فکر و نظر

منی پور ٹیپ: بیرین سنگھ نے مبینہ طور پر نسلی تنازعہ کا کریڈٹ لیا – ’میں نے یہ سب شروع کیا‘

منی پور ٹیپ کی پڑتال کے تیسرے حصے میں وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ مبینہ طور پر کہتے ہیں کہ ریاست کی سرکاری نوکریوں میں زیادہ تر کُکی ہیں، جو ایس ٹی کوٹے کی مدد سے وہاں پہنچے ہیں۔ وہ مبینہ طور پر پندرہ ماہ سے جاری نسلی تنازعہ کو شروع کرنے کادعویٰ بھی کرتے ہیں۔

منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ اور چوڑاچاند پور میں بنائی گئی اجتماعی قبریں پس منظر میں۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس/اسپیشل ارینجمنٹ)

منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ اور چوڑاچاند پور میں بنائی گئی اجتماعی قبریں پس منظر میں۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس/اسپیشل ارینجمنٹ)

اس سیریز کا پہلا اور دوسرا حصہ یہاں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔


نئی دہلی: گزشتہ سال منی پور میں میتیئی-کُکی نسلی تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے قومی اور مقامی میڈیا،  دونوں میں، ان تنازعات کے پیچھےکی وجوہات کے بارے میں متعدد رپورٹ کی گئی  ہیں ۔ ان میں سے اکثر نے میتیئی کمیونٹی کو شیڈول ٹرائب  (ایس ٹی) کا درجہ دینے کے منی پور ہائی کورٹ کےمتنازعہ فیصلے کی طرف انگلی اٹھائی ہے۔

سپریم کورٹ نے ‘انصاف کا بہتر ایڈمنسٹریشن’- جو کہ  عدالتی نظام  میں سخت سرزنش سمجھا جاتا ہے – کا حوالہ دیتے ہوئے  فیصلہ لکھنے والے جج جسٹس ایم وی مرلی دھرن کا تبادلہ کر دیا ۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ سے  فیصلے کے اس حصے کو ہٹانے کو بھی کہا۔

قابل ذکر ہے کہ کُکی اور میتیئی دونوں ہی برادریوں نے ایک دوسرے پر اس تشدد کوبھڑکانے  کا الزام لگایا ہے، جس میں اب تک کم از کم 226 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزاروں نقل مکانی کے لیے مجبور ہوئے ہیں۔ لیکن یہ واضح ہے کہ صرف ہائی کورٹ کے فیصلے کو ہی مئی 2023 میں بھڑکنے والے تشدد کے شعلوں کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا،اور یہ  اب تک پوری طرح سے ختم نہیں ہوا ہے۔

Manipur-Tapes-Thumb-480x195

اس جنون اور پاگل پن کے پیچھے ایک پیٹرن  ہے، خواہ  میڈیا اب تک اسےسمجھنے میں ناکام رہا ہو یابہت زیادہ  پولرائزیشن کی وجہ سے  منی پور کی سول سوسائٹی اسے اجاگر کرنے سے گریزاں ہو۔

لیکن منی پور کے وزیر اعلیٰ کے 48 منٹ کے آڈیو کلپ کے بعدبھرم  کے سارے بادل چھٹ جائیں گے۔

اس آڈیو ریکارڈنگ میں- جس کو وزیر اعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ پر ہوئی  اور مبینہ طور پر ان کے ذریعے ایڈریس کی گئی ایک میٹنگ کے دوران بنایا گیا- بیرین سنگھ کی مبینہ آواز کو  ‘یہ تشدد کیسے اور کیوں شروع ہوا’ کا کریڈٹ لیتے ہوئے سنا جا سکتاہے۔

میتیئی زبان کا یہ  آڈیو کہتا ہے؛


’تو، اب … یہ معاملہ کیسے شروع ہوا؟ میں نے یہ سب دیکھا… جب میں نے یہ سب دیکھا، تو میں نے کام کرنا شروع کیا — مبہم — ہم نےریزرو  جنگلاتی زمین اور محفوظ جنگلاتی زمین والی جگہ پر ان جگہوں پر سرکاری اراضی کا مطالبہ شروع کیا۔ جو واقعات رونما ہوئے ہیں … انہیں تم نے نقشے پر نہیں دیکھا ہے … کیا تمہیں رونے کا دل  نہیں کرتا؟ میں ان سب کا پچھلے 10-15 سالوں سے مطالعہ کر رہا ہوں۔ ایسا کوئی واقعہ تو ہونا ہی تھا … لیکن نگا گاؤں کی تعداد نہیں بڑھی ہے۔

