یہ واقعہ بدھ کو دھولے-سی ایس ایم ٹی ایکسپریس میں پیش آیا تھا۔ جلگاؤں کے رہنے والے بزرگ اپنی بیٹی سے ملنے کلیان جا رہے تھے، جب کچھ لوگوں نے ان پر غیر قانونی طور پر گائے کا گوشت لے جانے کا الزام لگاتے ہوئے حملہ کر دیا تھا۔ پولیس نے معاملے میں کارروائی کرتے ہوئے بھارتیہ نیائے سنہتا کی نسبتاً ہلکی دفعات کا اطلاق کیا، نتیجے کے طور پر ایک ہی دن میں ملزمین کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
ممبئی: 72 سالہ اشرف علی سید حسین کے لیے جلگاؤں سے کلیان تک کا سفر ایک عرصے سے ان کے معمول کا حصہ ہے۔ وہ عام طور پراس روٹ میں ٹرین سے ہی سفر کرتے ہیں، کلیان جنکشن پر اترتے ہیں اور پھر کلیان کے مضافات میں واقع کونگاؤں کے لیے آخری چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے آٹو رکشہ لیتے ہیں، جہاں ان کی بیٹی رہتی ہے۔ تاہم، 30 اگست کا سفر ان کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھا۔
دراصل، پولیس بھرتی امتحانات کے لیے ممبئی کا سفر کر رہے شرپسندوں کے ایک گروپ نے حسین کے پاس ’گائے کا گوشت‘ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے ان پر حملہ کر دیا تھا۔
یہ لوگ، جو ظاہری طور پر پولیس اہلکار اور ’قانون کا سپاہی‘ بننے کی خواہش رکھتے تھے، حسین کو قتل کرنے پر آمادہ گئو رکشکوں میں تبدیل ہوگئے۔
انہوں نے حسین کے چہرہ، سینہ اور پیٹ پر لات گھونسے برسائے، گالیاں دیں اور ان کا فون چھین لیا۔
اس حملے کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے سے پہلےان شرپسندوں نے اپنے متعدد ڈیوائس پر ریکارڈ بھی کیا۔ تھانے ریلوے پولیس اسٹیشن میں شکایت کے بعد تین افراد کو گرفتار کیا گیا، جن کی شناخت آکاش اہواد، نیلیش اہیرے اور جیش موہتے کے طور پر کی گئی۔
اس سفاکانہ حملے کے واضح ویڈیو شواہد کے باوجود، ان کے خلاف نئے بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) قوانین کی ہلکی اور قابل ضمانت دفعات کے تحت الزام عائد کیے گئے، نتیجے کے طور پر ایک دن میں ہی انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
سیٹ کو لے کرتنازعہ
حسین کہتے ہیں کہ بغیر کسی اکساوے کے ان پر حملہ کیا گیا۔ وہ جلگاؤں کے چالیس گاؤں اسٹیشن پر ٹرین میں سوار ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ،’ٹرین میں بھیڑ تھی، اور میں اس وقت تک کھڑا رہا جب تک کہ ٹرین ناسک ریلوے اسٹیشن کے قریب نہیں پہنچ گئی۔ یہاں اوپر کی برتھ پر بیٹھی ایک لڑکی نے جب اپنی سیٹ خالی کی تو میں وہاں بیٹھ گیا۔ میرے پاس کھڑے تقریباً 24-25 سال کے ایک نوجوان نے مجھ سے تھوڑی سی جگہ بنانے کو کہا۔ چونکہ وہاں کسی اور کے لیے گنجائش نہیں تھی، اس لیے میں نے ان سے کہا کہ کیا وہ میری گود میں بیٹھیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس بات پر انہیں اور ان کے ساتھ کھڑے دوسرے لوگوں کو غصہ آ گیا۔
حسین کلیان اسٹیشن کے قریب آنے تک اپنی جگہ پر ہی بیٹھے رہے۔ حسین نے ایف آئی آر میں کہا،’میں نے اپنا بیگ اٹھایا۔ اس میں بھینس کے گوشت سے بھرے دو پلاسٹک کے جارتھے۔‘
