خبریں

ہاتھرس بھگدڑ: کئی ناموں والے ’بھولے بابا‘ کے کرامات کا دعویٰ ماضی میں ان کی گرفتاری کا سبب بھی بن چکا ہے

بھگوا لباس یا دھوتی کُرتا جیسے باباؤں کے روایتی لباس سے قطع نظر سوٹ بوٹ اور ٹائی میں ملبوس کرامات کے ذریعے عقیدت مندوں کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ کرنے والے  ‘بھولے بابا’ کو ‘سورج پال’ اور ‘نارائن ساکار ہری’ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

(تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: اترپردیش کے ہاتھرس میں منعقد ست سنگ میں بھگدڑ سے 121 لوگوں کی موت کے بعد یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ جس ‘بھولے بابا’ کے چرنوں کی دھول (قدموں کی خاک)  حاصل کرنے کی خواہش میں لوگ مو ت کے منھ میں چلے گئے، حقیقت میں  اس کا تنازعات سے گہرا ناطہ ہے، جس کی جڑیں ڈھائی دہائی پرانی ہیں اور اب  یہ تہہ در تہہ بے نقاب ہو رہی ہیں۔ ماضی میں ان کی  گرفتاری بھی  ہو چکی ہے، ان پر زمین پر تجاوزات کے بھی الزام لگ چکے ہیں اور کورونا وبا کی پابندیوں کے درمیان ست سنگ کرکے ہزاروں لوگوں کے ہجوم کو جمع کرنے کی وجہ سے بھی وہ تنازعات میں رہے ہیں۔

کئی ناموں والے ‘بھولے بابا’یوپی پولیس میں کانسٹبل رہ چکے ہیں

بھگوا لباس یا دھوتی کُرتا جیسے بابا کے روایتی لباس  سے قطع نظر سوٹ بوٹ اور ٹائی میں ملبوس کرامات کے ذریعے عقیدت مندوں کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ کرنے والے  ‘بھولے بابا’ کو ‘سورج پال’ اور ‘نارائن ساکار ہری’ کے نام سےبھی جانا جاتا ہے۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق ، بابا بننے سے پہلے وہ 90 کی دہائی میں اتر پردیش پولیس میں ہیڈ کانسٹبل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اتر پردیش لوکل انٹلی جنس یونٹ کے رکن بھی رہے ہیں۔ اب وہ لاکھوں پیروکاروں کے ساتھ کراماتی بابا کہلاتے ہیں، جن کے عقیدت مندوں میں بھگدڑ میں جان گنوانے والے عام لوگوں سے لے کر یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو جیسے بااثر لوگ تک شامل ہیں۔

ان کا ست سنگ پروگرام ہر ماہ  کے پہلے منگل کو شمالی ہندوستان کے مختلف حصوں میں ہوتا ہے، جہاں ان کے پیروکاروں کے مطابق، بیماریوں کا علاج، غربت سے نجات اور حتیٰ کہ مردوں کو زندہ کرنے جیسے ناممکن کارنامےانجام دیے جاتے ہیں۔

اسی  توہم پرستی کی وجہ سے یوپی کے مین پوری میں واقع ان کے آشرم میں روزانہ ہزاروں لوگ ان کا آشیرواد لینے آتے ہیں۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کے آشرم میں ایسے انتظامات کیے گئے ہیں کہ لوگ وہاں کچھ دن گزار بھی سکتے ہیں۔

گزشتہ چند سالوں میں’بھولے بابا‘ کے دربار میں یہ روایت دیکھنے میں آئی  ہے کہ وہ جب بھی عقیدت مندوں کے درمیان سے گزرتے ہیں تو ان کے قدموں کی خاک اٹھانے کے لیے لوگ ٹوٹ پڑتے  ہیں۔ اس عمل کو ‘راج’ کا نام دیا گیا ہے اور اسی  ‘راج’ کی وجہ سے منگل کے روز ہاتھرس میں موت پرماتم  کے راج کا مشاہدہ کیا گیا۔

بھولے بابا عرف سورج پال عرف نارائن ساکار ہری کا ماضی

اتر پردیش کے کاس گنج ضلع کے پٹیالی گاؤں کے رہنے والے سورج پال 1998 تک یوپی پولیس میں ہیڈ کانسٹبل تھے۔ انہوں نے ایٹہ ڈسٹرکٹ لوکل انٹلی جنس یونٹ میں بھی کام کیا۔ بعد میں انہوں نے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لے لی۔

