جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ ڈی جی پی آر آر سوین نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر کے مرکزی دھارے کے لیڈروں کے دہشت گردی سے وابستہ ہونے کے ’خاطرخواہ شواہد‘ موجود ہیں۔ اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے ان پر ایک مخصوص سیاسی نظریے اور سیاسی جماعت کے لیے کام کرنے کا الزام لگایا ہے۔
نئی دہلی: جموں و کشمیر کے پولیس چیف (ڈی جی پی) آر آر سوین نے یہ دعویٰ کرکے ایک بڑا تنازعہ کھڑا کردیا ہے کہ کشمیر کی سیاسی جماعتیں ‘انتخابی فائدے کے لیے دہشت گرد نیٹ ورک کے لیڈروں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔’ ان کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈوڈہ دہشت گردانہ حملے سے محض چند گھنٹے قبل سوین نے دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر کے مرکزی دھارے کے رہنماؤں کے دہشت گردی سے وابستگی کے ’کافی ثبوت‘ہیں، کیوں کہ جب جموں و کشمیر ایک صوبہ تھا تب پاکستان ’ہماری سول سوسائٹی کے تمام اہم پہلوؤں میں دراندازی کرنے میں کامیاب رہا۔بتادیں کہ ڈوڈہ حملے میں فوج کے ایک کیپٹن اور چار جوان سمیت جموں و کشمیر پولیس کے ایک اہلکار نے اپنی جان گنوائی ہے۔
ڈی جی پی نےجموں واقع انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (آئی آئی ایم) میں ایک لیکچر کے دوران سوموار کو کہا ، ’صورتحال یہ ہے کہ نام نہاد مرکزی دھارے کی علاقائی پارٹیوں نے اپنے انتخابی امکانات کو بڑھانے کے لیے دہشت گرد نیٹ ورک کے رہنماؤں کو ڈرا-دھمکا کراور بعض اوقات براہ راست بڑھاوا دینا شروع کر دیا ہے۔‘
سوین نے یہ بھی الزام لگایا کہ 2019 میں آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے سے پہلے مرکزی دھارے کی علاقائی سیاسی جماعتوں کی قیادت میں جموں اور کشمیر کی حکومتوں نے ان مشتبہ افراد کی تحقیقات میں رکاوٹ پیدا کی جو مبینہ طور پر دہشت گرد بھرتیوں کو ‘سہولیات اور پیشہ’ فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
تاہم، حال ہی میں بارہمولہ لوک سبھا حلقہ سےایم پی منتخب ہوئے عوامی اتحاد پارٹی کے صدر انجینئر رشید (جو جیل میں ہیں)، اور پی ڈی پی یوتھ کے صدر وحید پارہ کے علاوہ، کسی بھی مرکزی دھارے کے پارٹی لیڈر پر پولیس نے دہشت گردی کا الزام نہیں لگایا ہے۔ دونوں معاملوں کی سماعت ابھی جاری ہے۔
سوین نے کسی سیاسی پارٹی کا نام نہیں لیا، لیکن کچھ سیاسی تجزیہ کاروں نے ان کے تبصروں کو پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی سے جوڑا ہے، جو انکاؤنٹر میں مارے گئے دہشت گردوں کے گھر کا دورہ کرتی تھیں۔ مفتی نے انکاؤنٹر میں مارے گئے پولیس اہلکاروں اور عام شہریوں کے گھروں کا بھی دورہ کیا ہے۔
محبوبہ مفتی نے ڈی جی پی کو فکسر کہا
سوین کے تبصروں کے بعد سیاسی بیانات کی جھڑی لگ گئی۔ پی ڈی پی سربراہ نے انہیں برخاست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈوڈہ میں ہوئے حملے کا ذکر کرتے ہوئے مفتی نے کہا، ‘ڈی جی پی کو اب تک برخاست کر دیا جانا چاہیے تھا۔ گزشتہ 32 مہینوں میں تقریباً 50 فوجی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ کسی کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا جا رہا ہے، جبکہ موجودہ ڈی جی پی چیزوں کو سیاسی طور پر ٹھیک کرنےمیں لگے ہیں۔‘
سری نگر میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے پی ڈی پی صدر نے الزام لگایا کہ سوین اپنا کام کرنے سے زیادہ ان کی پارٹی کو توڑنے اور کشمیر کے لوگوں کو پریشان کرنے پر توجہ دے ر ہے ہیں۔ انہوں نے سوین پر فرقہ وارانہ تعصب کا بھی الزام لگایا۔ مفتی نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا، ‘ہمیں یہاں ‘فکسر’ کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں ایک ڈی جی پی کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ایسے بہت سے ڈی جی پی اور انتظامی افسران جو جموں و کشمیر سے نہیں تھے، نے یہاں بخوبی اپنا کام کیا ہے۔ لیکن آج جموں و کشمیر کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا، ‘صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ سوین کا کام یو اے پی اے کے تحت زیادہ سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کرنا اور ای ڈی /سی بی آئی جیسی ایجنسیوں کے ذریعے کاروباری اداروں پر چھاپے مارنا ہے۔ یہاں تک کہ مساجد کے قائدین کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ انہیں حکومت کے لیے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے یا پھر جیل جانے کے لیے تیار رہنے کی تنبیہ کی جاتی ہے۔‘