قابل ذکر ہے کہ مہاراشٹر میں بھینس کے گوشت پرپابندی نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں،’ان لوگوں نے اچانک مجھ پر زور ڈالا کہ میں اپنا بیگ کھول کر انہیں دکھاؤں۔ انہوں نے مجھے گھیرلیا اور پوچھنے لگے کہ میرے بیگ میں کیا ہے؟ میں نے پریشانی کے عالم میں دعویٰ کیا کہ یہ بیل کا گوشت ہے ( جس پر 2015 سے پابندی ہے)۔ کچھ ہی دیر میں، ان لوگوں نے مجھ پر لات گھونسے برسانا شروع کر دیے اور مجھے گالیاں دینے لگے۔‘
’اسے چلتی ٹرین سے باہر پھینک دو‘
حسین جیسے ہی کلیان اسٹیشن پر دروازے کی طرف بڑھے، وہ لوگ بھی ان کی طرف لپکے۔ وہ کہتے ہیں،’میں نے ان کو آپس میں کہتے ہوئے سنا، ‘اسے چلتی ٹرین سے باہر پھینک دو۔’ میں مزاحمت کرتا رہا، لیکن وہ مجھے اورزیادہ زدوکوب کرنے لگے۔ انہوں نے میری آنکھوں اور سینے کو نشانہ بنایا۔
حسین کہتے ہیں کہ مسافروں میں چند ایسے لوگ بھی تھے جنہیں ان کی حالت پر ترس آرہا تھا۔ ان کے مطابق،’انہوں نے ان نفرت پھیلانے والوں کو روکنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ لوگ مجھے زدوکوب کرتے رہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے پولیس میں شکایت کرنے پر انہیں جان سے مارنے اور ان کے گھروں کی عورتوں کے ساتھ ریپ کرنے کی دھمکی دی۔
حسین کو دھمکی دیتے ہوئے انہوں نے پورے ہندوستان میں رائٹ ونگ گئو رکشکوں اورماب لنچنگ میں ملوث بجرنگ دل کے ساتھ اپنی وابستگی کا فخریہ اعلان بھی کیا۔
’دوپہر تک ویڈیو تمام پلیٹ فارم پر دستیاب تھے‘
آخر کار، جیسے ہی ٹرین تھانے پہنچی، حسین کسی طرح ٹرین سے اترنے میں کامیاب ہوگئے۔ وہاں کچھ اورلوگ بھی اترے اور ان کے ساتھ ریلوے پولیس کے پاس گئے۔ حسین نے پولیس کو بتایا کہ ان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی ہے۔
حسین کا چہرہ پھولا ہواتھا۔ وہ کانپ رہے تھے اور بہ مشکل بول پا رہے تھے۔ اس وقت تک ان کی آنکھوں کا دائرہ سیاہ پڑ چکا تھا۔ پولیس نے ان کی حالت پر کوئی دھیان نہیں دیا اورحسین کے خلاف ایک واضح فرقہ وارانہ حملے کو ٹرین کے ایک عام سے جھگڑے کی طرح لیا۔ ’پولیس نے سادے کاغذ پر کچھ لکھا اور مجھ سے اس پر دستخط کرنے کو کہا۔ میں بہ مشکل دیکھ پا رہا تھا، اور اس قدر صدمے میں تھا کہ میں ان سے یہ بھی نہیں کہہ پایا کہ وہ مجھے پڑھ کر سنا دیں۔ میں نے دستخط کیے اور چلا آیا،‘ وہ کہتے ہیں۔
حسین واپس کلیان اور پھر کونگاؤں، اپنی بیٹی کے گھر گئے۔ ’مجھے لگتا ہےکہ مجھ پر جو غصہ اتارا گیا وہ اس گوشت کے لیے تھا جو میں اپنے ساتھ لے جا رہا تھا۔ ان لوگوں نے پلاسٹک کے جار میں گوشت دیکھ کر مجھ سے اس قدر نفرت کا اظہار کیا۔ میں نے اپنی بیٹی کے گھر کے قریب گوشت کو بہتے ہوئے پانی میں پھینک دیا۔‘
حسین کا کہنا ہے کہ انہوں نے شروع میں ٹرین کے اس واقعہ کو اپنے خاندان سے چھپانے کی کوشش کی۔ لیکن ان لوگوں نے پہلے ہی ویڈیو کو سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا تھا، اور دوپہر تک، یہ سارے پلیٹ فارم پر دستیاب تھا۔
پولیس نے بی این ایس کی ہلکی دفعات کا اطلاق کیا
ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) سے تعلق رکھنے والے کارکن حرکت میں آئے اور حسین کو قانونی مدد کی پیشکش کی۔
