حکومت کی معیشت اور ترقیاتی فریم ورک میں اجتماعی معاشرہ تو ہے ہی نہیں۔ وہ اپنے حصوں کو علیحدہ علیحدہ اٹھاتی ہے اور ترقی کے اپنے خاکوں میں اس طرح فٹ کرتی ہے کہ اس کے اپنے اور کارپوریٹ ورلڈ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات پورے ہوتے رہیں۔
نئی دہلی: موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ جلد ہی ملک تین ارب ڈالر کی معیشت کے ساتھ دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن جائے گا۔ اس دعوے کو تقویت دینے کے لیے وہ آئے روز نت نئے دعوے کر رہی ہے کہ بے روزگاری کم ہوئی ہے اور غربت کی شرح میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ وہ بھی تازہ ترین مردم شماری اور غیر منظم شعبے(ان آرگنائزڈ سیکٹر) میں روزگار اور اس میں مزدوروں کے قومی اعداد و شمار کے کے بغیر۔ اگر ان دعووں کو درست مان بھی لیا جائے تو کیا ہمارا ملک واقعی معاشی طور پر خود کفیل ہو جائے گا؟ کیا ہماری بے روزگاری صرف ایک یا دو فیصد رہ جائے گی؟
فی کس آمدن حکومت کے لحاظ سے 2.14 لاکھ بھی ہو جائے تو کیا! کیا دور دراز سڑک، بجلی اور پانی سے محروم کسی گاؤں کے باشندہ کی سالانہ آمدنی بھی اتنی ہوپائے گی یا پھر وہ جنگلات کی غیر قانونی کٹائی اور کانوں کی غیر قانونی کان کنی کرنے والے ٹھیکداروں کی غیر قانونی سرگرمیوں پر ہی اپنی روزمرہ کی ذلت آمیز زندگی گزربسر کرتے ہوئے،اس سے ملنے والی کسی نہ کسی بیماری کی وجہ سے دم توڑتا رہے گا؟
یہ سوال اس طرح بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا ہم دوسری آزادی حاصل کر سکیں گے؟ دوسری آزادی یعنی، اقتصادی آزادی۔ انگریزوں سے لڑتے ہوئے گاندھی جی ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ سیاسی آزادی اقتصادی آزادی کے بغیر نامکمل ہے۔ اقتصادی آزادی کے بغیر سیاسی آزادی قائم نہیں رہ سکتی۔ بنگلہ دیش میں 5 اگست کو اقتدار کی پرتشدد تبدیلی اس کا تازہ ترین ثبوت ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت اب تک مضبوط رہی ہے، کیونکہ ہمارے غیر منظم شعبے کو حکومت کے بہی کھاتوں میں بھلے ہی جگہ نہ دی گئی ہو اور آج تک نہیں دی جارہی، لیکن ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی وہی ہے۔
انگریزوں نے اسی ہڈی پر کاری ضرب کرکےاپنے سیاسی اقتدار کو مضبوط کیا تھا۔ اس نے ٹیکسٹائل ملوں کے ذریعے ہماری ملکی صنعتوں کو نقصان پہنچایا۔ وہ ہمارے یہاں کے روایتی ویور سیکٹر کوختم کرکے اپنی ملوں کے سستے کپڑوں کے ذریعے بازار پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن گاندھی ان کی چال سمجھ گئے اور چرخہ کے ذریعے ہر گھر میں کھادی کی پیداوار شروع ہو گئی، اورلوگوں نے بتا دیا کہ انگریز ہمیں بازار سےکیا باہر کریں گے۔ ہم نے تو اپنا بازار ہی الگ بنا لیا ہے، جہاں اس کی کوئی رسائی نہیں ہے۔ درحقیقت اس کے نتیجے میں آج ہمارے پاس کھادی بھی ہے اور بنارس، کرناٹک، بنگال، بہار اور دیگر تمام ریاستوں کے بُنکروں کا کپڑا بھی۔ ہماری روایتی دستکاری اب بھی زندہ ہے۔ یہ محدودپیمانے پر ہی سہی لیکن روزگار بھی فراہم کر رہا ہے۔
