خبریں

اڑیسہ: فوجی افسر اور ان کی منگیتر کے ساتھ بدسلوکی کے بعد فوج برہم

اڑیسہ میں ایک فوجی افسر اور ان کی منگیتر کے ساتھ ہوئی بدسلوکی کے بعد سینٹرل انڈیا ریجن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ ان چیف نے اڑیسہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر مداخلت کی درخواست کی اور کہا کہ قصوروار پولیس اہلکاروں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے اور مناسب سزا دی جائے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/د ی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/د ی وائر)

نئی دہلی:گزشتہ 14-15 ستمبر کی درمیانی شب کو اڑیسہ کے دارالحکومت بھونیشور کے بھرت پور پولیس اسٹیشن میں ایک فوجی افسر کے ساتھ بدسلوکی اور ان کی منگیتر کے ساتھ وحشیانہ حملے اور جنسی تشدد کےمعاملے  پرانڈین آرمی نے سخت موقف اختیار کیا ہے۔

متاثرہ فوجی افسر آرمی کی سکھ رجمنٹ میں میجر کے عہدے پرفائز ہیں، جبکہ ان کی منگیتر فوج کے ایک سابق بریگیڈیئر کی بیٹی ہیں۔معاملے میں پانچ پولیس اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے اور اڑیسہ پولیس کی کرائم برانچ نے پولیس حراست میں فوجی افسر کی منگیتر کے ساتھ ہوئے  جنسی تشدد کے کے معاملے میں پولیس اہلکاروں کے خلاف معاملہ  درج کر لیاہے۔

کیا ہے معاملہ؟

بھونیشور میں ایک ریستوراں چلانے والی خاتون جو ایک وکیل بھی ہیں، ریستوران بند کرنے کے بعد اتوار کی رات دیر گئے اپنے منگیتر کے ساتھ کار سے گھر واپس آ رہی تھیں۔ اس دوران تین کاروں میں سوار کچھ نوجوانوں نے ان کا پیچھا کیا۔ واقعہ کے بعد سامنے آئے کچھ ویڈیو میں خاتون اور ان کے منگیتر کےساتھ کچھ نوجوانوں کو الجھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

اس کے بعد خاتون اور فوجی افسر موقع سےاپنی گاڑی لے کر نکل گئے اور واقعہ کی شکایت کرنے بھرت پور تھانے پہنچے۔

اس کے بعد تھانے میں ان کے ساتھ جو ہوا وہ رونگٹے کھڑے کرنے  والا تھا۔ جمعرات کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے خاتون نے کہا، ‘کسی طرح ہم وہاں سے (نوجوانوں کے جھنڈ سے) فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور معاملہ درج کرانے بھرت پور پولیس سٹیشن گئے۔ وہاں استقبالیہ پر بیٹھی ایک لیڈی پولیس کانسٹبل کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ ہم نے ان سے شکایت درج کرانے کی درخواست کی۔ تاہم، انہوں نے میری شکایت درج کرانے کے بجائے میرے ساتھ بدسلوکی کی۔‘

مبینہ طور پر ڈیوٹی پر موجود خاتون پولیس کانسٹبل کا رویہ اس وقت مزید جارحانہ ہو گیا جب انہیں پتہ چلا کہ متاثرہ خاتون ایک وکیل ہے۔ اسی دوران پولیس کی ایک گشتی گاڑی، جس میں کچھ خواتین پولیس اہلکار بھی شامل تھیں، تھانے پہنچیں۔

خاتون نے الزام لگایا کہ پولیس نے ان کے منگیتر کو حوالات میں بند کر دیا، جب انہوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی کہ وہ کسی فوجی افسر کو حراست میں نہیں رکھ سکتے، یہ غیر قانونی ہے، تو دو خواتین پولیس اہلکاروں نے ان کے ساتھ  مار پیٹ  شروع کردی۔