حسین اپنے اہل خانہ اور ایس ڈی پی آئی کارکنوں کی ایک ٹیم کے ساتھ تھانے پولیس اسٹیشن گئے۔
پولیس نے ایف آئی آر درج کی اور دھولے کے تین افراد کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 189(2) (غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے)، 191(2) ( دنگا کرنے)، 126(2) (غلط طریقے سے روکنے)، 190 (جان بوجھ کر غیر قانونی فعل میں ملوث ہونے اور دنگا کے لیے اکسانے)، 115(2) (جان بوجھ کرچوٹ پہنچانے )، 352 (امن کی خلاف ورزی کرنے)، 324(4) ( 20000 سے 1 لاکھ روپے تک کا نقصان یا نقصان پہنچانے) اور351(3) ( جان سے مارنے یایا شدید چوٹ پہنچانے کی مجرمانہ طور پر دھمکی دینے)کے تحت معاملہ درج کیاگیا۔
بی این ایس کی دفعہ 351(3) کے تحت ملزم کو سات سال تک کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ تمام سیکشن مجسٹریٹ ٹرائیبل ہیں اور ان کی ضمانت پر فوراً رہائی متوقع تھی۔
سال 2018 میں گئو رکشکوں کی جانب سے کیے جانے والے تشددکے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مہاراشٹر حکومت نے 2022 میں ایک سرکاری ریزولیشن جاری کیا تھا۔ پولیس کو فرقہ وارانہ انتشار پھیلانے، توہین، اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنے سے متعلق دفعات کا اطلاق کرنے کے علاوہ دوسری دفعات کو بروئے کار لانا چاہیے تھا۔ لیکن، پولیس نے اس واقعہ کے فرقہ وارانہ پہلو کو بالکلیہ نظر انداز کر دیا۔
پولیس چشم پوشی کر رہی تھی: کارکن
ایس ڈی پی آئی سے وابستہ ایکٹوسٹ سرفراز، جو شکایت درج کرانے کے وقت موجود تھے، نے بتایا کہ پولیس کچھ اہم اور متعلقہ دفعات کو شامل کرنے سے گریز کر رہی تھی۔ سرفراز نے پولیس اسٹیشن سے دی وائر کو بتایا،’ہم پولیس اسٹیشن میں ہیں۔ انکل(حسین) کو میڈیکل چیک اپ کے لیے لے جایا گیا ہے، اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ایف آئی آر میں دفعات کو بڑھایا جائے۔‘ تاہم، پولیس آنا کانی کر رہی ہے۔
ویڈیوکے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد بھی پولیس نے معاملے کا از خود نوٹس نہیں لیا ۔ اس نے ایف آئی آر درج کرنے کے لیے حسین کے واپس آنے کا انتظارکیا۔ شرپسندوں کے سفاک حملے میں شدیدطور پر زخمی اور صدمے سے دوچار حسین معاملہ درج کرانے سے گریز کر رہے تھے۔ اگر حسین نے ہمت کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو پولیس معاملہ درج نہیں کرتی۔ 1 ستمبر کو، ہجومی تشددمیں شامل تین افراد کو ضمانت پر رہا کیے جانے کے چند گھنٹے بعد، پولیس حسین کی بیٹی کے گھر ان کا بیان پھر سے درج کرنے پہنچی۔ ایس ڈی پی آئی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ پولیس پر سیکشن بڑھانے کے لیےڈالے گئے دباؤ کے بعد ہوا۔
سوشل میڈیا پر اس حملے کا ویڈیو بڑے پیمانے پر شیئر کیے جانے کے بعد اپوزیشن کے کئی لوگوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، ریاستی حکومت اب تک خاموش ہے۔ کلیان اور تھانے دونوں ہی وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کا آبائی حلقہ ہے، لیکن ابھی تک ان کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Categories: خبریں