سری نگر لوک سبھا حلقہ کے رکن پارلیامنٹ اور نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما آغا روح اللہ مہدی نے سوین کو نشانہ بناتے ہوئے الزام لگایا کہ ڈی جی پی سوین ‘ایک مخصوص سیاسی نظریے اور سیاسی جماعت کے لیے کام کر رہے ہیں۔’
روح اللہ نے کہا، ‘سوین یہاں (کشمیر) سیاسی پارٹیوں کو توڑنے اور بنانے میں مصروف رہے، جبکہ 2023 سے جموں میں مختلف حملوں میں جے سی او اور مختلف رینک کے افسران سمیت 55 سے زیادہ فوجی اہلکار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اگر وہ ایک پولیس اہلکار کے طور پر اپنے کام پر زیادہ توجہ دیتے اور سیاسی کارکن کے طور پر کم کام کرتے ، تو ان سانحات کو ٹالا جا سکتا تھا۔‘
‘یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے’
پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون نے بھی سوین کے تبصروں پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے یونین ٹریٹری جموں و کشمیر میں ‘جمہوریت سے متعلق کسی بھی چیز کی توہین اور حقارت کی علامت’ قرار دیا۔
لون نے ایکس پر شیئر کی گئی ایک پوسٹ میں لکھا، ‘ ان—سروس افسران کے اس طرح کے بیانات جمہوریت سے متعلق کسی بھی چیز کے لیے توہین اور حقارت کی علامت ہیں۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس صورتحال کے اسکرپٹ رائٹر جموں و کشمیر کو اس نہج پر لانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔‘
ڈی جی پی سوین نے نام لیے بغیریہ بھی کہا کہ جب جموں و کشمیر میں علاقائی پارٹیاں حکومت کر رہی تھیں، تب پولیس سپرنٹنڈنٹ کی سطح کے افسران کو ’دہشت گردوں کے ساتھ سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔‘ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ڈی جی پی کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے ڈالے گئے ایس پی رینک کے واحد پولیس افسر ہنس راج پریہار ہیں۔
پریہار کو 2007 میں ڈی ایس پی (آپریشن) بہادر رام سمیت کم از کم سات پولیس افسران کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ سب اس سازش میں ملوث تھے، جس میں مالی انعامات اور ترقی پانے کے لیے معصوم مزدوروں اور چھوٹے مزدوروں کا اغوا کر کے انہیں غیر ملکی دہشت گرد قرار دے کر فرضی انکاؤنٹر میں مار دیا گیا تھا۔
گاندربل ضلع کے ایس ایس پی کے طور پر پریہار پر اننت ناگ ضلع کے ایک بڑھئی غلام رسول پدر کے اغوا اور ایک فرضی انکاؤنٹر میں قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس سلسلے میں سنبل پولیس اسٹیشن میں کیس درج کیا گیا تھا۔
گزشتہ سال ایک عدالت نے اس معاملے میں پریہار کو طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت دی تھی۔ اس معاملے پر نظر رکھنے والے ایک وکیل نے دی وائر کو بتایا کہ پریہار کی درخواست کے بعد کیس کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی جموں برانچ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ وکیل نے کہا، ‘عبوری ضمانت کو مستقل کر دیا گیا ہے۔’ انہوں نے کہا کہ 2006 کے فرضی انکاؤنٹر کیس میں کم از کم ایک ملزم اب بھی جیل میں ہے۔
وکیل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ‘اس معاملے کی جانچ جموں و کشمیر پولیس نے پیشہ ورانہ انداز میں کی۔ عدالت نے استغاثہ کی طرف سے پیش کیے گئے شواہد کو درست پایا اور کہا کہ پدر کے قتل نے ‘یقینی طور پر پولیس تنظیم کے کام کاج پر عام آدمی کے اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے۔’
سوین کا یہ تبصرہ ایسے وقت میں آیا ہے جب جموں و کشمیر میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ سکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں پر حملوں کے واقعات کے بعد پیر پنجال علاقے اور وادی چناب میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن کیے جا رہے ہیں۔ سوموار کی شام ڈوڈہ میں ہونے والا حملہ 9 جون کے بعد سے جموں خطے میں اس طرح کا چھٹا واقعہ تھا، جس میں 12 سیکورٹی اہلکار اور 10 عام شہری مارے گئے تھے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔
Categories: خبریں