نگا اصل باشندوں کے آباد علاقوں کی، یہاں تک کہ امپھال کے اندر بھی جانچ کیجیے۔ امپھال، نگارام، ٹنگکھول ایونیو کے علاقوں میں دیہاتوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے جبکہ وہ (کُکی) وینگوں …. وینگوں (گاؤں یا بستی) کے ذریعے بڑھتے جاتے ہیں۔

’سکریٹریٹ میں بھی، ان کے کوٹے کی وجہ سے ہمارے اپنے لوگ نہیں ہیں۔ انہوں نے آئی پی ایس اور آئی اے ایس کی سیٹوں پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے۔ وہ لوگ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس میں بھی ہیں۔ ہمارے نگا بھائی بھی اس میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ اپنی آزادی کے لیے فکرمند ہیں۔ وہ سو میں سے صرف 5-10 ہیں، پھر بھی ان کا (کُکی لوگوں کا) پورا قبضہ ہے۔

‘سکریٹریٹ میں سکریٹری سطح کے  12 افسران ہیں اور 12 میں وہ (کُکی) 11 ہیں۔


اگرچہ، دی وائر آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کرسکا کہ اس ریکارڈنگ میں موجود آواز واقعی بیرین سنگھ کی ہے، لیکن ہم نے اس میٹنگ میں موجود کچھ لوگوں سے آزادانہ طور پراس میٹنگ کی تاریخ، موضوع اور مواد کی تصدیق کی ہے۔ اپنی جان کو خطرے کاحوالہ دیتے ہوئے ان میں سے کوئی بھی اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا ہے۔

اس میٹنگ میں موجود ہونے کا دعویٰ کرنے والے کچھ لوگوں کا یقین کے ساتھ کہنا ہے کہ ریکارڈنگ میں سنائی دے رہی آواز حقیقت میں بیرین سنگھ کی ہے اور انہوں نے واقعی ان کی موجودگی میں یہ باتیں کہی تھیں۔

ان میں سے کچھ لوگوں نے دی وائر سےاس بات کی تصدیق کی کہ پورا آڈیو کلپ ریٹائرڈ جسٹس اجئے لامبا کی سربراہی والی انکوائری کمیٹی کے سامنے جمع کر دیا گیا ہے۔ لامبا گوہاٹی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ہیں۔

اس آڈیو میں موجود آواز،  جو وہاں موجود لوگوں کے مطابق  وزیر اعلیٰ کی آواز ہے، کواپنے  کابینہ وزیر ایل سسیندرو  یائیما کا نام لیتے ہوئے بھی سنا جا سکتا ہے۔

چونکہ اس ریکارڈنگ کا مواد—منی پور اور بقیہ ہندوستان کے لوگوں کے لیے– اہم عوامی مفاد میں ہے اس لیے دی وائر اس کے اہم اقتباسات کو عام کر رہا ہے۔

علیحدہ انتظامیہ کا مطالبہ

جب سے دونوں برادریوں کے درمیان تشدد شروع ہوا، کُکی قیادت وزیر اعلیٰ کو نشانہ بنا رہی ہے اور ان پر جانبدارانہ انداز میں کام کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔ چیف منسٹر کے خلاف الزامات بنیادی وجہ معلوم ہوتی ہے، جس کی بنیاد پر کُکی عوام مرکز سے ریاست کا ایک حصہ کاٹ کر انہیں ایک ’الگ انتظامیہ‘ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔


یہ بھی پڑھیں: منی پور آڈیو ٹیپ: کیا امت شاہ کے احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سی ایم نے ریاست میں بموں کے استعمال کا حکم دیا؟


دوسرے لفظوں میں، یہ یقین کہ وزیر اعلیٰ متعصبانہ طریقے سے کام کر رہے ہیں، نے اس حساس سرحدی ریاست کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے کُکی لوگوں کے مطالبے کے لیے چنگاری کا کام کیا ہے۔

