الیکشن نامہ

کشمیر انتخابات: جماعت اسلامی 37 سال بعد بندوق سے ووٹ کی طرف کیوں لوٹ رہا ہے؟

جموں و کشمیر میں جماعت اسلامی اچانک انتخابی میدان میں کود پڑا ہے۔ اس نے 1987 کے اسمبلی انتخابات کے بعد کبھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ اس لیے یہ کوئی معمولی واقعہ  نہیں ہے۔

کولگام میں جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ  آزاد امیدوار سیار احمد ریشی ایک ریلی کے دوران۔ (تمام تصاویر: روہن کمار)

کولگام میں جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ  آزاد امیدوار سیار احمد ریشی ایک ریلی کے دوران۔ (تمام تصاویر: روہن کمار)

کولگام/سری نگر: کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کچھ ہی دن باقی ہیں۔ بارہمولہ سے کولگام تک یہ سننے کو مل  رہا ہے – ‘ جیتے کوئی بھی، ہمیں اس سے کیا؟چلنا تو  سب کچھ دلی سے ہی  ہے نا؟‘

ان دنوں کشمیر کی سیاست میں سازش  کے کئی  چرچے چل رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے موقف پر قیاس آرائیاں کی جاری ہیں۔ بے یقینی کے اس ماحول میں جماعت اسلامی اچانک انتخابات میں کود پڑا ہے۔ اس لیے نئے وسوسے کیسے پیدا  نہیں ہوں گے!

§

کولگام کے مرکزی بازار کی سرکوں کو دیکھ کر لگتا نہیں ہے  کہ اگلے چار دنوں میں یہاں ووٹنگ ہونے والی ہے۔ کہیں بھی کوئی انتخابی بینر یا جھنڈا نظر نہیں آتا۔ نہ انتخابی مہم کی گاڑیاں نظر آرہی ہیں اور نہ ہی ان سے کوئی شور ہے۔ بس جنوبی کشمیر میں عسکریت پسندی کے پیش نظر حفاظتی بندوبست نظر آرہے ہیں۔ بازار میں لوگوں کو چھیڑنے کے بعد بھی الیکشن کا کوئی جوش نظر نہیں آتا۔ ‘کوئی بھی  جیتے، ہمارا کیا؟ ہمیں (کشمیریوں کو ) برباد کرکے ، اب جو آباد ہونا چا ہے،ہوتا رہے‘، مقصود احمد بھٹ نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔

مقصود کولگام گھنٹہ گھر کے قریب کپڑے کی دکان چلاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ تھوڑی دیر پہلے  جماعت اسلامی کے امیدوار یہاں سے گزرے تھے، ‘ان کے (جماعت کے امیدوار) کے قافلے میں لوگ کم اور سکیورٹی اہلکار زیادہ تھے۔ اسی سے  آپ یہاں کے حالات کا پتہ لگالو۔‘ یہ کہہ کر مقصود اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔

سیار احمد ریشی کولگام اسمبلی سیٹ سے آزاد امیدوار ہیں۔ کہنے کو  آزاد امیدوار ہیں، لیکن جماعت اسلامی نے ان کو اپنی حمایت دی ہے۔2019 کے پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے بعد  28 فروری، 2019 کوپہلی بار وزارت داخلہ نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعہ 3 کے تحت جماعت اسلامی پر پانچ سال کے لیے پابندی لگا تے ہوئے کہا تھاکہ ‘جماعت- اسلامی (جے ای ایل) ‘ملک دشمن اور تخریبی’ سرگرمیوں میں ملوث ہے، جس کا مقصد ‘عدم  اطمینان پیدا کرنا’ ہے۔‘

اسی  سال اس پابندی کو پانچ سال کے لیے بڑھا دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے وزیر داخلہ امت شاہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا تھا،’دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کے خلاف وزیر اعظم نریندر مودی کی زیرو ٹالرنس کی پالیسی کی پیروی کرتے ہوئے حکومت نے جماعت اسلامی (جموں و کشمیر) پر پابندی کو پانچ سال کے لیے بڑھا دیا ہے۔’

مختلف اوقات میں، جماعت اسلامی کو پاکستان کا حامی یا آزادی کا حامی یا حق خود ارادیت کی وکالت کرنے والا گروہ  مانا جاتا رہا ہے۔

