خبریں

جموں و کشمیر: لیڈروں کی سیکورٹی واپس لینےکی خبر شائع کرنے والے اخبار کے مالک کے یہاں چھاپے

جموں و کشمیر پولیس نے جموں کے ایک کاروباری اور دو اخبارات کے مالک ترون بہل کو آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت گرفتار کیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے صوبے میں کچھ فراد کی سیکورٹی واپس لینے سے متعلق ‘خفیہ’ دستاویز کو عام کیا تھا۔

ترون بہل۔ دونوں طرف روزنامہ آسمان اور شری ٹائمز کی ای پیپر کلپ، جنہیں شری ٹائمز کے فیس بک پیج پر اپ لوڈ کیا گیا ہے۔

ترون بہل۔ دونوں طرف روزنامہ آسمان اور شری ٹائمز کی ای پیپر کلپ، جنہیں شری ٹائمز کے فیس بک پیج پر اپ لوڈ کیا گیا ہے۔

نئی دہلی: جموں — کشمیر پولیس نے جموں کے ایک کاروباری  اور دو اخبار مالکان کی جائیدادوں پر چھاپہ  مارا ہے، جنہیں اسی ہفتے آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت اس الزام میں گرفتار کیا گیا تھا کہ انہوں نے مرکز کے زیر انتظام علاقے کے بعض افراد کی سکیورٹی واپسی سے متعلق ایک ’خفیہ دستاویز‘ کو عام کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق، ترون بہل کو بدھ (10 جولائی) کو جموں شہر کے چنی ہمت علاقے میں واقع ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔

ان پر مبینہ طور پرایسے 57 افراد کی فہرست نشر کرنے کا الزام ہے – جن میں کچھ صحافی، سیاستدان اور ریٹائرڈ پولیس افسران بھی شامل ہیں – جن کی سیکورٹی حال ہی میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے واپس لے لی ہے۔

خفیہ دستاویز لیک کرنے کا الزام

حکام نے بتایا کہ ‘خفیہ’ دستاویزکو بہل کے ذریعے چلائے جانے والے وہاٹس ایپ گروپ ‘دی شری ٹائمز’ اور ‘دی ڈیلی آسمان’ میں نشرکیا گیا تھا۔ انہیں جموں شہر کی پولیس نے چنی ہمت پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی دفعہ 3 (ایسی جانکاری نشر کرنا جو کسی دشمن کے لیے مفید یا ہندوستان کی خودمختاری اور سالمیت، ریاست کی سلامتی یا غیر ملکیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو) اور دفعہ 5 (خفیہ معلومات کی غلط مواصلت) کے تحت درج معاملے (ایف آئی آر نمبر 80/2024) میں گرفتار کیا تھا۔

اس معاملے میں بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعہ 49 (اشتعال انگیزی کی سزا) اور 353 (اجتماعی طور پر نقصان پہنچانے کے لیے اکسانے والے بیان) بھی لگائی گئی ہیں۔

دوسرا معاملہ (ایف آئی آر نمبر 48/2024) دارالحکومت سری نگر کے شیر گڑھی پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا۔ یہ اس  دستاویز کو نشرکرنےکے سلسلے میں ہے جس میں ‘مختلف افراد کی سکیورٹی میں کٹوتی  اور واپسی کی تفصیل دی گئی ہے’۔

جموں و کشمیر پولیس نے ایک بیان میں میڈیا اور وہاٹس ایپ گروپ کے منتظمین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسی معلومات کو پھیلانے سے گریز کریں جس سے ‘قوم کی سلامتی اور خودمختاری کو خطرہ ہو’۔

ایک پولیس افسر نے کہا، ‘ہم لیک کے ذرائع کی تحقیقات کر رہے ہیں اور ذمہ دار لوگوں کے خلاف سخت کارروائی شروع کریں گے۔ لوگوں سے گزارش ہے کہ ایسی حساس معلومات کو شیئر کرنے سے گریز کریں اور غیر مجاز انکشاف سے متعلق کسی بھی معلومات کی اطلاع پولیس کو دیں۔ یہ واقعہ خفیہ معلومات کے تحفظ کی اہمیت کو واضح کرتا ہے، خصوصی طور پر جب اس کا تعلق قومی سلامتی اور خطرے سے دوچار افراد کی سکیورٹی سے ہو۔‘

اخبار کو بی جے پی سے اشتہارات ملتے تھے

’دی شری ٹائمز‘دسمبر 2020 میں بنائے گئے اپنے ایکس  اکاؤنٹ پرخود کو شری گروپ آف پبلیکیشنز کی ملکیت والا’جموں و کشمیر مؤقر انگریزی اخباربتایا ہے، جسے بہل چلا تے ہیں اور جس کی ویب سائٹ فی الحال نہیں کھل رہی ہے۔

دو  دسمبر 2014 کو شری ٹائمز کے صفحہ اول کی ایک تصویر، جو بہل کی فیس بک پروفائل تصویر بھی ہے، ظاہر کرتی ہے کہ اخبار کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے اشتہارات موصول ہوئے تھے۔ اردو اخبار روزنامہ آسمان کے مالک بھی بہل ہیں۔

حکام نے بتایا کہ بہل، جو جموں میں کچھ تعلیمی ادارے بھی چلاتے ہیں، کو 10 جولائی کو ایک عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جس نے انہیں چار دن کی پولیس ریمانڈ پر بھیج دیا۔ آئی اے این ایس کی ایک رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے: ‘ان کے انکشافات سے پتہ چلا ہے کہ بہل کے 125 بینک اکاؤنٹ ہیں جن کے ذریعے انہوں نے کالے دھن کو سفید کیا۔ ملزم کے پاس 16 لگژری کاریں ہیں۔ ثبوتوں سے ان کے جموں و کشمیر کے سینئر بیوروکریٹس اور مقامی سیاست دانوں کے ساتھ روابط کا بھی پتہ چلتا ہے۔‘

جمعرات کو، جموں و کشمیر پولیس نے کہا کہ اس نے جموں میں بہل کی جائیدادوں پر چھاپوں کے دوران ڈیوٹی مجسٹریٹ اور آزاد گواہوں کی موجودگی میں کچھ الکٹرانک آلات اور دستاویز ضبط کیے ہیں۔

پولیس کے ایک ترجمان نے کہا، ‘ملزم کا یہ عمل معاشرے کے کسی دوسرے طبقے کے خلاف لوگوں کو کوئی جرم کرنے کے لیے اکسانے کے مترادف ہے۔ تفتیش کے دوران عدالت سے سرچ وارنٹ حاصل کیے گئے اور چنی ہمت میں ترون بہل کے گھر اور چاواڑی میں انٹرنیشنل برٹش اسکول کی تلاشی لی گئی۔‘

بہل کے خلاف یہ کارروائی جموں و کشمیر کے ایک سابق پولیس افسر کی آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت گرفتاری کے تقریباً دو ماہ بعد ہوئی ہے۔ مذکورہ پولیس افسر پر مبینہ طور پر اپنی کتاب میں ‘حساس معلومات’ شائع کرنے کا الزام تھا۔