لیکن نریندر مودی کی قیادت والی حکومت ہر طرح سے وزیر اعلیٰ کی حمایت کر رہی ہے ۔

تشدد پر مودی کی خاموشی اور اس غیر معمولی سانحہ کے باوجود وزیر اعظم کے ریاست کا دورہ کرنے سے انکار کو ریاست میں بیرین سنگھ پر انگلیاں اٹھانے والوں کے لیے ایک پیغام کے طور پر دیکھا گیا کہ پارٹی اور نئی دہلی کی سرکار پوری طرح  سے بیرین سنگھ کے ساتھ کھڑی  ہے۔جبکہ 3 مئی 2023 کو ریاست میں بھڑکے تشدد کی آگ میں منی پور جل رہا تھا، اس وقت  مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے گزشتہ سال اگست میں پارلیامنٹ میں کہا تھا کہ اس نسلی  تنازعہ  سے نمٹنے میں بیرین پوری طرح سے مرکزی حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

لیکن کمیشن کو پیش کیے گئے آڈیو کلپ سے ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت ایک ایسے وقت میں وزیر اعلیٰ کا دفاع کر رہی تھی، جب وہ جانبدارانہ رویہ اختیار کیے ہوئے تھے اورفرقہ وارانہ  طورپر تفرقہ انگیز سیاست کر رہے تھے۔ جبکہ ایک ایک اعلیٰ عہدے پر فائز منتخب عوامی نمائندہ ہونے اور آئین کے تحت حلف اٹھانے کے ناطے ان کا کردار اس کے برعکس ہونا چاہیے تھا۔

مذکورہ آڈیو کلپ سے ان الزامات کو تقویت ملنے کا امکان ہے کہ لاء اینڈ آرڈر کے لحاظ سے انتہائی نازک وقت میں چیف منسٹر کے متعصبانہ رویے نےنسلی تنازعہ کو زندہ  رکھا  ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس نسلی تنازعہ کے آغاز سے 60000 سے زیادہ لوگ – جن میں میتیئی اور کُکی دونوں برادریوں کے لوگ بھی شامل ہیں – نقل مکانی  کا زہر پی رہے ہیں  اور  ریلیف کیمپوں میں رہنےکو مجبور ہیں۔

جب کُکی بستیوں پر حملہ کیا گیا

تنازعہ کے ابتدائی چند دنوں میں، ریاست کے گھاٹی والے  علاقوں سمیت  راجدھانی امپھال میں کُکی برادری سے تعلق رکھنے والے کئی اعلیٰ سرکاری افسران کے گھروں پر میتیئی لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا ۔ ان حملوں میں کچھ افسران کو ان کی سرکاری رہائش گاہ پر ہی قتل کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کُکی برادری کے لوگوں کو لے جانے والی ایمبولینس گاڑیوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور ان پر حملہ کیا گیا اور ان میں سوار  لوگوں کو ہلاک کر دیا گیا ۔

ان زیادہ تر کُکی وینگوں (گاؤں/ بستیاں) جن کے بارے میں مبینہ طور پر وزیر اعلیٰ آڈیو کلپ میں بات کرتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں، پر ہجوم نے حملہ کیا ، جس کے نتیجے میں کُکی برادری کے کافی لوگوں  کی جانیں ضائع ہوئیں۔ گھاٹی  والے علاقوں میں اس کمیونٹی کے لوگوں کی ملکیت والے گرجا گھروں اور کاروباری اداروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس نسلی تنازعہ سے متعلق کئی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے  دسمبر 2023 میں سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو تنازعہ کے دوران تباہ ہونے والے تقریباً 3500 گرجا گھروں کی تعمیر نو کی ہدایت دی تھی۔ ان گرجا گھروں میں سے زیادہ تر کا تعلق کُکی برادری سے تھا۔