کشمیر میں عسکریت پسندی کو جماعت کی حمایت ملتی رہی ہے۔ مارے گئے عسکریت پسندوں کے اہل خانہ نے مجھے گزشتہ دوروں کے دوران بتایا تھا، ‘لڑکے (عسکریت پسند) کی شہادت کے بعد جماعت نے خاندان کی مالی مدد کی تھی۔’ جن کے گھر جوابی  کارروائی میں تباہ ہوجاتے ہیں، انہیں بھی جماعت اسلامی مبینہ طور پر مالی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔ 2019 میں پابندی کے بعد ایجنسیوں نے جماعت اسلامی کے بینک اکاؤنٹ اور ان کی بہت سی جائیدادیں ضبط کر لی ہیں۔ جماعت کے کئی رہنما جیل میں ہیں۔

سال 1987 کے اسمبلی انتخابات کے بعد جماعت اسلامی نے کبھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ اس سال جماعت اسلامی، حریت اور دیگر علیحدگی پسند گروپ مسلم متحدہ محاذ (یونائیٹڈ فرنٹ)کے تحت الیکشن لڑ رہے تھے۔ اس وقت کی نیشنل کانفرنس اور کانگریس حکومتوں پر انتخابات میں دھاندلی کے الزام لگے  تھے۔ مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے قائدین کی گرفتاریاں  ہونے لگیں۔ کئی رہنما گرفتاریوں سے بچنے کے لیے سرحد پار پاکستان فرار ہو گئے۔ اس سے وادی میں کشیدہ صورتحال پیدا ہوگئی۔ انتہا پسندی نے جنم لیا۔ جس کا شکار کشمیری پنڈت بھی ہوئے۔ اس وقت کے وزیر داخلہ مفتی سعید کی بیٹی روبیہ سعید کو اغوا کر لیا گیا۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) نے اس کی ذمہ داری لی۔ جے کے ایل ایف نے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ روبیہ سعید کے بدلے پانچ دہشت گردوں کو رہا کرے، جس کے سامنے حکومت کو جھکنا پڑا۔

کولگام میں ایک ریلی کے دوران جماعت اسلامی کے رہنما۔

کولگام میں ایک ریلی کے دوران جماعت اسلامی کے رہنما۔

یہ کشمیر میں مایوسی کا دور تھا۔ انتخابات میں دھاندلی کے بعد کشمیر میں ‘اون لی ون سولیوشن ، گن سولیوشن – گن سولیوشن ‘ کے نعرے لگائے جاتے تھے۔ دہشت گردی کو ہر طبقے کی حمایت حاصل تھی۔ اس کی حمایت کرنے والوں میں جماعت اسلامی ایک بڑی تنظیم تھی۔ جماعت اسلامی کے نظریے سے متاثر ہوکر حزب المجاہدین نے کشمیر میں جدوجہد آزادی شروع کی تھی۔

اس نقطہ نظر سے جماعت اسلامی کی طرف سے کسی بھی انتخابی امیدوار کی حمایت کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ کیا جماعت ایک کالعدم تنظیم ہونے کی وجہ سے آزاد امیدوار کھڑا کر رہا ہے؟ایک  کالعدم تنظیم، جس کی تاریخ اس قدر متنازعہ رہی ہے، اس کی فعال سیاست میں واپسی کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ جماعت اسلامی کے اندر یہ تبدیلی کیوں آئی؟ کشمیر میں جس پراسرار طریقے سے ایجنسیاں کام کرتی ہیں ، کہیں  جماعت اسلامی کے ذریعے وادی میں ایک متوازی سیاسی متبادل تو نہیں پیدا کیا جا رہا ہے؟

§

آٹھ ستمبر کو جماعت اسلامی نے کولگام کے بگام قصبے میں ایک بڑی ریلی کا انعقاد کیا تھا۔ یہ ریلی 37 سال بعد تنظیم کی انتخابی سیاست میں بالواسطہ واپسی کی علامت تھی۔ چاروں طرف نعرہ تکبیر، اللہ اکبر اور ٹاپ ٹاپ لیپ ٹاپ کے نعرے گونج رہے تھے۔ لیپ ٹاپ سیار احمد ریشی کا انتخابی نشان ہے۔