متاثرہ خاتون نے کہا، ‘دو خواتین اہلکاروں نے میرے بال کھینچنا شروع کر دیے اور مجھے مارنا شروع کر دیا۔ جب میں نے ان سے رکنے کی التجا کی تو وہ مجھے گھسیٹتے ہوئے تھانے کی راہداری میں لے گئے۔ میں نے ان میں سے ایک کا ہاتھ کاٹ لیا۔ انہوں نے میری جیکٹ اتار دی اور میرے دونوں ہاتھ اس سےباندھ دیے۔ انہوں نے میری دونوں ٹانگیں اسکارف سے باندھ دیں۔ بعد میں ایک مرد افسر آیا اور میری برا اتارنے کے بعد مسلسل میرے سینے پرلات مارنے لگا۔ اس کے بعد تھانے کا انسپکٹر آیا اور اپنی پتلون کی زپ کھول کر پرائیویٹ پارٹ دکھا تے ہوئے مجھ سے جسمانی تعلقات قائم کرنے کے بارے میں پوچھنے لگا ۔ اس نے میرے ساتھ سے چھیڑ چھاڑ بھی کی۔‘

خاتون کے منگیتر آرمی میجر نے بھی ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (کرائم برانچ) ارون بوتھرا کو تحریری شکایت میں جوڑے کے خلاف پولیس کے وحشیانہ حملے اور جنسی تشدد کی تفصیلات دی ہیں۔ انہوں  نے الزام لگایا کہ تھانہ  انچارج نے متاثرہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور ان کے ساتھ جنسی تشدد کیا گیا۔

انہوں نے بتایا، ‘میں 30 منٹ تک چیخیں سنتا رہا۔ اس کے بعد میری منگیتر کو غیر قانونی طور پر گرفتار کر کے عدالت بھیج دیا گیا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ جب وہ تھانے میں بیٹھ کر اپنی شکایت لکھ رہے تھے تو چار پولیس والوں نے  انہیں پکڑ لیا اور گھسیٹتے ہوئےایک کوٹھری میں لے گئے، جہاں انہوں نے ان کی پتلون اتار دی اور ان کا سارا سامان لے لیا، جن  میں پرس، موبائل، فوج کی آئی ڈی اور کار کی چابیاں شامل تھیں۔ ان کے مطابق، اس دوران دو خواتین پولیس اہلکاروں نے ان کی منگیتر کو مارنا شروع کر دیا۔

میجر نے تھانے میں موجود کانسٹبل سے درخواست کی کہ وہ اسٹیشن انچارج کو بلائے تاکہ وہ انہیں ایک فوجی افسر کو حراست میں لینے کے حوالے سے پروٹوکول کے بارے میں سمجھا سکیں، لیکن ان کی ایک نہیں سنی گئی۔

میجر نے انہیں  غیر قانونی حراست میں رکھنے، ہراساں کرنے اور ذہنی اذیت دینے کا الزام لگایا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب ان کی وکیل منگیتر نے وارنٹ گرفتاری دیکھنے کا مطالبہ کیا تو انہیں گھسیٹا گیا، مارا پیٹا گیا اور برہنہ کیا گیا۔

فوج کی  کارروائی

دکن کرانیکل کے مطابق، ہندوستانی فوج نے معاملے پر سخت موقف اختیار کیا اور مداخلت کی، جس کے بعد میجر کو رہا کر دیا گیا۔ وہیں، اسپتال میں ان کی منگیتر کا طبی معائنہ کیا گیا، جہاں رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان کے ساتھ بے دردی سے  مار پیٹ کی گئی تھی۔

واقعے کی اطلاع ملتے ہی ہندوستانی  فوج حرکت میں آگئی۔ واقعے کے اگلے ہی دن اس نے ایکس پر ایک پوسٹ کیا، جس میں اس نے ریاستی حکام کے ساتھ مل کر کارروائی کرنے کی بات کہی۔

وہیں، 18 ستمبر کو سینٹرل انڈیا ریجن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ ان چیف لیفٹیننٹ جنرل پی ایس شیخاوت نے اڑیسہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک خط لکھ کر معاملے میں قانون کی خلاف ورزی کا الزام لگایا اور ان سے مداخلت کی درخواست کی۔

دی پرنٹ کے مطابق، جسٹس چکردھاری چرن سنگھ کو لکھے گئے خط میں لیفٹیننٹ جنرل شیخاوت نے لکھا، ‘ایک اِن سروس فوجی افسر کے وقار کو مجروح کیا گیا  اور ان کی منگیتر، جو ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کی بیٹی بھی ہیں، کی عزت کو پولیس اہلکاروں نے پامال کیا۔ ‘انہوں نے کہا کہ جب جوڑا شکایت درج کرانے پولیس اسٹیشن گیا تو پولیس افسران نے ‘اپنی عہدے کےوقار مطابق کارروائی نہیں کی’۔

