فکر و نظر

’بادشاہ گروں‘ کے ساتھ مودی حکومت کا حشر کیا سابقہ مثالوں سے الگ ہوگا؟

اس ملک میں بادشاہ گروں کی سیاست کی تاریخ بتاتی ہے کہ عام طور پراس کا کوئی خوش کن انجام نہیں ہوتا، کیونکہ نہ تو کنگ میکر اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھانے میں صبر وتحمل سے کام لیتے ہیں اور نہ ہی ‘کنگ’ ان کے تمام مطالبات تسلیم کر پانے کے اہل ہوتے ہیں۔

چندر بابو نائیڈو، پی ایم نریندر مودی اور نتیش کمار۔ (تصویر بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنز، پی آئی بی اور فیس بک)

چندر بابو نائیڈو، پی ایم نریندر مودی اور نتیش کمار۔ (تصویر بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنز، پی آئی بی اور فیس بک)

یہ بات تو خیر لوک سبھا انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ‘چار سو پار’ کے نعرے کے بیک فائر کرنے کے باعث بی جے پی کی واضح اکثریت سے بھی پہلے ٹھٹھک کر ‘ سنگل لارجیسٹ پارٹی’ محض بننے کے ساتھ ہی صاف ہو گئی تھی کہ کنگ میکر (پڑھیے: بیساکھیوں) کی وہ سیاست، جسے پچھلے دس سالوں میں بی جے پی کی واضح  اکثریت والی مودی حکومتوں کے دور میں لوگ فراموش کر چکے تھے، دوبارہ  اپنے دم خم  کے ساتھ واپس لوٹ آئے گی۔

اسی کے باعث کئی  لوگ موی کے ذریعے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ‘دوبارہ زندہ کیے گئے’ این ڈی اے کو ‘نائیڈو-نتیش ڈیموکریٹک الائنس’ تک کہنے لگے تھے- این ڈی اے میں تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کے سربراہ چندربابو نائیڈو (وزیر اعلیٰ: آندھرا پردیش) اور جنتا دل (متحدہ) کے نتیش کمار (وزیر اعلیٰ: بہار) کی کنگ میکنگ کے پیش نظر۔

پاور کے سپورٹ پرائس یا  امدادی قیمت کی ادائیگی!

چونکہ این ڈی اے حکومت میں بدل جانے کو ملعون تیسری بار آئی  مودی سرکار  انہی  دونوں کی بیساکھیوں پرایستادہ  ہے اور اس کی جان  انہی کے پنجروں میں قید ہے، اس لیے اس بابت بھی  شاید ہی کسی کو کوئی شبہ تھا کہ وہ ہر حال میں لپو –چپومیں لگی رہے گی ۔ پھر بھی، شاید ہی کوئی یہ توقع کر رہا ہو کہ وہ اپنے پہلے ہی بجٹ میں ان دونوں کی مقتدرہ ریاستوں آندھرا پردیش اور بہار پر  اس قدر ‘نظر عنایت’ کر دے گی کہ اپوزیشن کو اسے وفاقی ڈھانچے کے خلاف، تین چوتھائی ملک کو نظر انداز کرنے والا ‘اتحادیوں کو خوش کرو’ اور ‘کرسی بچاؤ’ بجٹ قرار دینے کا موقع مل جائے گا۔

اتنا ہی نہیں، ایک اخبار اس کی  خبر دیتے ہوئے سرخی لگائے گا کہ ‘حکومت نے اقتدار کی امدادی  قیمت ادا کی’ اور کئی حلقوں میں اسے ان ریاستوں کو سزا دینے کے طور پر بھی بیان کیا جائے گا،  جہاں بی جے پی لوک سبھا انتخابات میں ہار گئی۔

ابھی معاملہ نیا-نیا ہے اور دونوں طرف سے ‘نیا ملا زیادہ پیاز کھاتا ہے’ جیسی حالت ہے، اس لیے بہت ممکن ہے کہ پٹنے اور پٹانے کے اس کھیل میں’کنگ’ کو بھی خوب مزہ آ رہا ہو اور اور کنگ میکر کو بھی۔ لیکن یہ ماننے کی وجوہات ہیں کہ حالات جلد بدل جائیں گے اور دونوں کے لیے ایک دوسرے کو آسانی سے برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔

‘کنگ’کے پاس اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ تھاکہ  وہ اپنی ریڑھ کی ہڈی زیادہ نہیں تو تھوڑی بہت بچائے رکھتےکنگ میکر کو اپنے جھکنے کی حدود کے بارے میں واضح اشارہ دیتے۔ اتنا واضح کہ کنگ میکر سمجھ جاتے کہ انہوں نے انہیں اس سے زیادہ جھکانے کی کوشش کی تو وہ جھکنے کی بجائے حکومت کو قربان کرنا بہتر سمجھیں گے۔ جب بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے سے انکار کی خبر آئی تو ایک لمحے کے لیے ایسا لگا بھی کہ ان کی جانب سے  یہ جتانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

‘این اولڈ مین ان ہری’

لیکن بجٹ میں ان کی ‘خودسپردگی’ نے ان کے جھکنے کی حدکو  جس طرح لامتناہی بنا دیا ہے،تعجب نہیں کہ  کنگ میکر جلد ہی انہیں کیچوا بنانے پر تل جائیں۔ جس کے بعد ان کی برطرفی میں ایچ ڈی دیوے گوڑا جیسی چمک بھی نہ رہ جائے، جنہوں نے کانگریس کے اس وقت کے صدر سیتارام کیسری کی جانب سے ان کو جھکانے کی کوششوں کے درمیان استعفیٰ دینے سے پہلے انہیں ‘این اولڈ میں ان ہری’ تک  کہہ ڈالا تھا۔

ویسے بھی اس ملک میں بادشاہ گروں  کی سیاست کی تاریخ بتاتی ہے کہ عام طور پر اس کا کوئی خوش کن انجام نہیں ہوتا کیونکہ نہ تو کنگ میکر اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھانے میں صبروتحمل سے کام لیتے ہیں اور نہ ہی کنگ ان کے تمام مطالبات تسلیم کرنے کے اہل  ہوتے ہیں۔ آخرکار، بے بس کنگ ان کی  بیساکھیوں پر کھڑے رہنے کے بجائے ان سے نجات پانےکی راہ  ڈھونڈنے لگتے ہیں  اور بات بگڑنے میں دیر نہیں لگتی۔

اگر ماضی میں جھانکیں تو آزاد ہندوستان کے پہلے کنگ میکرکے کامراج کی ان اندرا گاندھی سے بھی نبھ پائی تھی، جنہیں وزیر اعظم بنانے کے لیےبساط بچھانے  میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

اتفاق سے، 1964 میں پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی موت کے بعد ملک کو اپنا پہلا کنگ میکر کامراج کی شکل میں ملا، جب کانگریس کے صدر کے طور پر ‘نہرو کے بعد کون ؟’ کا جواب دینے کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آئی۔ (ویسے تو کئی  لوگ مہاتما گاندھی کو آزاد ہندوستان کا پہلا کنگ میکر مانتے ہیں، جنہوں نے پنڈت نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل کے  مقابلے میں نہرو کے لیے عبوری وزارت عظمیٰ کی راہ ہموار کی تو ایک ایک طرح سے اپنے جانشین کا انتخاب کیا تھا۔ لیکن اس معاملے کی نوعیت مختلف تھی۔)

کامراج 13 اپریل 1954 کو اس وقت کی مدراس (اب تمل ناڈو) ریاست کے وزیر اعلیٰ بنے  تھے اور 2 اکتوبر 1963 کو یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا کہ کانگریس کے بزرگ  لیڈروں کے دل سے اقتدار کے لالچ کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ان لیڈروں کو حکومتوں سے ہٹا کر پارٹی تنظیم میں لا کر عام لوگوں سے جوڑنے کا منصوبہ پیش کیا تھا اور خود کو بھی اس سے مستثنیٰ نہیں کیا تھا۔ اس منصوبے  کو بعد میں اس کو ‘کامراج اسکیم’ کا نام دیا گیا اور اس کے تحت وہ پارٹی کے صدر بن گئے۔ اس منصوبے کا ایک پوشیدہ مقصد چین کے حملے سے نمٹنے میں ناکام ہو کر اپنی چمک کھو بیٹھے نہرو کو اپنی کابینہ کی تجدید کے لیے سہولت فراہم کرنا بھی بتایا جاتا ہے ۔