‘ہمارا (جماعت اسلامی) ایشو صرف ایک ہے – حق خود ارادیت(رائٹ ٹو سیلف ڈیٹرمنیشن)۔ ہم  نے (جماعت اسلامی) اس ملک (جموں و کشمیر) کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ ہمیں جس طریقے سے بھی انصاف ملے گا، جماعت اسلامی اس کی طرف رخ کرے گا،‘ ریلی میں شریک 50 سالہ ایک شخص نے کہا۔

’جماعت اسلامی نے انتخابی سیاست بھی کرلی، مسلح بغاوت کا حصہ بھی  ہو لیے۔ اب آپ 37 سال بعد دوبارہ الیکشن لڑ رہے ہیں… یہ کس قسم کی تبدیلی ہے؟‘، میں نے پوچھا۔

جماعت اسلامی کبھی انتخابات کے خلاف نہیں رہا۔ وہ ہمیشہ انتخابی سیاست کا حصہ رہا ہے۔ ان دنوں (1987 کے حوالے سے) حالات ایسےبنے  تھے کہ جماعت این سی-کانگریس کی سازشوں کا شکار ہو گیا۔ اب صورتحال بدل گئی ہے، یہ کہہ کر وہ مجھےریلی  میں اور بھی لوگوں سے بات کرنے کا مشورہ دینے لگے۔

اس جلوس میں بڑا جوش و خروش تھا،کئی  لوگ جماعت کے فیصلے کو پوری طرح سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ آزاد امیدواروں کے ذریعے جماعت اسلامی کی انتخابی واپسی کروانے میں ہندوستانی ایجنسیوں کا کردار ہے۔ ہندوستانی حکومت عبداللہ اور مفتی کے برعکس ایک  قیادت تیار کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی اور جماعت اسلامی اتنے زور شور  سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔

اس الیکشن میں جیل میں بند اور آزاد امیدوار مین اسٹریم لیڈروں سے زیادہ اہم نظر آنے لگے ہیں۔ اگرچہ ہندوستان  کا نام نہاد مین اسٹریم میڈیا سری نگر کی ڈل جھیل اور گپکر روڈ سے انتخابی کہانیاں بن رہا ہے، لیکن انتخابات کا محور بارہمولہ اور کولگام کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔

§

قد کچھ پانچ فٹ، سر پر سفید ٹوپی، چہرے پر اچھی طرح تراشی ہوئی داڑھی، پٹھانی سوٹ میں ملبوس ایک نوجوان جموں و کشمیر پولیس اور سی آر پی ایف کے دستے سے گھرا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ سیار احمد ریشی ہیں۔

سیار احمد ریشی

سیار احمد ریشی

ریشی کولگام میں جماعت اسلامی کے تعلیمی ونگ فلاح عام ٹرسٹ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ کولگام کے کہرواٹ کے رہنے والے ریشی ایک سرکاری کالج میں معاہدے پر پڑھاتے تھے۔ انہوں نے کولگام میں ہی کچھ ٹیوشن سینٹرز میں بطور ٹیچر بھی کام کیا ہے۔ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 اور 35 (اے) کی منسوخی کے بعد سے ہندوستانی  ایجنسی نے ریشی اور جماعت اسلامی کے سابق امیر شیخ غلام حسن کے گھروں پر دہشت گردی سے متعلق رقم  کے معاملے میں چھاپے ماری کی تھی۔ تاہم ریشی کو کبھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ چونکہ ریشی کے پاس ایک بہت بڑے علاقے میں سیب کے باغات ہیں، ایجنسیوں کاالزام رہا ہے کہ وہ اس کی  کمائی (سیب کے باغات سے) جنوبی کشمیر میں عسکریت پسندی کوفروغ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

مقامی سی پی آئی (ایم) کے کارکنان ریشی کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایجنٹ کے طور پر برانڈ کرنے کے لیے ان کو ملی سکیورٹی ٹیم کاسہارا لیتے ہیں۔ ‘دہشت گردی کی فنڈنگ کے الزامات ہیں۔ ایجنسیوں نے گھر پر چھاپہ مارا ہے۔ اس کے باوجود انہیں سی آر پی ایف اور جموں کشمیر اسپیشل آپریشن گروپ کی سکیورٹی حاصل ہے۔ کچھ تو بات ضرور ہوگی۔ یوں ہی کوئی خاص نہیں ہوتا،’ایسا کہتے ہوئے  ظہور (ان کا پورا نام سکیورٹی وجوہات کی بناء پر ظاہر نہیں کیا جا رہا ہے) مسکراتے ہیں۔