جنرل نے مزید لکھا ،’انہوں نے نہ صرف خاتون کی تذلیل کی، بلکہ اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی کی اور فوجی افسر کو بغیر کسی الزام کے تقریباً 14 گھنٹے تک حراست میں رکھ کر ان کی بھی توہین کی’۔

انہوں نے تھانے میں سی سی ٹی وی کے نہ ہونے کا مسئلہ اٹھایا اور اسے سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کی خلاف ورزی قرار دیا۔ یہ بھی لکھا کہ پولیس اہلکاروں کی کارروائی نے جوڑے کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے نظام میں فوجی برادری کے بھروسے کوبھی مجروح کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فوج کا خیال ہے کہ کئی معاملات میں قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے، جہاں ایک اِن  سروس فوجی افسر کو بغیر کسی جرم کے اور فوج کے حکام کو مطلع کیے بغیر حراست میں لیا گیا۔

جنرل نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ وہ واقعے کا از خود نوٹس لیں اور بغیر کسی تاخیر کے خاتون کی ضمانت منظور کریں۔ ساتھ ہی لکھا کہ کرائم برانچ کی طرف سے غیرجانبداری سے تحقیقات کرائی جائے اور قصوروار پولیس اہلکاروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر مناسب سزا دی جائے۔

کیا ایکشن لیا گیا؟

غالباً جنرل کے خط کا بھی اثر ہوا۔ متاثرہ خاتون، جسے پولیس نے حراست میں لیا تھا، اسی دن ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی۔

وہیں، 17 ستمبر کو خواتین کے قومی کمیشن نے بھی اس معاملے کا نوٹس لیا اور اڑیسہ پولیس کے ڈی جی پی سے 3 دن کے اندر اس واقعے کی رپورٹ طلب کی اور معاملے میں فوراً کارروائی کرنے کو کہا۔

میجر کی شکایت پر اس معاملے میں دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ پہلی ایف آئی آر سڑک پر بدتمیزی کرنے والے نوجوانوں کے خلاف ہے اور دوسری ایف آئی آر جوڑے کی غیر قانونی حراست اور حراست میں وحشیانہ حملے اور جنسی تشدد متعلق ہے۔

اس سے قبل، بھرت پور پولیس نے فوجی افسر اور ان کی منگیتر کے خلاف معاملہ درج کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ ان کے حملے میں چار کانسٹبل اور ایک خاتون سب انسپکٹر زخمی ہوئے ہیں۔

تاہم، پولیس نے اس معاملے میں بھرت پور تھانے کے انچارج دنکرشن مشرا، سب انسپکٹر بیشالینی پانڈا، اسسٹنٹ سب انسپکٹر سلیلمائی ساہو اور ساگریکا رتھ اور کانسٹبل بلرام ہانڈا کو معطل کر دیا ہے۔ اس سے پہلے ڈی جی پی نے اڑیسہ پولیس کی کرائم برانچ سے معاملے کی جانچ کرانے کی ہدایات دی تھیں۔ کرائم برانچ نے پانچ پولس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی، پولیس نے سڑک پر میجر اور متاثرہ خاتون کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے 12 نوجوانوں کی نشاندہی کی، جن میں سے 7 کو گرفتار کر لیا گیا ، حالانکہ انہیں عدالت سے ضمانت مل چکی ہے۔

وہیں، اڑیسہ حکومت نے معاملے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ موہن مانجھی کے عدالتی تحقیقات کے حکم کے بعد میجر، ان کی منگیتر اور سابق فوجی اہلکاروں نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی۔ جوڈیشل کمیشن 60 روز میں رپورٹ پیش کرے گا۔

اڑیسہ پولیس نے کیا کہا؟

دریں اثنا، اڑیسہ پولیس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اتوار کی دیر رات تقریباً 1:30 بجے، میجر اور ان کی منگیتر اپنی گاڑی میں جا رہے تھے، جب انہیں تین گاڑیوں میں سوار 12-13 افراد نے ہراساں کیا، جو لاپرواہی سے گاڑی چلا رہے تھے۔ انہوں نے گالی گلوچ کی، دھکا مکی  اور ہاتھا پائی کی۔ میجر اور ان کی منگیتر کسی طرح وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