ہم اپنی روایتی ٹیکسٹائل مصنوعات کو بڑے فخر کے ساتھ بین الاقوامی مارکیٹ میں پہنچا پا رہے ہیں، تو اس لیے کہ اس وقت چرخہ اور لوم کے ذریعے گاندھی نے ہماری مقامی، روایتی کمیونٹی گھریلو صنعت کو توسیع اور استحکام بخشا۔ عوامی طاقت کو منظم کیا اور انگریزوں کے اقتدار کو چیلنج کرنے کے لیے عوام کو کھڑا کر دیا۔ چرخہ اور کھادی اس حد تک ہماری آزادی کی علامت بن گئے کہ بالآخر انگریزوں کو ملک چھوڑنا پڑا۔تو سیاسی آزادی کے پیچھےاقتصادی طاقت اور منظم عوامی طاقت بھی تھی۔
اقتصادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو دوسری کاری ضرب انگریزوں نے زرعی شعبے میں ہماری مقامی کمیونٹی کو پانی کے روایتی انتظام کو انتظامیہ کے حوالے کر کے پہنچائی تھی ۔ اس وقت ہر گاؤں میں آبپاشی اور پینے کے پانی کے لیے کم از کم چار پانچ تالاب ہوتے تھے۔ ان کی مقامی برادری، سماجی اور معاشی نظام کی بنیاد۔ اس کی وجہ سے دیہات زراعت اور مویشی پالنے میں خود کفیل ہو تے تھے اور خوشحال ہوتے تھے۔ برادری پر مبنی روایات نے معاشرے کواقتدار کے سامنے کھڑے ہونے اور اس کا مقابلہ کرنے کی ہمت دی۔ بڑے ڈیموں، نہروں اور چیک ڈیموں کا انتظامی نظام، جو آزادی کے بعد اور بھی مضبوط ہوا، اس کی وجہ سےدیہی کمیونٹی کمزور ہوتی چلی گئی۔ روایتی گرام سبھا کا وجود ختم ہو گیا اور اسی کے ساتھ بارش کے پانی کا مقامی تحفظ اور انتظام بھی ختم ہو گیا۔
جیسے جیسے دیہی انتظام کی مقامی روایات کمزور ہوتی گئیں، دیہات کی خوشحالی ماند پڑنے لگی اور معاشرہ کمزور ہوتا گیا۔ برطانوی نمائندوں کے لیے کمزور معاشرے کو دھمکانا اور ڈرانا آسان ہو گیا۔ ان کے وسائل کو لوٹنا آسان ہو گیا۔ گاؤں بدحال ہونے لگے اور انگریز مضبوط ۔ آزادی کے بعد بھی گاؤں بدستوربدحال ہیں۔ حکومت ہند کے نمائندے تو اور بھی بڑے لٹیرے نکلے۔ قانون ان کا ساتھ دینے والا۔ اس کے نتیجے میں، ان کی اپنی کاٹیج صنعتیں ختم ہوگئیں اور قدرتی وسائل تباہ ہوگئے۔
گاؤں میں رہنے والا کسان آج بد حال ہے۔ زمین کے پیٹ میں پانی نہیں ہے، تو کسان، اس کے کھیت اور جانور سب پیاسے ہیں۔ تین ارب ڈالر کی معیشت سے کسانوں کی یہ حالت زار ختم نہیں ہو گی۔ زراعت کی صنعتکاری کے ذریعے بھی نہیں۔ کیونکہ پیداوار کے لیے پانی اور زہریلے مادوں سے پاک زمین تو اسے چاہیے ہی ہوگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اس دور میں سیلاب اور خشک سالی پر کس کا بس ہے!