سیاسیات میں ایم اے کر چکے ریشی چار بار سی پی آئی (ایم) کے ایم ایل اے محمد یوسف تاریگامی کے گڑھ میں ایک مضبوط امیدوار کے طور پر ابھرے ہیں۔

وہ پتھریلی گلیوں میں گھر گھر مہم چلا رہے ہیں۔ اس مہم میں سیکورٹی اہلکاروں کے علاوہ تقریباً 10-12 لوگ ان کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیں۔ ان میں سے بہ مشکل چار سے پانچ نوجوان ہیں۔ نوجوانوں کی ٹی شرٹ پر سیار احمد ریشی کی تصویر چھپی ہوئی ہے۔

میں نے گلی میں ہجوم میں کھڑے لوگوں سے پوچھا ،’اتنے عرصے بعد جماعت اسلامی الیکشن لڑ رہا ہے، کوئی خاص وجہ؟‘

وہ ایک دوسرے کی بغلیں جھانکتے ہوئے منتشر ہونے لگے۔ ایک آدمی نے مسکرا کر کہا، ‘سیارصاحب ہی بتائیں گے۔’

سیار احمد ریشی ایک گھر میں داخل ہوئے۔ گھر کے باہر ی حصے میں ایک خوبصورت کچن گارڈن تھا۔ بیگن، شملہ مرچ اور ہری مرچ کے پودے کھلے ہوئے تھے۔ بتایا گیا کہ اس گھر میں سیار کے دوپہر کھانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ہمیں  باہر انتظار کرتے ہوئے پانچ منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ سیار کے معاون  نے بتایا کہ وہ ہمیں اندر بلا رہے ہیں۔ جوتے اتارنے کے بعد میں اپنے شریک کار کے ساتھ اندر داخل ہوا۔

سیار کے ساتھ کمرے میں کئی  لوگ بیٹھے ہیں۔ سیار کے ساتھی انہیں  ایک ڈبہ لا  کر دیتے ہیں ۔ یہ کٹے ہوئے سیب سے بھرا ہوا ہے۔ سیار کا لنچ یہی  ہے۔ باقی سب کو کیلے اور ڈبہ بند جوس دیا جاتا ہے۔ ‘ پوچھیے جو بھی آپ کو پوچھنا ہے،’سیار کے معاون کہتے ہیں۔ سیار احمد ریشی کا ماننا ہے کہ جموں و کشمیر میں حالات بہتر ہوئے ہیں۔

ان سے انٹرویو کے اقتباسات:

جماعت کے حمایت یافتہ امیدوار کا کیا مطلب ہے؟

ہمیں امید تھی کہ ٹربیونل ہم (جماعت اسلامی) سے پابندی اٹھا لے گا، لیکن پابندی نہیں ہٹائی گئی۔ اس لیے میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہا ہوں۔ پابندی ہٹ جاتی تو جماعت اسلامی ہر سیٹ پر الیکشن لڑتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے امیدوار الیکشن جیت کر اسمبلی میں پہنچیں اور جماعت کی بات کریں۔

 جماعت پر پابندی نہ ہوتی تو  آپ جماعت کے امیدوار ہوتے؟

بالکل۔ اگر پابندی نہ ہوتی تو جماعت اسلامی ایک سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن لڑ رہی ہوتی۔

جماعت اسلامی 1987 میں مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کا حصہ تھا۔ ان انتخابات پر دھاندلی کے الزامات لگتے ہیں۔ جماعت نے 1987 کے انتخابات کے بعد سے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ اب ایسا کیا ہوا کہ جماعت انتخابی سیاست میں واپسی کر رہا ہے؟

دھاندلی کی وجہ سے لوگوں کا سیاست اور سیاسی جماعتوں سے اعتماد اٹھ چکا تھا۔ لوگوں نے جذبات میں آکر بندوقیں اٹھا لی تھیں۔ جس کا فائدہ جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں نےاٹھایا۔ آج بھی وہی جماعتیں عوام میں یہ خوف پھیلا رہی ہیں کہ اگر سیار ریشی کے جلسوں میں جاؤ گے تو  جماعت اسلامی کا لیبل لگ جائے گا۔ پولیس تم پر ایف آئی آر درج کرے گی۔