پولیس نے بیان میں کہا کہ جوڑے نے ملزم نوجوان کی گاڑی کا نمبر نوٹ کرلیا تھا، جس کے بعد وہ تھانے پہنچے اور پولیس سے فوری کارروائی کرنے کی درخواست کی، تاہم پولیس اہلکار بہانے بناتے رہے اور جوڑے سے اپنا میڈیکل کرانے کو کہا۔

اڑیسہ پولیس نے بھی اپنے بیان میں اس کے بعدجوڑے کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تصدیق کی۔ یہ بھی بتایا کہ متاثرہ خاتون کسی طرح صبح 5 بجے اپنی گاڑی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی اور اپنا فون میجر کو دیا، تاکہ وہ مدد کے لیے فوجی حکام کو کال کر سکیں۔

پولیس نے بیان میں یہ بھی کہا کہ فوج کی 120 ٹی اے بٹالین کے ایک جونیئر کمیشن  افسر اور تین دیگر رینک کے افسران کی ایک ٹیم بھی میجر کی مدد کے لیے تھانے بھیجی گئی۔

بیان میں کہا گیا ہے، ‘جوڑے کو اسپتال لے جایا گیا تھا۔ خاتون کا جبڑا اپنی جگہ سے ہٹ گیا تھا، ناک ٹوٹی گئی تھی اور جسم پر کئی دیگر زخموں کے نشانات تھے۔ اس کے بعد دونوں کو تھانے لے جایا گیا، جہاں سے خاتون کو گرفتار کر لیا گیا۔‘

تاہم، معاملہ سامنے آنے کے بعد پولیس جوڑے کو قصوروار ٹھہرا رہی تھی۔ اڑیسہ ٹی وی کے مطابق ، بھونیشور کے ایڈیشنل ڈی سی پی سریش چندر پاترا نے کہا تھا کہ میجر اور ان کی منگیتر نے پولیس کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔

پاترا نے کہا تھا کہ جب وہ پولیس اسٹیشن آئے تو ان کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ جب پولیس نے انہیں باضابطہ شکایت درج کرنے کو کہا تووہ  پولیس سے بحث کرنے لگے۔ انہوں نے خاتون افسر سمیت پولیس اہلکاروں کے ساتھ بدسلوکی کی۔

پولیس نے الزام لگایا تھا کہ میجر نشے میں تھا اور ان کی کار میں ڈرگس بھی تھا۔

دریں اثنا، معطل پولیس اسٹیشن انچارج دیناکرشن مشرا نے جوڑے کے الزامات کو مسترد کردیا اور کہا کہ انہوں نے نشے کی حالت میں پولیس اسٹیشن پہنچنے کے بعد عملے کے ساتھ بدتمیزی کی۔

سابق فوجی پولیس اہلکار آمنے سامنے

اڑیسہ ریٹائرڈ پولیس آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن نے فوج کے افسران کو ایک کھلا خط لکھا ہے، جس میں پوچھا گیا ہے کہ کیا میجر کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے۔

دی پرنٹ کے مطابق ، خط میں کہا گیا ہے کہ جوڑا نشے میں تھا اور میجر نے اس حالت میں گاڑی چلائی۔ خاتون نے گاڑی میں بیٹھےہوئے انجینئرنگ کے کچھ طال علموں کے ساتھ بدسلوکی اور گالی گلوچ  کی۔

خط میں کہا گیا کہ ‘آپ (فوج) کے دباؤ پر انجینئرنگ کے نوجوان طالبعلموں کو عدالت میں بھیج دیاجائے گا اور خاتون کے تشدد آمیز رویے کی وجہ سے ان کا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔’

اس سے قبل، سابق فوجیوں کی تنظیم نے اڑیسہ کمشنریٹ پولیس عمارت کے قریب مظاہرہ کیا تھا اور قصوروار پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ کئی سابق فوجی اہلکار بھی اس واقعے کے خلاف سوشل میڈیا پر آ گئے تھے۔

ہندوستانی فوج کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی وائر کو بتایا کہ فوج کو اس معاملے پر بہت تشویش ہے اور امید ہے کہ مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ فوجی افسران کے ساتھ ایسے واقعات بھی ملک کے لوگوں کے حوصلے کو توڑتے ہیں۔