تین سال قبل مئی 2021 میں چترکوٹ جیل میں گولہ باری کے ایک مبینہ واقعہ میں تین قیدی مارے گئے تھے، جن میں سے ایک کیرانہ میں ہندوؤں کے گھر چھوڑ کر جانے کے معاملے میں ملزم تھا اور دوسرا گینگسٹر مختار انصاری کا معاون تھا۔ ان دونوں کو جس تیسرے قیدی نے گولی ماری، اس کو پولیس نےانکاؤنٹر میں مارا گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔ اہل خانہ نے اس واقعہ کے پیچھے سازش کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔
نئی دہلی: تقریباً تین سال پہلے، 14 مئی 2021 کو جب پورا ملک عید الفطر اور پرشورام جینتی منا رہا تھا، اترپردیش کے چترکوٹ میں ایک ہائی سکیورٹی جیل کے اندر صبح کی خوشیاں گولیوں کی تیز آواز میں گم ہوگئی تھیں۔
اس واقعہ میں تین قیدیوں کی جان چلی گئی ؛ مقیم عرف کالا، مغربی اتر پردیش کا ایک مبینہ گینگسٹر جس پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے کیرانہ میں ہندوؤں کی نقل مکانی کے بے بنیاد الزام لگائے تھے؛ حال ہی میں دم توڑنے والے متنازعہ سابق ایم ایل اے مختار انصاری کے معاون معراج احمد ؛ اور انشو دکشت، ایک قیدی جس نے مارے جانے سے پہلے مبینہ طور پرمقیم اور احمد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
سرکاری بیان کے مطابق، دکشت نے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے سے پہلے مبینہ طور پر مقیم اور احمد کوگولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پانچ دیگر قیدیوں کو یرغمال بنایا تھا اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔
تاہم، جیل کے اندر ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کو یہ سب مشکوک لگا۔ انہوں نے پولیس کی کہانی پر سوال اٹھائے اور ریاستی حکومت اور اس کے عہدیداروں پر تینوں قتل کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام لگایا تاکہ اسے قیدیوں کے درمیان خونی تنازعہ کی طرح ظاہر کیا جاسکے۔
تین سال سے زیادہ کے بعد، اس واقعہ کی تحقیقات کے لیےتشکیل دیےگئے عدالتی انکوائری کمیشن نے حال ہی میں ریاستی حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کی اور پولیس کے بیان کردہ واقعات کے ورژن کی توثیق کی۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج ششی کانت کی سربراہی میں کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جیل میں تعینات اہلکاروں، سول پولیس اور صوبائی آرمڈ پولیس کے اہلکاروں کی جانب سے اپنے فرائض کو مؤثر طریقے سے اور لگن کے ساتھ نبھانے میں ‘کوتاہیاں، چوک اور ناکامیاں’ اس واقعہ کے رونما ہونےکے اہم عوامل تھے۔
کمیٹی نے واقعہ کے پیچھے کسی بڑی سازش کے امکان کو مسترد کردیا۔ اس نے کہا کہ جیل حکام، انتظامی اہلکاروں، پولیس اور سیاست دانوں کے درمیان کسی سازش یا ملی بھگت کا کوئی ’ٹھوس ثبوت‘ نہیں ہے۔ انکوائری کمیشن نے کہا کہ اہل خانہ کی جانب سے لگائے گئے الزامات ‘ٹھوس ثبوت’ کے فقدان میں ‘بے بنیاد’ ہیں۔ کمیٹی کی یہ رپورٹ اس ماہ کے شروع میں اتر پردیش اسمبلی میں پیش کی گئی تھی۔ کمیشن نے نتیجہ اخذ کیا کہ وہ دکشت اور جیل کے کچھ عملے اور دیگر کے درمیان سازش کے امکان کو رد نہیں کر سکتا۔ تاہم، 525 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ میں یہ واضح نہیں ہے کہ دکشت کو مبینہ طور پر دیگر دو قیدیوں کو گولی مارنے اور قتل کرنے کے لیے کس چیز نے ترغیب دی۔ یہ اب بھی ایک معمہ بنا ہوا ہے۔
مقیم کا نام قومی سرخیوں میں اس وقت آیا، جب 2016 میں اتر پردیش میں حزب اختلاف میں بیٹھی بی جے پی نے ایک مہم چلائی جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ کیرانہ میں ہندوؤں کو مسلمان جرائم پیشہ – خاص طور پر مقیم، جس کو مبینہ طور پر حکمراں سماج وادی پارٹی (ایس پی) کی جانب سے تحفظ حاصل تھا— کی دھمکیوں کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑنے کو مجبور ہونا پڑا تھا۔