اگر آڈیو کلپ میں بیرین سنگھ کی آواز کی تصدیق ہو جاتی ہے تو ایسی صورت حال میں آڈیو میں ریکارڈ کیے گئے بیانات بہت اہم ثابت ہوں گے، کیونکہ تنازعہ کے ابتدائی دنوں میں گھاٹی میں لوگوں کو نشانہ بنانے والی بھیڑ کُکی لوگوں کے امپھال میں اپنے وینگوں کو پھیلانے کے بارے میں اسی  نقطہ نظر کا اشتراک  کرتی نظر آتی ، جسے ہم ریکارڈنگ میں سن سکتے ہیں۔ خاص طور پر اس لیے بھی  کہ کُکی لوگوں پر حملہ کرنے کی ملزم دو انتہا پسند مسلح تنظیمیں– ارمبائی ٹینگول اور میتیئی لیپن – کو وزیر اعلیٰ کے قریبی کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کے راجیہ سبھا ایم پی اور منی پور کے راجا کے خطاب سے سرفراز  ایل سناجوابا ارمبائی ٹنگول کے بانی ہیں اور دوسری تنظیم میتیئی لیپن کے بانی پرمود سنگھ ہیں، جو آر ایس ایس کے اسٹوڈنٹ ونگ – اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے سابق رکن ہیں اور بیرین سنگھ کے قریبی مانے جاتے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ کو بھی تشدد کے دوران ارمبائی ٹنگول کی حمایت کرتے دیکھا گیا ہے ۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ان تنظیموں کے ارکان بالخصوص ارمبائی ٹنگول کو پولیس کی گاڑیوں میں ہتھیاروں کے ساتھ گھومتے ہوئے دیکھا گیا؛ اور پولیس اہلکاروں اور منتخب رہنماؤں کو حکم دیتے ہوئے ، اپوزیشن کے ایم ایل ایز اور پولیس اہلکاروں پر جسمانی حملوں میں بھی ملوث دیکھا گیا ۔ میتیئی برادری کے لوگ بھی ان کے حملوں کی زد میں آئے جنہوں نے ان کی کارگزاریوں پر سوال اٹھائے۔ ان کے گھروں پر بھی حملے کیے گئے ۔

چوڑا چاند پور جیسے کُکی علاقوں میں  تمام میتیئی باشندوں کو کُکی دہشت گردوں کی دھمکیوں کے مدنظر اپنی حفاظت کے لیے وادی امپھال کی طرف بھاگنے کو مجبور ہونا پڑا۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ہی برادریوں کے لوگوں نے اس تنازعہ اور اسے روک پانے میں حکومت کی ناکامی کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔

وزیر اعلیٰ اور نارکو دہشت گردی کے الزام، کُکی ججوں کا نسلی تعصب

آڈیو ریکارڈنگ میں، چیف منسٹر نے مبینہ طور پر عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوال اٹھایا، بالواسطہ طور پر کُکی ججوں پر نسلی  تعصب کا الزام لگایا اور بے حد فخر سے یہ کہا کہ انہوں نے اس کو لے کرایک دہائی قبل ہی  خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔

اگر آپ ڈرگس ضبط کرتے ہیں، جج ہاؤکیپ، گانگٹے، وہ سب وہاں  ہیں۔ یہ اندر داخل ہونے  کا پروگرام ہے، جس کے بارے میں میں نے دس سال پہلے …آپ نے میرا ٹوئٹ دیکھا ہوگا… 2013 میں…

آڈیو ریکارڈنگ میں الزام لگایا گیا ہے کہ کُکی برادری ریاست میں منشیات کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہے۔ اس نسلی تصادم کے دوران ایک اصطلاح جو بار بار سنی جاتی تھی وہ تھی ‘سرحد پار نارکو ٹیررازم’۔ اس کو کسی اور نے نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ نے ہوا دینے کا کام  کیا ۔


یہ بھی پڑھیں: منی پور ٹیپ: کیا جنسی زیادتی کانشانہ بننے والی کُکی خواتین کے معاملے میں سی ایم نے ریپ کے ثبوت مانگے تھے؟


انہوں نے میڈیا میں  کہا کہ بنگلہ دیش اور منی پور سے کام کرنے والے مسلح کُکی گروپ، جو مبینہ طور پر منی پور حکومت کی ‘منشیات کے خلاف جنگ’ کی مخالفت کرتے ہیں اورہندوستان  کے خلاف جنگ کر رہے ہیں، انہوں  نے اس نسلی تشدد کو بھڑکایا  ہے۔ پارلیامنٹ میں امت شاہ کے بیان میں بھی اس اصطلاح کے  استعمال کا مشاہدہ کیا گیا تھا ۔

