اتر پردیش اسمبلی میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ گزشتہ ہفتے یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ ‘میں یہاں نوکری کرنے نہیں آیا ہوں … مجھے اس سے زیادہ عزت اپنے مٹھ میں مل جاتی ہے ۔’ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کی نگاہ میں وزیر اعلیٰ کا باوقارعہدہ گئو رکش پیٹھادھیشور کے عہدے سے کمتر ہے؟
سوالوں کاجواب دینے کے بجائے حزب اختلاف کو نشانہ بناتے ہوئے ان سے بچنےنکلنے کا حزب اقتدار کا یہ حربہ، جو پچھلے دس سالوں میں خوب پروان چڑھا ہے، اس میں گزشتہ جمعرات کو اتر پردیش اسمبلی میں اس وقت ایک نئے باب کا اضافہ ہوا، جب وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے وقفہ سوال میں اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے یہ تک کہہ ڈالا کہ میں یہاں (وزیراعلیٰ کے عہدے پر)نوکری کرنے نہیں آیا ہوں۔ قطعی نہیں… میرے لیے یہ وقار کی لڑائی بھی نہیں ہے… مجھےاس سے زیادہ عزت اپنے مٹھ مل جاتی ہے۔
اب، جیسا کہ بے حد فطری ہے، سیاسی نظریہ رکھنے والے بھی ان کے اس بیان کی تشریح کر رہے ہیں کہ وہ (یوگی) ‘یہاں’ مطلوبہ وقار نہیں حاصل کر پا رہے ہیں۔
لیکن، چونکہ اپوزیشن کے پاس اس مفہوم کے سہارے ترکی بہ ترکی مقننہ میں ہی انہیں نئے سوالات سے گھیرلینے کی سہولت میسر نہیں تھی، اس لیے اس کے سوال حزب اختلاف سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے سپریمو اکھلیش یادو کی جانب سےسوشل میڈیا پر سامنے آئے؛ ‘لکھنؤ کا غصہ دہلی میں کیوں اتار رہے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ ان کے وقار کومجروح کس نے کیا؟کہہ رہے ہیں سامنے والوں (یعنی اپوزیشن) سے، لیکن بتا رہے ہیں پیچھے والوں کو۔کوئی ہے پیچھے؟’
دراصل، جب یوگی اسمبلی میں یہ سب بول رہے تھے، تو ان کے ٹھیک پیچھے نوکرشاہ (گجرات کیڈر کے آئی اے ایس) سے سیاستدان بنے اے کے شرما بیٹھےہوئے تھے، جن کی شبیہ وزیر اعظم نریندر مودی کے چہیتے کی ہے۔جانکاروں کے مطابق، گزشتہ اسمبلی انتخابات سے قبل انہیں جب ریاست میں اتاراگیا تو اس کے پیچھے یوگی کو سائیڈ لائن کرنے کا ارادہ تھا، جو بھلے ہی اب تک ثمرآور نہیں ہوا، لیکن اس ارادے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔
मैं यहां नौकरी करने के लिए नहीं आया हूं, कतई नहीं… pic.twitter.com/sLSevY2GRu
— Yogi Adityanath (@myogiadityanath) August 1, 2024
لیکن یوگی کا یہ اظہار خیال ایس پی-بی جے پی کی سیاسی مسابقت، بی جے پی کی اندرونی کشمکش اور مودی-یوگی کے تضاد سے قطع نظر بھی کئی سوال پیدا کرتا ہے، جن کے فوری جواب کی ضرورت ہے-اس المیہ کے باعث اور بھی کہ وزیر اعلیٰ کے طور پر وہ وی وی آئی پی ٹریٹمنٹ کے ساتھ سرکاری خزانے سے بھاری تنخواہ اور الاؤنس، عملہ- بنگلہ، گاڑی، ہیلی کاپٹر وغیرہ لینے کے باوجود کہتے ہیں کہ میں یہاں نوکری کرنے نہیں آیا۔ ایسے میں ان سے اتنا تو پوچھا ہی جا سکتا ہے کہ ارے بھئی، نوکری اورکیسی ہوتی ہے؟جانکاروں کے مطابق، اپنی اصل نوعیت میں یہ نوکری کا ہی مترادف ہے اور ڈاکٹر رام منوہر لوہیا وزیر اعظم تک کو ’سدن کا نوکر‘( ایوان کا خادم )ہی کہاکرتے تھے۔
اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اگر یوگی کو لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر فائز رہنے سے زیادہ انہیں اپنے مٹھ میں عزت مل جاتی ہے تو کیا ان کی نگاہ میں وزیر اعلیٰ کا باوقار عہدہ ان کے گئورکش پیٹھادھیشور کے عہدہ سے کمترہے؟ اگر ہاں، تو پھر اس شک کی کافی گنجائش ہے کہ وزیر اعلیٰ کے عہدے سے وابستہ وقار کو جانچنے کا ان کا معیار ذرا بھی آئینی یا جمہوری رہ گیا ہے یا نہیں؟اس شبہ کی بھی گنجائش ہے کہ کیا یہ معیار مذہبی اقتدار اور شاہی اقتدار کے درمیان پرانے تنازعات کی تجدید کی حامل تو نہیں؟
عہدے کا وقار کیا شے ہے؟
تاہم، آگے بڑھنے سے پہلے سمجھ لیتے ہیں کہ وقار دراصل ہوتا کیا ہے۔ وکی پیڈیا کے ایک صفحے پر دستیاب معلومات کے مطابق ،یہ سماجی استحکام کا ایک آلہ ہے، جو سماجی گروپ میں کسی اکائی کو خصوصی مقام اور اہمیت دینے کی حیثیت کا اظہار کرتا ہے۔ اس کی دو بنیادی پہلو ہیں- اعمال اورحسب و نسب۔ بہت سے سماجی گروہوں میں یہ دونوں پہلو بیک وقت متحرک پائے جاتے ہیں۔ سنسکرت ادب میں وقار کے حوالے سے رامائن، مہابھارت وغیرہ سے لے کر نیتی گرنتھوں اور شاستروں میں مختلف قسم کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف اسے ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے تو دوسری طرف بہت سے لوگ اسے تنزلی کا ذریعہ بھی قرار دیتے ہیں۔ ‘پرتشٹھا شکورووشٹھا’ کے تصور کے مطابق، محض عزت حاصل کرنے کی نیت سے کیا جانے والا کام خنزیر کے فضلہ کی طرح ہوتا ہے۔ ایسے وقار کی خواہش اپنے آپ میں فضول اور ناپاک نتائج کی طرف لے جاتی ہے۔
لغات میں وقار کی شناخت، آن بان، دھاک، رتبہ اورساکھ وغیرہ سے متعلق اور بھی بہت سے معانی بیان کیے گئے ہیں، جبکہ انگریزی میں ‘ریپوٹیشن’ اور ‘پریسٹیج’ کے الفاظ وقار کے مترادف کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں، ان کے مطابق، ’اوور آل کوالٹی آر کریکٹر ایزججڈبائی پیپل ان جنرل‘ اور ’اے ہائی اسٹینڈنگ اچیوڈ تھرو سکسیسز آر ویلتھ ای ٹی سی‘ ہے۔
کون بتا سکتا ہے کہ آج کی تاریخ میں یہ ‘اوور آل کوالٹی’ اور ‘ہائی اسٹینڈنگ’ مذہبی رہنماؤں کے پاس زیادہ ہے یا شاہی اقتدار کے پاس؟ یا کہ دونوں ہی اپنے فرائض انجام نہ دے کر’پیپل ان جنرل‘ کی نگاہ میں ان سے محروم ہوگئے؟ کون جانتا ہے، اس سوال سے جوجھتے ہوئے یوگی یہ بھی یاد کرنا چاہیں گےیا نہیں کہ جہاں دنیا کی تاریخ ان دونوں اقتدار کے درمیان ‘تو بڑا کہ میں’ کے تنازعات سے پُر ہے، وہیں ان کی ملی بھگت نے بھی دنیا میں کم گل نہیں کھلائے ہیں۔ انہی گلوں کی وجہ سے مسلسل مذہب اور سیاست میں دوری کی ضرورت محسوس کی جانے لگی اور سیکولرازم کا وہ اصول وجود میں آیا، جس کا مذاق اڑانے کا کوئی موقع یوگی شاید ہی چھوڑتے ہیں۔
چھوڑیں بھی بھلا کیوں، جبکہ اس کے برعکس انہوں نے مذہب اور سیاست کے گھال میل کے دور میں ہی اپنے ‘نمود اور ترقی’ کو دیکھا ہے۔ پھر بھی تعجب کی بات ہے کہ وہ یہ نہیں دیکھ پاتے کہ اس دور میں اکثریتی فرقہ پرستی سے فائدہ اٹھانے والے مذہبی رہنماؤں کے بڑھتے ہوئے سیاسی عزائم کہیں سے یہ احساس نہیں کراتے ہیں کہ وہ مذہبی اقتدار میں اپنی حیثیت سے زیادہ مطمئن ہیں۔ہوتے تو نسبتاً ‘کم باوقار’ سیاسی اقتدار کےعہدوں کی لڑائی میں الجھ کر اپنی ‘ناقدری’ کیوں کراتے؟
بیر کیر کو سنگ!