وہ پہلا کنگ میکر

تاہم، نہرو کی موت کے وقت صدر کی حیثیت سے کامراج پارٹی میں اس قدر اثر و رسوخ رکھتے تھے کہ وہ خود وزیر اعظم بن سکتے تھے، لیکن ان کا ماننا تھا کہ جس لیڈر کو ہندی اور انگریزی ٹھیک سے نہ آتی ہو، اسے وزیر اعظم نہیں بننا چاہیے۔ نیز کسی کو کوئی ایسا عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے جس کے ساتھ وہ مکمل انصاف نہ کر سکے۔ کامراج خود نہ تو ہندی جانتے تھے اور نہ انگریزی۔ ان کے حامیوں نے ان پر بہت دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے لیے اس معیار میں نرمی پیدا کریں، لیکن وہ سخت گیر واقع ہوئے۔

اس وقت ان کے علاوہ گلزاری لال نندا، جئے پرکاش نارائن، مرارجی دیسائی، لال بہادر شاستری اور اندرا گاندھی کے نام وزیر اعظم کے عہدے کی دوڑ میں تھے۔ ان میں نندا کا دعویٰ اس لیے مضبوط تھا کہ وہ وزیر داخلہ اور قائم مقام وزیر اعظم کے طور پر سب سے سینئر وزیر تھے، جبکہ شاستری کا دعویٰ اس لیے تھا کہ نہرو اپنے آخری دنوں میں کافی حد تک ان پر انحصار کر چکے تھے۔ وزیر خزانہ مرار جی دیسائی کانگریس پارلیامانی پارٹی میں اپنے گہرے اثر و رسوخ کی وجہ سے پراعتماد تھے، جبکہ جئے پرکاش نارائن اور اندرا گاندھی کے ناموں کو مختلف انداز میں آگے بڑھایا جا رہا تھا۔ ان میں مرارجی کے علاوہ کوئی بھی لابی نہیں کر رہا تھا۔

بعد میں، شاستری اور مرارجی کے درمیان مقابلہ رہ گیا، کنگ میکر کامراج نے مرار جی کی راہ  میں رکاوٹ پیدا کرنے کے لیے انتخابات کے بجائے اتفاق رائے کا برہماستر استعمال کیا۔ پارلیامانی پارٹی میں اس کے  لیڈر یعنی وزیر اعظم کے انتخاب کو پارٹی کے اتحاد کے لیے نقصاندہ قرار دیتے ہوئے انھوں نے’بڑا بننے کی خواہش ‘ رکھنے والے مرار جی کے بجائے ‘سیدھے، سادہ اور ایماندار گُدڑی کےلال’ لال بہادر شاستری کے نام پر اتفاق رائے بنانے کی کوششیں شروع کر دیں اور کامیاب رہے۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے نہرو کی اس بات کا بھی لحاظ  رکھا کہ اگر مرار جی وزیر اعظم بن گئے تو وہ اندرا گاندھی کو کبھی وزیر اعظم نہیں بننے دیں گے۔

کامراج اور اندرا کی نہیں بنی

ان کے اور ان کے کنگ (لال بہادر شاستری) کے تعلقات خراب ہوتے، اس سے پہلے  ہی پاکستان کے ساتھ جنگ ہوئی، جس کے سلسلے میں تاشقند گئے شاستری کا 11 جنوری 1966 کو  وہیں انتقال ہو گیا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس کے بعد کامراج نے کنگ میکر کے طور پر اپنا آخری فیصلہ لیا اور اندرا گاندھی کو وزیر اعظم بنوایا تو جلد ہی دونوں قطبین  پر جاپہنچے۔

اس کے بعد ان کی اور کانگریس کی انتخابی شکستوں نے صورتحال کو اس قدر بدل دیا کہ معاملہ پارٹی کی تقسیم تک پہنچ گیا اور 1969 کے آخر میں کامراج نے ایک الگ پارٹی انڈین نیشنل کانگریس (تنظیم) کی بنیاد رکھی۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اندرا گاندھی کی چال بازیوں کا مقابلہ نہ کر سکے اور انہیں قومی سیاست سے کنارہ کشی اختیارکرکے  اپنی آبائی ریاست تمل ناڈو کی  راہ لینی  پڑی۔ 1971 کے لوک سبھا انتخابات میں انہوں نے وہاں اپنی سیٹ تو جیت لی، لیکن ان کی پارٹی کے زیادہ تر لیڈروں کو عوام کا اعتماد حاصل نہیں ہوا۔

کنگ میکنگ کے منفی نتائج

تاہم، ان کے کنگ میکر ہونے کا منفی نتیجہ  یہ نکلا  کہ ایک پرعزم  مجاہد آزادی اور گاندھیائی اقدار کے بے مثال وکیل کی ان کی امیج دھندلی ہو گئی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جلیانوالہ باغ کے قتل عام سے متاثر ہو کر وہ 15 سال کی عمر میں جدوجہد آزادی میں کود پڑے تھے اور 16 کے ہوتے ہوتے  وہ کانگریس کے سرگرم کارکن بن چکے تھے۔ اس کے بعد وہ چھ مواقع پر مجموعی طور پر تین ہزار دنوں تک جیل میں رہے اور طرح طرح کی اذیتیں بھی برداشت کیں۔

کامراج، جو آئین ساز اسمبلی کے رکن تھے، ان مجاہدین آزادی میں شامل نہیں تھے جنہوں نے 15 اگست 1947 کو آزادی ملنے کے بعد اپنے کام کو ختم مان لیا۔ ان کا خیال تھا کہ نئے آزاد ملک کی تعمیر نو کا ایک بہت اہم کام ابھی باقی ہے۔ جب وہ مدراس کے وزیر اعلیٰ بنے تو وہ  ہر گاؤں میں پرائمری اسکول، ہر پنچایت میں ہائی اسکول اور گیارہویں جماعت تک مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کے منصوبے کے ساتھ سامنے آئے۔

آج کل سرکاری اسکولوں میں مڈ ڈے میل اور مفت یونیفارم جیسی اسکیموں کا سہرا لیتی سرکاریں شرماتی نہیں ہیں ،لیکن انہیں شروع کرنے سہرا بھی کامراج کو ہی جاتا ہے۔

دوسری اننگ

بہرحال،نتیش کو بھلے ہی نئی نئی کنگ میکری  ملی ہو، نائیڈو کی کنگ میکری  کی یہ دوسری اننگ ہے۔ پہلی اننگ کے تحت وہ  1996 میں پہلے دیوے گوڑا اور پھر اندر کمار گجرال کو ‘کنگ’ بنا چکے ہیں اور دونوں کا حشر انہیں آج بھی یاد ہوگا۔ اس سے پہلے، 1977 کے لوک سبھا انتخابات میں جنتا پارٹی کو اکثریت ملنے پر  مرار جی دیسائی کو وزیر اعظم منتخب کرنے میں جئے پرکاش نارائن اور آچاریہ کرپلانی کا کردار بھی کنگ میکر کا ہی تھا، جو نہ تو مرار جی کی حکومت کو بکھرنے سےروک سکا اور نہ جنتا پارٹی کو۔

سال 1979 میں جنتا پارٹی میں شدید تنازع کے بعد وزیر صحت کے عہدے سے برخاست اور اور پارٹی سے نکال دیے گئے راج نارائن، چودھری چرن سنگھ کو وزیر اعظم بنانے کے لیے ہنومان بنےتو بھی کنگ میکر ہی تھے۔ لیکن چرن سنگھ کنگ بنے تو ان کی حکومت لوک سبھا کا منہ تک نہیں دیکھ  پائی  اور بعد میں ہنومان اور رام کی دشمنی نے بھی نئی تاریخ رقم کی۔

اب مودی سرکار نے  اپنے بجٹ میں نتیش اور نائیڈو کے سامنے ‘خودسپردگی’کرکے خود کے کبھی بھی  اس طرح کے ناخوشگوار واقعے  کا شکار ہونے  کے خدشات  کو بڑھا دیا ہے۔ فی الحال وہ ‘دوہو بھانتی ار دارن داہو’ (یعنی دونوں طرح سے دل میں بڑا درد ہوتا ہے۔)کی چال پکڑتی نظر آ رہی ہے اور سمجھ نہیں پارہی ہے کہ دھان کوٹنے  اور بغلوں کو ڈھانپنے کا کام بیک وقت کیسے کریں۔

(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)