ہندوستان ٹائمز نے اس وقت کے ان کے معاونین کے حوالے سے بتایا کہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں پال آگرہ کے کیدار نگر میں واقع اپنے گھر سے واپس اپنے گاؤں چلے گئے اور ایک جھونپڑی میں رہنے لگے۔ انہوں نے اپنے اس قدم کو ‘ایشور کے ساتھ براہ راست تجربے’سے متاثر قرار دیا، جہاں انہیں  احساس ہوا کہ ‘ان کا جسم پرماتما  کا ایک حصہ ہے۔’

انہوں نے دعویٰ کرنا شروع کیا کہ وہ نارائن (بھگوان وشنو) کا حصہ  ہیں، اور وہ اپنے لیے ‘نارائن ساکار ہری’ کا نام استعمال کرنے لگے۔

ہندوستان ٹائمز نے یوپی کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ بھولے بابا کے زیادہ تر عقیدت مند دلت یا پسماندہ طبقے سے ہیں، جو بابا کو بھگوان کا اوتار مانتے ہیں جو ان کے درمیان سے ایسے وقت میں آئے جب وہ محسوس کرتے تھے کہ ان کی آواز کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ‘بھولے بابا’ کی طرف اس لیے راغب ہوئے کیونکہ وہ خود ایک دلت گھرانے سے ہیں اور کسی بھی طرح کا چڑھاوا نہیں مانگتے ہیں۔

بھولے بابا کے پروگراموں میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے پوسٹر ‘تنوع میں اتحاد’ امتیازات کو دور کرنے اور نارائن ساکار کی شکتی میں یقین رکھنے کی باتیں کہی جاتی ہیں، جو کسی نہ کسی طرح محروم طبقوں کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔

ان کے اثرورسوخ کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو جیسے لیڈران نے بھی ان کے ست سنگ میں شرکت کی ہے۔ اکھلیش2013 میں ان کے  اجلاس میں پہنچے تھے،اس وقت وہ یوپی کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ آئی اے ایس افسران ان کے آشرم میں جا کر اپنی شادی  کیا کرتے تھے۔

بابا کے تنازعات

بھولے بابا کے ان کے پاس پچاس کرامات ہونے کے دعووں کی وجہ سے 2000 میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پولیس حکام کے مطابق، اس وقت انہیں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق ، 2000 میں آگرہ میں اس وقت انہیں گرفتار کیا گیا تھا،  جب انہوں نے مبینہ طور پر ایک 16 سالہ لڑکی کی لاش  کو اس کے خاندان سے زبردستی چھین کر دعویٰ کیا تھا کہ وہ اسے زندہ کر دے گا۔ تاہم ، بعد میں پولیس نے اس کیس کو بند کر دیا۔

آگرہ کے شاہ گنج کے اس وقت کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) ریٹائرڈ پولیس افسر تیجویر سنگھ نے مارچ 2000 میں بھولے بابا کی گرفتاری کو یاد کرتے ہوئے کہا، ‘سورج پال 200-250 لوگوں کے ساتھ شمشان گھاٹ پہنچے، جہاں 16 سالہ لڑکی لاش کو اس کے گھر والے لائے تھے۔ سورج پال اور دیگر نے خاندان کو آخری رسومات ادا کرنے سے روک دیا  اور انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اسے دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔’

پولیس اسٹیشن کے ریکارڈ کے مطابق،  مقدمہ 18 مارچ 2000 کو درج کیا گیا تھا۔ اس میں سورج پال اور ان کی اہلیہ سمیت چھ لوگوں ملزم  کو بنایا گیا تھا، جن کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 109 (بھڑکانا) اور ڈرگس اینڈ میجک ریمیڈیز (قابل اعتراض اشتہار) ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ تیجویر سنگھ کے مطابق، اس وقت سورج پال اور ان کے ساتھیوں نے پولیس ٹیم پر پتھراؤ بھی کیا تھا، جس کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

آگرہ کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس نے بھی انڈین ایکسپریس کو اس گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔ تاہم، کیس میں کلوزر رپورٹ 2 دسمبر 2000 کو دائر کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ، مئی 2021 میں بھی کوروناکے درمیان پابندیوں کے باوجود فرخ آباد میں تقریباً 50000 لوگوں کا ست سنگ منعقد کرنےکے لیے  ان کے اور ان کے سیواداروں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

کانپور کے گھاٹم پور اے سی پی رنجیت کمار نے ہندوستان ٹائمز کو یہ بھی بتایا ہے کہ پولیس بھولے بابا کے خلاف اس معاملے کی بھی تحقیقات کر رہی ہے جس میں ان کی تنظیم ‘ساکار وشو ہری’ پر کرسوئی گاؤں میں سات بیگھہ زمین پر مبینہ طور پر قبضہ کرنے کا الزام ہے۔