خبریں

تمل ناڈو: گورنر کا متنازعہ بیان، کہا — سیکولرازم ’یورپی تصور‘، ہندوستان کو اس کی ضرورت نہیں

تمل ناڈو کے گورنر آر این روی نے کنیا کماری میں ہندو دھرم ودیا پیٹھم کے کانووکیشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیکولرازم ایک یورپی تصور ہے اور اسے وہیں رہنا چاہیے، کیونکہ ہندوستان میں سیکولرازم کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اپوزیشن نے ان کے تبصرے کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

تمل ناڈو کے گورنر آر این روی۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@rajbhavan_tn)

تمل ناڈو کے گورنر آر این روی۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@rajbhavan_tn)

نئی دہلی: تمل ناڈو کے گورنر آر این روی نے سوموار کو یہ کہہ کر تنازعہ  پیدا کر دیا کہ ‘سیکولرازم ایک یورپی تصور ہے، جس کا ہندوستان سے تعلق نہیں ہے۔’

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، کنیا کماری میں ہندو دھرم ودیا پیٹھم کے کانووکیشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے روی نے کہا، ‘اس ملک کے لوگوں کے ساتھ بہت سارے دھوکے کیے گئے ہیں اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ انہیں سیکولرازم کا غلط تصور دیا گیا ہے۔ سیکولرازم کا کیا مطلب ہے؟ سیکولرازم ایک یورپی تصور ہے، سیکولرازم ہندوستانی تصور نہیں ہے۔‘

تمل ناڈو کے گورنر نے کہا کہ سیکولرازم ایک یورپی تصور ہے اور اسے وہیں رہنا چاہیے، کیونکہ ہندوستان میں سیکولرازم کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

گورنر نے کہا، ‘یورپ میں سیکولرازم آیا کیونکہ چرچ اور بادشاہ کے درمیان لڑائی تھی۔ ہندوستان ‘دھرم’سے کیسے دور ہو سکتا ہے؟ سیکولرازم ایک یورپی تصور ہے اسے وہیں رہنے دیں۔ ہندوستان میں سیکولرازم کی ضرورت نہیں ہے۔‘

کانگریس، ڈی ایم کے، بائیں بازو کی جماعتوں نےبنایا تنقید کا نشانہ

حکمران دراوڑ منیترا کزگم (ڈی ایم کے) نے گورنر کے ریمارکس پر سخت تنقید کی۔

ڈی ایم کے کے ترجمان ٹی کے ایس ایلنگوون  نے کہا، ‘سیکولرازم کی سب سے زیادہ ضرورت ہندوستان میں ہے، یورپ میں نہیں۔ گورنر صاحب نے ہندوستان کا آئین نہیں پڑھا ہے۔ آرٹیکل 25 کہتا ہے کہ مذہب کی شعوری آزادی ہونی چاہیے، جس کے بارے میں انہیں نہیں معلوم ۔ انہیں آئین کو اچھی طرح سے پڑھنا چاہیے۔ ہمارے آئین میں 22 زبانیں درج ہیں۔‘

ڈی ایم کے لیڈر نے کہا، ‘ہندی ایک ایسی زبان ہے جو صرف چند ریاستوں میں بولی جاتی ہے۔ باقی ریاستیں دوسری زبانیں بولتی ہیں… بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہ تو ہندوستان کو جانتے ہیں، نہ ہی  آئین کو… وہ کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بوتے پر حکومت بھی نہیں بنا سکے۔‘

سی پی آئی لیڈر ڈی راجہ نے بھی گورنر کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا، ‘میں آر این روی کے بیان کی سخت مذمت کرتا ہوں۔ انہیں سیکولرازم کا کیا پتہ ہے؟ وہ انڈیا کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ وہ گورنر ہیں… انہیں آئین کی پیروی  کرنی چاہیے۔ ہندوستان کا آئین ہندوستان کو ایک سیکولر جمہوریہ کے طور پر بیان کرتا ہے۔‘