سوال یہ ہے کہ انتخابات میں جماعت اسلامی کا اعتماد کیسے بحال ہوا؟ الیکشن میں آنے کے لیے آپ کی کیا تحریک تھی؟

حال ہی میں ہوئے لوک سبھا انتخابات آزادانہ اور منصفانہ تھے۔ ہمیں انتخابی نتائج سے تحریک ملی۔ ہم نے محسوس کیا کہ ہمیں (جماعت اسلامی) بھی میدان میں آنا چاہیے۔ بہت تیزی سے کشمیری معاشرہ  اخلاقی پستی کی طرف جارہا ہے۔ منشیات اسکولوں تک پہنچ چکی ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ جماعت ایک سماجی اصلاحی ادارہ  کے طور پر آگے آئے گا اور عوام کی خدمت کرے گا۔

جب پورے ملک میں الیکشن کمیشن پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو سمجھنے کے لیے آپ کے  (جماعت اسلامی کا) پیمانے کیا رہے؟

جن کے حق میں لوگوں نے ووٹ دیا وہی منتخب ہوئے۔ اس سے بڑا پیمانہ بھلاکیا ہو سکتا ہے۔

کیا آپ انجینئر رشید کی جیت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں؟

میں صرف انجینئر رشید کی طرف اشارہ نہیں کر رہا ہوں، بلکہ میں ان تمام امیدواروں کی بات کر رہا ہوں جو جیت کر آئے ہیں۔ ہم کشمیر کے دیہاتوں اور محلوں میں رہتے ہیں۔ ہمیں سمجھ آتا ہے کہ ووٹ کس کے حق میں پڑے ہیں اور کون جیت کر آیا ہے۔

نیشنل کانفرنس، کانگریس اور پی ڈی پی کا الزام ہے کہ آزاد امیدوار بی جے پی کے پراکسی ہیں اور انہیں مین اسٹریم پارٹیوں کا ووٹ کاٹنے کے لیے میدان میں اتارا گیا ہے؟

دراصل، وہ بوکھلا گئے ہیں۔ کچھ دن پہلے تک عمر عبداللہ کہتے تھے کہ وہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ ملے بغیر الیکشن نہیں لڑیں گے۔ آج وہ دو دو سیٹوں سے لڑ رہے ہیں… انہیں  (سیاسی جماعتوں کو) پتہ ہے کہ آنے والے دنوں میں جماعت اسلامی کے وزیر اعلیٰ اور وزیر  ہوں گے۔

کہا جا رہا ہے کہ ہندوستانی  ایجنسیاں جماعت اسلامی کو الیکشن میں اتار رہی ہیں؟

ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر ہم الیکشن نہ لڑتے تو عوام کی خدمت کیسے کرتے۔ یتیم بچوں، بیواؤں اور غریبوں،جن  کی ہم (جماعت اسلامی) مدد کیا کرتے تھے، ہم اسمبلی میں جائیں گے تو ان کی مدد کر سکیں گے۔ ہم پابندی ہٹوانے کی کوشش کریں گے تاکہ ہم لوگوں کی مدد کر سکیں۔

یہ بھی الزام ہے کہ جماعت اسلامی نے کشمیر میں پرتشدد انقلاب کی حمایت کی ہے۔

ہم (جماعت اسلامی) نے کبھی مسلح باغیوں کی حمایت نہیں کی۔ یہ الزام ہمارے سروں پر برسوں سے لگایا جا رہاہے۔ ہم امن پسندقوم  ہیں۔ ہم پرلگے الزامات کا فائدہ سیاسی جماعتوں نے اٹھایا ہے۔

§

سیار احمد ریشی کے جلسے میں جمع بھیڑ ۔

سیار احمد ریشی کے جلسے میں جمع بھیڑ ۔

جماعت اسلامی فی الحال چار سیٹوں کولگام، دیوسر، پلوامہ اور جین پورہ پر آزاد امیدواروں کی حمایت کر رہا ہے۔ ان کے علاوہ جماعت اسلامی کی جانب سے مزید 6 نشستوں پر آزاد امیدواروں کی حمایت کی بات چل رہی تھی تاہم اب جماعت اسلامی اور انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی کے درمیان اتحاد کا اعلان کیا گیا ہے۔

(روہن کمار آزاد صحافی ہیں۔)