میں ایک تجویز پیش کی تھی۔
ریکارڈ کے مطابق، این آئی سی کو ایک ترمیم شدہ تجویز بھیجنی تھی، اور رضامندی حاصل کرنے کے بعد این آئی سی کی سافٹ ویئر ٹیم کو این آر اے کے ڈیجیٹل پورٹل کو چالو کرنے میں آٹھ سے دس ماہ لگنے تھے۔
اس کے بعد ہی این آر اے دراصل امتحان کے انعقاد پر غور کر سکتی تھی، جیسا کہ حکومتی اور پارلیامانی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سال کے آخر تک 12 زبانوں میں امتحانات نہیں لیے جا سکتے جیسا کہ حکومت دعویٰ کر رہی تھی۔
حسب توقع یہ ڈیڈ لائن بھی ختم ہوگئی۔ این آر اے کے تین سالوں کے کام کاج کے لیے مختص کیے گئے 1517 کروڑ روپے میں سے حکومت نے دسمبر 2022 تک صرف 20.50 کروڑ روپے خرچ کیے۔ مالی سال 2021-22 میں 13.85 کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے، اور مالی سال 2022-23 کے لیے 396 کروڑ روپے مختص کیے گئے، لیکن دسمبر 2022 تک کوئی پیسہ نہیں دیا گیا۔
یہ معلومات اس رپورٹر کی جانب سے دائر کی گئی آر ٹی آئی (اطلاع کا حق) درخواست میں سامنے آئی ہے۔
این آر اے کے اعلان کے تین سال بعد اگست 2023 میں کانگریس کے راجیہ سبھا کے ممبر رندیپ سنگھ سرجے والا نے ایک بار پھر حکومت سے پوچھا کہ ایجنسی ایک مکمل امتحانی نظام قائم کرنے اور چلانے کی بات تو دور، ایک بھی امتحان کرانے میں کیوں ناکام رہی ہے۔
اس بار بڑے بڑے دعووں کی جگہ لمبے تکنیکی بہانے نے لے لی۔
دس اگست 2023 کو وزیر مملکت جتیندر سنگھ نے پارلیامنٹ میں سرجے والا کو جواب دیتے ہوئے کہا، ‘گروپ بی اور سی کے عہدوں کے لیے سی ای ٹی کا انعقاد ایک بہت بڑی تبدیلی ہے، جس کے لیے ملک بھر میں سی ای ٹی کے مختلف مراحل کے لیے معیارات/ رہنما اصولوں کے علاوہ قابل اعتماد آئی ٹی اور فزیکل انفراسٹرکچر کی دستیابی ضروری ہے۔ لہٰذا، سی ای ٹی کو صرف آئی ٹی اور فزیکل انفراسٹرکچر قائم کرنے اور اس کے لیے مختلف مراحل کے لیے معیارات/رہنما خطوط تیار کرنے کے بعد ہی لاگو کیا جا سکتا ہے۔’
تین سال بعد مرکزی حکومت اوراس کی سخت ہدایات کے تحت کام کرنے والی این آر اے بنیادی انتظامات بھی قائم کرنے میں ناکام رہی۔
حکومت نے 2020 میں دعویٰ کیا کہ امتحان ملک بھر کے 1000 مراکز پر منعقد کیا جائے گا، جس میں ملک کے تمام اضلاع کا احاطہ کیا جائے گا۔ تاہم، اگست 2023 میں اس رپورٹر کے ذریعے دائر کردہ ایک اور آر ٹی آئی کے جواب میں حکومت نے تسلیم کیا کہ ابھی تک امتحان کے مراکز کا انتخاب نہیں کیا گیا ہے۔
اس دوران این آر اے بذات خود منصوبہ بند صلاحیت سے نیچے کام کر رہی تھی۔ اس کے سات علاقائی دفاتر ہونے چاہیے تھے، لیکن ایک بھی قائم نہیں کیا گیا۔ این آر اے ہیڈکوارٹر میں 33 منظور شدہ آسامیوں میں سے 24 (72فیصد) خالی رہے۔
آر ٹی آئی کے تحت داخل درخواستوں کے جواب نے حکومت کی سست روی کو بے نقاب کر دیا۔ این آر اے ایک اعلیٰ سطح کی گورننگ باڈی کی رہنمائی میں کام کرتی ہے جس میں ایک چیئرمین اور آٹھ ممبر ہوتے ہیں، جو مختلف تنظیموں سے آتے ہیں جن میں محکمہ پرسنل اینڈ ٹریننگ، ریلوے اور اسٹاف سلیکشن کمیشن شامل ہیں۔
این آر اے کے قیام کے بعد سے اس گورننگ باڈی کی صرف دو بار میٹنگ ہوئی ہے۔ ایک 21 جون 2022 کو اور ایک 12 جنوری 2023 کو۔ حکومت نے رازداری کا حوالہ دیتے ہوئے ان بیٹھکوں کی تفصیلات دینے سے انکار کر دیا۔
اس دوران مرکزی حکومت کو عملہ، عوامی شکایات، قانون اور انصاف پر پارلیامانی اسٹینڈنگ کمیٹی کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
کمیٹی نے اگست 2023 میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا، ‘کمیٹی اس بات پر زور دیتی ہے کہ نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی (این آر اے)، جسے گروپ ‘بی’ اور گروپ ‘سی’ ملازمین کے لیے امتحانات کرانے کا حکم دیا گیا تھا، ابھی تک پوری طرح سے فعال نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این آر اے نے ساڑھے تین سال بعد بھی کام شروع نہیں کیا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایجنسی کب کام کرنا شروع کرے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۔’این آر اے مکمل طور پر فعال ہونے میں مزید دو سال کا وقت نہیں لے سکتی۔ ‘کمیٹی کے ارکان کا خیال تھا کہ اس سست رفتاری کو دیکھتے ہوئے ایجنسی کو کم از کم چھوٹے پیمانے پر امتحانات شروع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
‘کمیٹی این آر اے کو گریجویٹ سطح کے امتحانات سے شروع کرنے کا مشورہ دیتی ہے تاکہ مطلوبہ اہلیت کے حامل امیدواروں کی تعداد کو کم کیا جا سکے۔ اگر شروعات ایسے امتحان سے ہوتی ہے جس کے لیے دسویں جماعت کی اہلیت ہے، تو تمام گریجویٹس خود بخود اہل ہو جائیں گے، اور اتنی بڑی تعداد میں امیدواروں کا انتظام کرنا ناممکن ہو جائے گا،’ کمیٹی نے کہا۔
حتیٰ کہ این آر اے کو امتحان کے انعقاد کے بارے میں ایس ایس سی جیسی دوسری ایجنسیوں سےمشورہ لینے کو کہا گیا تھا–انہی ایجنسیوں سے جن کی جگہ جزوی طور پر این آر اے کو لینی تھی۔
یہ رپورٹ 2023 میں آئی تھی۔ فروری 2024 تک ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت این آر اے کو بھول چکی ہے۔
جب حکومت نے امتحانات میں نقل اور پیپر لیک کو روکنے کے لیے جلد بازی میں ایک قانون پاس کیا تو تمام مرکزی بھرتی ایجنسیاں، جیسے یو پی ایس سی، ایس ایس سی اورآر آر بی اس کے دائرے میں تھیں، لیکن این آر اے کا نام ندارد تھا۔
مالی سال 2024-25 شروع ہوچکا تھا، لیکن این آر اے اور کامن ایلیجبلٹی ٹیسٹ ابھی شروع ہونا باقی تھا۔ لیکن عام انتخابات قریب تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس مشکوک ریکارڈ کواور بھی بڑے وعدوں کے پیچھے چھپا لیا۔
پارٹی نے اپنے منشور میں دعویٰ کیا کہ ‘ہم نے شفاف سرکاری بھرتی امتحانات کے ذریعے لاکھوں نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کیا ہے۔ ہم مستقبل میں بھی سرکاری بھرتیاں بروقت اور شفاف طریقے سے کرتے رہیں گے۔’
اگرچہ این آر اے کا براہ راست منشور میں ذکر نہیں کیا گیا تھا، لیکن یہ واحد نیا نظام تھا جسے حکومت نے ‘شفاف اور وقت کی پابندی’ کے ساتھ امتحانات کے انعقاد کے لیے بنایا تھا۔
اگرچہ حکومت مرکزی ملازمتوں کے لیے بھرتی کے امتحانات کرانے میں ناکام رہی، لیکن بی جے پی نے اپنے 2024 کے منشور میں یہ کہنے سے گریز نہیں کیا کہ ‘ہم دلچسپی رکھنے والی ریاستی حکومتوں کے ساتھ بھی سرکاری امتحانات کو کامیابی سے منعقد کرنے کے لیے تعاون کریں گے’۔
اب نریندر مودی مسلسل تیسری بار اقتدار میں آئے ہیں لیکن کامن ایلیجبلٹی ٹیسٹ کا وعدہ ایک خواب ہی رہ گیا ہے جو پورا نہیں ہو رہا۔ راہل جیسے امیدوار منسوخی اور پیپر لیک ہونے کے خوف کے باوجود کئی امتحانات میں شرکت کرتے رہتے ہیں۔
حالاں کہ این آر اے نے تحریری سوالات کا جواب نہیں دیا، ایک اہلکار نے آف دی ریکارڈ بولتے ہوئے دی کلیکٹو کو بتایا کہ امتحان کے نصاب، ملک بھر میں 1000 امتحان کے مراکز کی نشاندہی اور پہلے مشترکہ اہلیت کے امتحان کی تاریخ طے کرنے کا کام جاری ہے۔
(سوچک پٹیل آزاد صحافی اور محقق ہیں ۔)
یہ رپورٹ بنیادی طور پر دی رپورٹرز کلیکٹو نے شائع کی ہے۔
Categories: فکر و نظر