راجہ نے مزید کہا، ‘ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے تھیوکریسی کے تصور کو سختی سے مسترد کیا… امبیڈکر نے یہاں تک کہا کہ اگر ہندو راشٹر حقیقت بن جاتا ہے تو یہ ملک کے لیے تباہی کا باعث ہوگا… سیکولرازم کا مطلب ہے مذہب اور سیاست کو الگ الگ رکھنا… انتخابی مقاصد کے لیے بھگوان کو بیچ میں مت لاؤ۔‘

لائیو منٹ کی رپورٹ کے مطابق،آر این روی کے سیکولرازم ریمارکس پر سخت تنقید کرتے ہوئے سی پی آئی (ایم) لیڈر ورندا کرات نے کہا کہ ‘یہ شرمناک ہے’ ایسے شخص کو تمل ناڈو جیسی اہم ریاست کا گورنر نہیں بنایا جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا، ‘مجھے یقین ہے کہ اس گورنر نے آئین کے نام پر حلف لیا ہے… سیکولرازم ہمارے آئین کا لازمی حصہ ہے… مذہب کو سیاست سے الگ رکھنا ہمارے آئین کا لازمی حصہ ہے… کل وہ کہیں گے کہ ہندوستان کا آئین بذات  خود ایک غیر ملکی تصور ہے، یہ آر ایس ایس کی سمجھ ہے… یہ شرم کی بات ہے کہ ایسے شخص کو تمل ناڈو جیسی اہم ریاست کا گورنر بنایا گیا ہے۔‘

کانگریس نے بھی گورنر آر این روی کے بیان کو ‘توہین آمیز اور ناقابل قبول’ قرار دیا۔

پارٹی کے جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے روی کی برخاستگی کا مطالبہ کرتے ہوئے انہیں ‘کلنک’ سے موسوم کیا۔ انہوں نے کہا، ‘اس شخص نے، جس نے آئین کا حلف اٹھایا اور اپنا ڈھنڈورہ پیٹنے کے باوجود آئینی عہدہ پر فائز ہے، اسے فوراً برخاست کیا جانا چاہیے۔وہ ایک کلنک ہیں ۔’

ایکس پر ایک پوسٹ میں رمیش نے روی کو ‘ٹرائل بیلون فلوٹر’ کہا اور دعویٰ کیا کہ وہ وہی کہہ رہے ہیں جو وزیر اعظم کرانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘یہ ان کا پہلا تضحیک آمیز اور ناقابل قبول بیان نہیں ہے۔ لیکن وہ صرف ایک ٹرائل  بیلون فلوٹر ہیں۔ وہ وہی دہرا ر ہے ہیں جونان بایولوجیکل وزیر اعظم کروانا چاہتے ہیں۔‘

وہیں، کانگریس لیڈرپی چدمبرم نے آر این روی کے تبصروں پر سخت تنقید کی اور کہا کہ کنیاکماری کو بھگوا لباس پہنانے کے بعد تمل ناڈو کے گورنر کو اب پتہ چلا ہے کہ سیکولرازم ایک یورپی تصور تھا اور اس کی ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا،’وہ صحیح نہیں ہے، لیکن فرض کیجیے یہ درست ہے۔وفاقیت بھی ایک یورپی تصور تھا۔ کیا ہمیں یہ اعلان کرنا چاہیے کہ ہندوستان میں وفاقیت کی کوئی جگہ نہیں ہے؟ ایک شخص، ایک ووٹ بھی یورپی تصور تھا۔ کیا ہمیں یہ اعلان کرنا چاہیے کہ کچھ لوگوں کو ووٹ دینے کا حق نہیں ہوگا؟‘

انہوں نے کہا، ‘جمہوریت بھی ایک یورپی تصور تھا جو مہاراجہ اور بادشاہوں کی حکومت والے ہندوستان کو معلوم نہیں تھا۔ کیا ہم یہ اعلان کر دیں کہ اس ملک میں جمہوریت کو ختم کر دیا جائے گا؟‘