سال 2017 میں اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی نے مقیم، اس کے خاندان اور اس کے ساتھیوں کے خلاف سرکاری طاقت کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں مبینہ پولیس ‘انکاؤنٹر’ میں گرفتاریاں ،قتل اور فائرنگ کے واقعات پیش آئے۔
بتادیں کہ 7 مئی 2021 کو گولی سے مارے جانے سے پہلے مقیم کو مبینہ انتظامی وجوہات کی بناء پر سہارنپور جیل سے چترکوٹ ڈسٹرکٹ جیل منتقل کیا گیا تھا۔ 2017 سے آدتیہ ناتھ حکومت اور انتظامیہ کی پوری طاقت کا سامنا کرنے والے سیاست دان مختار انصاری کے ایک معاون معراج احمد کو 20 مارچ 2021 کو وارانسی سے چترکوٹ جیل منتقل کیا گیا تھا۔ وہیں،دکشت طویل عرصے تک چترکوٹ میں بند تھے۔
چونکہ یہ کووڈ 19 کی دوسری لہر کا وقت تھا، اس لیے چترکوٹ جیل میں لائے جانے کے بعد مقیم کو ایک عارضی بیرک میں قرنطینہ کر دیا گیا تھا۔ یہ 14 دن کے لیے تھا، لیکن مقیم کو اس سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا۔ بعد ازاں جوڈیشل انکوائری کے دوران پتہ چلا کہ وقوعہ کے روز جیل میں صرف سات—آٹھ سی سی ٹی وی کام کر رہے تھے، جبکہ ہائی سکیورٹی بیرک میں کوئی بھی سی سی ٹی وی کام نہیں کر رہا تھا۔ مبینہ طور پر کام نہ کرنے والے کیمرے کافی عرصے سے کام نہیں کر رہے تھے۔ جیل حکام نے انکوائری کمیشن کو بتایا کہ جس عارضی بیرک میں مقیم کو رکھا گیا تھا وہاں کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ نصب نہیں تھا۔
کووڈ 19 کی وجہ سے قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کے درمیان ایک سال سے زیادہ عرصے سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی اور قیدیوں کو آخری بار ایک ماہ قبل عدالت میں سماعت کے لیے لے جایا گیا تھا۔ اس لیے سوال اٹھے کہ دکشت کے پاس پستول اور فون کہاں سے آیا؟
دکشت 14 مئی 2021 کو پستول لے کر اپنے چہرے کو ڈھانپ کرہائی سکیورٹی بیرک سے باہر نکلا، جس کا مین گیٹ کھلا ہوا تھا۔ اس کے بعد وہ عارضی بیرک کی طرف بڑھا، جس کا گارڈ مبینہ طور پر بیرک کا دروازہ بند کرنا بھول گیا تھا کیونکہ وہاں کا عملہ تین نئے قیدیوں کو میڈیکل چیک اپ کے لیے لے گیا تھا۔ عارضی بیرک میں داخل ہونے کے بعد دکشت نے مبینہ طور پر مقیم کو گولی مار دی، جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ وہ مبینہ طور پر موبائل فون پر کسی سے بات کرتے ہوئے بیرک سے باہر آیا۔ اس کے بعد وہ ہائی سکیورٹی بیرک میں واپس آیا، جہاں اس نے مبینہ طور پر معراج کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
بتادیں کہ مقیم کی والدہ مینا نے اسے سرکاری سازش قرار دیا۔ اس واقعہ سے چند ماہ قبل مینا نے اپنے بیٹے مقیم کی سکیورٹی کے لیے الہ آباد ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا۔ اس وقت وہ سہارنپور جیل میں بند تھا۔ مقیم نے خود سہارنپور کی گینگسٹر کورٹ کے خصوصی جج کے سامنے ایک درخواست جمع کرائی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ سیاسی دباؤ کے تحت کام کرنے والے مقامی اہلکار اسے ‘انکاؤنٹر’ میں مارنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ مینا نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ مقیم کو گولی مارنے سے پہلے جیل میں بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تاہم، انکوائری کمیشن نے اس الزام کی تصدیق نہیں کی۔
معراج احمد کے اہل خانہ نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ پولیس نے 14 مئی 2021 کی صبح اس کو قتل کر دیا اور بعد میں اسے گولہ باری کی شکل دے دی۔ دکشت کی ماں نشا دکشت نے بھی گڑ بڑی کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کے بیٹے انشو دکشت کی مقیم یا معراج سے کوئی دشمنی نہیں تھی، اس لیے جیل کے اندر انہیں گولی مارنے کا کوئی بڑا مقصد نہیں تھا۔
کمیشن نے اس خیال سے اتفاق کیا تھا، لیکن اس نے کہا کہ کسی مقصد کی عدم موجودگی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ اس نے قتل نہیں کیے ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔
Categories: خبریں