لیکن، کُکی برادری سے تعلق رکھنے والے منشیات کے سرغنہ لکھاؤسی زو کی گرفتاری کے سلسلے میں منی پور ہائی کورٹ میں داخل کیے گئے ایک حلف نامہ میں ریاستی پولیس کے محکمہ انسداد منشیات (نارکوٹکس)کے سابق افسر تھوناوجم برندا نے بتایا تھا کہ وزیر اعلیٰ نے خصوصی طور پرانہیں رہا کرنے کے لیے  کہا تھا۔اس وقت بیرین سنگھ ریاست کے وزیر داخلہ بھی تھے۔ اس وقت انہوں نے اس (برندا) کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی دھمکی بھی دی تھی ۔ لیکن ابھی تک ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ برندا نےاس ٹکراؤ کے بعد جلد ہی اپنا استعفیٰ دے دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ‘منشیات کے خلاف جنگ’ کا اعلان کرنے والی ریاستی پولیس نے اسے منشیات کے ساتھ پکڑا تھا، پھر اسے 4 دن بعد ہی ضمانت مل گئی۔ لکھاؤسی زو جلد ہی مقامی ہسپتال سے فرار ہو کر میانمار چلا گیا۔ (اس کیس کے بارے میں مزید معلومات 16 جولائی 2020 کو کی گئی دی وائر کی اس رپورٹ میں پڑھی جا سکتی ہیں۔ )

ریاست کے  وزیر ایل سسیندرو یائیما سے سوال

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، میٹنگ کے کلیدی مقرر کو پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے وزیر سسیندرو یائیما کا نام لیتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، جو بیرین سنگھ کے بہت قریبی سمجھے جاتے ہیں۔

دی وائر نے یائیما کے سرکاری ای میل پر یہ سوال  پوچھاکہ  کیا انھوں نے گزشتہ سال کبھی بھی وزیر اعلیٰ کو وادی کے علاقوں میں کُکی لوگوں کے آباد ہونے اور ایس ٹی کوٹہ کے ذریعے ریاستی انتظامیہ کی نوکریوں پر قبضہ کرنے کو لے کر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے سنا؟

وزیر کی طرف سے کوئی جواب موصول ہوا تو اس کو اس اسٹوری  میں شامل کیا جائے گا۔

§

جیسا کہ منی پور ٹیپ کے حوالے سے بار بار دی وائر کی وسیع کوریج میں بتایا گیا ہے کہ  پوری آڈیو ریکارڈنگ منی پور تشدد کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے حوالے کر دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ پر اس کو  ریکارڈ کرنے والوں کی جانب سے اس ریکارڈنگ کی صداقت کی تصدیق کرنے والا حلف نامہ بھی کمیشن میں جمع کرایا گیا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کمیشن اپنے سامنے پیش کیے گئے مواد پر کیسے آگے بڑھتا ہے۔

رپورٹ میں جس  ٹیپ کا ذکر آیا ہے،اس کی  بنیاد پر دی وائر نے وزیر اعلیٰ سے درج ذیل سوالوں کے جواب طلب کیے ہیں؛

کیا آپ کو امپھال سکریٹریٹ میں زیادہ تر افسران کے کُکی برادری سےہونے  پر کوئی اعتراض ہے؟

کیا آپ کو اس بات پر کوئی اعتراض ہے کہ منی پور کی عدالتوں میں کچھ جج کُکی برادری سے تعلق رکھتے ہیں؟

کیا آپ کُکی برادری کو شیڈول ٹرائب کی فہرست میں شامل کرنے کے خلاف ہیں؟

کیا آپ محفوظ جنگلات کی زمینوں کو خالی کرانے کے اپنی حکومت کے فیصلے کے نتیجے کے طور پر ہوئے نسلی تشدد کا کریڈٹ لیتے ہیں؟

کیا آپ کو لگتا ہے کہ نگاؤں کو منی پور کے گھاٹی کے علاقوں میں مکان خریدنے میں دلچسپی نہیں ہے، کیونکہ وہ ہندوستان سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں؟

وزیر اعلیٰ کا جواب موصول ہونے پر اس رپورٹ کو اپڈیٹ  کیا جائے گا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