ہاں، اس ‘کیوں’ کا کوئی جواب دیگر مذہبی رہنماؤں کے پاس ہو نہ ہو، یوگی کے پاس ہے۔یہ کہ ‘میں یہاں اس لیے ہوں کہ وہ (مجرم) کرے گا توبھگتے گا’۔ لیکن ان کا یہ جواب بھی مذہبی رہنما کے طور پر ان کی حدود کو ہی اجاگر کرتا ہے، وقار کو نہیں۔ مذہبی رہنما کے طور پر، چاہے وہ کتنے ہی ‘غالب’ کیوں نہ ہو، وہ کسی مجرم کے (اس زندگی میں، اس کی ‘اگلی زندگی’ بات اورہے) ‘ کرے گا توبھگتے گا’ نوشہ تقدیر کو یقینی نہیں بنا سکتے تھے۔ ایسا کرنے کا اختیار انہیں ریاست کے وزیر اعلیٰ کے عہدے نے ہی دیا ہے۔
ورنہ کون نہیں جانتا کہ 2007 میں ایم پی ہونے کے باوجود وہ اتنا ‘بے بس’ محسوس کر رہے تھے کہ لوک سبھا میں اپنا درد بیان کرتے ہوئے رونے لگے تھے۔ حیرت ہے کہ جس منصب نے انہیں اس بے بسی سے نجات دلاتے ہوئے اتنی طاقت بخشی کہ ان کی نگاہ میں جو بھی مجرم ہو ،اسے اس کے انجام تک پہنچادے، اس باقار عہدے پر ہونا انہیں اب کمتر لگنے لگا ہے۔
کاش وہ سمجھ پاتے کہ بے بسی اور وقار کا ساتھ ’کیر بیر کے سنگ‘ جیسا ہوتا ہے اور جمہوری طور پر منتخب ریاستی حکومت کا نمائندہ اس لحاظ سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے کہ جمہوریت کا تصور ہی مذاہب یا ان کے نمائندہ شہنشاہوں، مہاراجوں، بادشاہوں، راجاؤں اور آمروں کی حکمرانی کو مسترد کرنے سے شروع ہوا ہے۔ یہی نہیں آج جمہوریت کے برے دنوں میں بھی عوام میں تبدیل ہوچکی رعایا پھر سے رعایا بننے کو تیار نہیں ہے۔ اگر ملک میں جمہوریت نہ ہوتی تو یوگی وزیر اعلیٰ بننے کا خواب تو خیر کیا دیکھتے، ان کے پاس آنسو بہانے کے لیے لوک سبھا بھی نہیں ہوتی!
درحقیقت یوگی کے مسائل مختلف قسم کے ہیں اور اس میں کچھ اضافہ ہوا ہے کیونکہ انہیں اس ‘دوسری طرح’ کو قبول کرنا گوارہ نہیں۔ نہ تو وہ ایک مذہبی رہنما کے طور پر مذہب کی کسی اعلیٰ قدر کا علمبردار بن سکے ہیں اور نہ ہی ایک سیاستدان کے طور پر جمہوری لبرل ازم کے، جبکہ ان دونوں کو ملا کر وہ کم از کم ان لوگوں کی نگاہ میں،جو مذہب کو طویل مدتی سیاست اور سیاست کو وقتی مذہب تصور کرتے رہے ہیں ،سونے پر سہاگہ جیسی حالت پا سکتے تھے۔
تب انہیں مذہبی اسٹیبلشمنٹ میں اپنی ساکھ کی دھونس دینے کی ضرورت بھی نہیں ہی محسوس ہوتی اور کون جانتا ہے کہ انہیں بی جے پی کے باہر بھی کچھ قبولیت مل گئی ہوتی، جبکہ ابھی تک وہ اس کے اندر ہی مکمل قبولیت حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ پھر یہ اور بات ہے کہ بی جے پی کے ریاستی صدر بھوپیندر چودھری نے اسمبلی میں اپنے ذریعے منظور کیے گئے نزول پراپرٹی بل کو قانون ساز کونسل میں پاس ہونے نہیں دیتے اور اسے روکنے کے لئے اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر اتر آتے ہیں۔
اتفاق سے ابھی تک جتنےبھی سنت یا بھکت کوی یا کسی اور شکل میں اس ملک کے حافظے میں ہیں، ان میں سے کسی نے بھی کبھی اپنے مٹھ یا مندر میں باوقار ہونے کی ڈینگ نہیں ماری۔ نہ ہی سیکری کی خواہش کی۔ کمبھن داس نے تو الٹے یہ بھی پوچھ ڈالا: ‘سنتن کو کہاں سیکری سوں کام؟ آوت جات پنہیا ٹوٹی بسری گیو ہری نام!
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)