ویسے بھی جب کارپوریٹ ورلڈ کو ساتھ لے کر ترقی کے پیرامیٹرز بنائے جائیں گے تو ترقی بھی انہی کی ہوگی۔ اور اس کی ترقی کا مطلب ہے سرمایہ اور زیادہ مرکزیت۔ اس پر ریاست کے انحصار میں اضافہ۔ دوسرے لفظوں میں مٹھی بھر سرمایہ داروں کا سرمایہ، اقتدار اور سماج پر قبضہ۔ ایسے میں عین ممکن ہے کہ ہندوستان کا شمار عالمی سطح پر ایک مضبوط معیشت والے ملک کے طور پر کیا جانے لگے، لیکن دیہاتوں میں بیٹھے لوگ اور معاشرہ بھی خود کفیل ہو جائیں گے، اس حد تک کہ انتظامیہ غیر منصفانہ طور پر اپنے مفادات کو نقصان پہنچانے کی جرٲت نہ کر سکے؟
نہیں، ہرگز نہیں۔ اس کی خود انحصاری اور خود مختاری کا بنیادی عنصر وسائل اور اقتدار کا ڈی سینٹرلائزیشن (لامرکزیت) اور اشتراکیت ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو معاشرہ خود اپنے لیے روزگار کا انتظام کرتا ہے۔ آج کے گاؤں ان دونوں سے محروم ہیں۔تو، تین ارب ڈالر کی معیشت سے ملک کے کچھ اور لوگ ضرور امیر کے زمرے میں آ جائیں گے لیکن گاؤں دیہات خود کفیل نہیں ہو پائیں گے۔
آج ٹکنالوجی کا دور ہے۔ اس کو مہارت کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس کس حد تک مہارت کی کمی ہے اس کا ذکر خود وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے اپنی 2024 کی بجٹ تقریر میں کیا تھا۔ تربیت کی ذمہ داری صنعتی اداروں کو دی جا رہی ہے۔ لیکن وہ کچھ کو ہی تو کھپا پائیں گے۔ ہم ان میں سے صرف چند کو اپنے اداروں میں روزگار فراہم کر سکیں گے۔ باقیوں کا کیا ہوگا؟
دوسرا، ٹکنالوجی ہر تین ماہ بعد تبدیل ہوجاتی ہے۔ اپ گریڈیشن نہ ہو تو شخص اور سامان دونوں خود بخود بازار سے باہر ہو جاتے ہیں۔ دونوں ہی مہنگے سودے ہیں۔تو ہنر کے ساتھ ساتھ ہنر میں اضافہ اور سرمایہ آج کے روزگار کے مستقل تقاضے ہیں۔ ہمارے نوجوان اس سے بالکل کورا ہیں، اسی لیےتو سڑکوں پر ہیں۔
ہمارے تمام تعلیمی و تربیتی اداروں سے نکلنے والے نوجوان روزگار کی منڈی میں نااہل قرار دیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں کی مایوسی کا تصور کریں جنہوں نے اس یقین کے ساتھ ادارے کو لاکھوں روپے دیے کہ وہاں جانے کے بعد انہیں باعزت روزگار ملےگا۔ لیکن کمپنیاں انہیں انتخابی امتحانات میں بھرتی کرنے کے لائق نہیں سمجھتیں۔ یہی حال سرکاری اور غیر سرکاری دونوں اداروں کا ہے۔ تو قصور کس کا ہے؟ ان تمام اداروں کو کس نے ریگولیٹ کرنا ہے؟ حکومت کو۔ وہ ایسا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ایسے میں ہر سال 80 لاکھ نوکریاں دینے کے اس کے عزم کا کیا مطلب ہے؟
مجموعی طور پر حکومت کی معیشت اور ترقیاتی فریم ورک میں اجتماعی معاشرہ تو ہے ہی نہیں ۔ وہ اپنے حصوں کو علیحدہ علیحدہ اٹھاتی ہے اور ترقی کے اپنے خاکوں میں اس طرح فٹ کرتی ہے کہ اس کے اپنے اور کارپوریٹ ورلڈ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات پورے ہوتے رہیں۔ چونکہ یہ ان حصوں کو ان مفادات کے اندر پنپنے کی محدود آزادی دیتی ہے، اس لیے وہ کبھی بھی کھل کر توسیع نہیں کر پاتے۔ چاہے وہ زراعت ہو یا نوجوان یا تعلیم اور روزگار۔
اس کے علاوہ، صنعت کی فطرت دوسروں کی قیمت پر ترقی کرنے کی ہے۔صنعت کاری استحصال کو کم نہیں کرتی۔ استحصال کے اس عمل میں معاشرہ اپنی آزادی بھی کھو بیٹھتا ہے۔ گاندھی جی ٹھیک کہتے تھے کہ معاشی غربت ہمارے معاشرے کا اخلاقی زوال ہے۔جو معاشرہ لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کو بے روزگار رکھتا ہواس کے معاشی نظام کو بالکل قبول نہیں کیا جا سکتا۔ پھر بھلے ہی وہ شرح نموکی بلند ترین سطح کی مظہر کیوں نہ ہو۔
(نیلم گپتا سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر