خاص خبر

پولیس حراست میں سونم وانگچک نے غیر معینہ مدت کے لیے بھوک ہڑتال شروع کی، احتجاج میں لداخ رہا بند

لداخ کو ریاست کا درجہ دینے اور آئین کے چھٹے شیڈول میں توسیع سمیت مختلف مطالبات کو لے کر ‘دلی چلوپیدل مارچ’ کے دوران دہلی پولیس کی طرف سے حراست میں لیے جانے کے بعد سونم وانگچک کے ساتھ ان کے حامیوں نے منگل سے غیر معینہ مدت کے لیے بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔

چنڈی گڑھ میں سونم وانگچک پیدل مارچ  کے دوران۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@Wangchuk66)

چنڈی گڑھ میں سونم وانگچک پیدل مارچ  کے دوران۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@Wangchuk66)

نئی دہلی: ماحولیاتی  کارکن سونم وانگچک اور ان کے ساتھ مارچ کر رہے سینکڑوں کارکنوں کو سوموار (30 ستمبر) کی رات دہلی سے پہلے سنگھو سرحد پر حراست میں لینے کے بعد وانگچک نے بھوک ہڑتال شروع کی ہے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے ایک سینئر پولیس افسر کے حوالے سے بتایا کہ وانگچک اور دیگر حراست میں لیے گئے افراد کو پولیس نے منگل (1 اکتوبر) کی رات کو جانے کی اجازت دی تھی، لیکن وہ وسطی دہلی کی طرف مارچ کرنے پر بضد تھے، جس کی وجہ سے انہیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔

دریں اثنا، سونم وانگچک نے دیگر حامیوں کے ساتھ پولیس کی حراست میں رہتے ہوئے منگل سے غیر معینہ مدت کے لیے بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔ وانگچک کو کچھ دیگر لوگوں کے ساتھ بوانہ پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا ہے، جبکہ دیگر کو نریلا انڈسٹریل ایریا، علی پور اور کنجھ والا پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا ہے۔

وانگچک اور ان کے ساتھ آئے لوگوں کو دہلی پولیس نے سوموارکی رات سنگھو بارڈر پر امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کے الزام میں  حراست میں لیا تھا ۔

منگل کو لداخ کے ایم پی محمد حنیفہ کو بھی دہلی پولیس نے اس وقت حراست میں لے لیا جب وہ سنگھو سرحد پر پہنچے۔

خبروں  کے مطابق ، رکن پارلیامنٹ نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ لداخ ماحولیات اور آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت کے ساتھ کس طرح بات چیت کر رہا ہے۔ گزشتہ 3 سال سے ہم اپنے حقوق کے لیے پرامن طریقے سے لڑ رہے تھے۔ اس کے لیے ہم نے حکومت سے بات چیت بھی کی تھی، لیکن لوک سبھا انتخابات اور نئی حکومت کی تشکیل کے بعد انہوں نے بات چیت بند کر دی۔

رپورٹ کے مطابق ، وانگچک اور دیگر کی حراست کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں پی آئی ایل بھی دائر کی گئی ہیں۔ اسے 3 اکتوبر کو سماعت کے لیے درج کیا گیا ہے۔

درخواست میں 30 ستمبر کو دہلی پولیس کے ذریعے نافذ کردہ بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعہ 163 کے تحت امتناعی حکم کو بھی رد کرنے کا مطالبہ کیا گیاہے، جس میں دہلی کے بعض حصوں میں پانچ سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہے۔

واضح ہو کہ کارکنوں، سول سوسائٹی گروپوں اور سیاست دانوں نے وانگچک اور دیگر کی حراست کو ‘غیر قانونی’، ‘غیر اخلاقی’ اور ‘غیر اعلانیہ ایمرجنسی’ قرار دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ دارالحکومت میں امتناعی حکم کو جمہوریت کے اصولوں اور آئین کے منافی قرار دیا گیا ہے۔

معلوم ہو کہ وانگچک لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دینے اور اسے آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دہلی کی طرف مارچ کر رہے تھے۔ یکم ستمبر کو لیہہ سے شروع ہونے والا یہ مارچ تقریباً ایک ہزار کلومیٹر لمبا تھا اور طے شدہ شیڈول کے مطابق اسے 2 اکتوبر یعنی گاندھی جینتی کو باپو کی سمادھی پہنچنا تھا۔ لیکن اس سے پہلے ہی پولیس نے مارچ کو روک دیا اور ان لوگوں کو حراست میں لے لیا گیا۔

سوموارکی رات سونم وانگچک نے خود سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس  پر اپنی حراست کے بارے میں اطلاع دی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے ساتھ پیدل چلنے والوں میں 80 سال سے زیادہ عمر کے بزرگ بھی ہیں ۔ اس میں خواتین بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ چند درجن ریٹائرڈ فوجی بھی ہیں۔

لداخ میں احتجاجی مظاہرہ

دریں اثنا، منگل کو لیہہ میں زبردست احتجاج کا مشاہدہ کیا گیا، جہاں لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوئی اور مکمل ریاست کا مطالبہ کرتے ہوئے نعرے لگائے۔ کارگل ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے) اور اپیکس باڈی، لیہہ نے پورے لداخ میں بند کی بھی کال دی تھی۔

وہیں، لیہہ ایپکس باڈی (ایل اے بی) کے شریک کنوینر چیرنگ دورجے لاکروک نے دی ہندو کو بتایا کہ وہ سونم وانگچک اور دیگر پرامن مظاہرین کے ساتھ کیے گئے سلوک پر ‘حیران’ ہیں۔ یہ تمام لوگ دشوار گزار چٹانی اور پہاڑی علاقوں کو عبور کرکے دہلی پہنچے ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سابق رکن لاکروک نے مزید کہا، ‘ہمارے لوگ اتنی گرمی میں چلنے کے عادی نہیں ہیں، ان کے پیروں میں  چھالے ہیں۔ جیسے ہی وہ سوموار کو دہلی پہنچے، انہیں حراست میں لے کر پولیس اسٹیشن لے جایا گیا، فرش پر سلایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ لداخی اپنے احتجاج کو تیز کریں گے اور مطالبہ کریں گے کہ وزارت داخلہ ان کی شکایات کے ازالے کے لیے 2023 میں تشکیل دی گئی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرے۔

لاکروک نے کہا، ‘مارچ کے آغاز سے لے کر اب تک تشدد کی ایک بھی شکایت درج نہیں ہوئی ہے۔ اسے دیگر ریاستوں کے لوگوں کی طرف سے زبردست حمایت حاصل ہوئی ہے۔ حکومت کو شاید اس بات کی فکر تھی کہ اسے دہلی میں زبردست حمایت حاصل ہو سکتی ہے اور لوگ بڑی تعداد میں ہمارے ساتھ آئیں گے جس سے امن و امان کا مسئلہ  پیدا ہونے کا خدشہ ہے، اسی لیے اس نے پیدل مارچ  کو اس طرح چھوٹا  کر دیا۔ آج پورا لداخ سڑکوں پر ہے، وہ غصے میں ہیں۔

اپوزیشن نے کیا کہا؟

لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے سونم وانگچک کو باپو کی سمادھی پر آنے سے روکنے پر سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ‘ ماحولیاتی  اور آئینی حقوق کے لیے پرامن مارچ کر رہے سونم وانگچک اور لداخ کے سینکڑوں لوگوں کی حراست  ناقابل قبول ہے۔ لداخ کے مستقبل کے لیے آواز اٹھانے والے بزرگ شہریوں کو دہلی کی سرحد پر کیوں حراست میں لیا جا رہا ہے؟’

راہل گاندھی نے مزید لکھا، ‘مودی جی، کسانوں کی طرح یہ ‘چکرویوہ’ اور آپ کا غرور بھی ٹوٹے گا۔ آپ کو لداخ کی آواز سننی ہوگی۔’

سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اور اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ جو لوگ امن سے ڈرتے ہیں وہ اندر سے ڈرے ہوئے ہوتے ہیں۔

انہوں نے لکھا، ‘بی جے پی حکومت ماحولیات کے محافظ  اور لداخ  کے حمایتی سونم وانگچک جی کے پرامن دہلی دورے میں خلل ڈال کر کچھ حاصل نہیں کر سکتی۔ اگر مرکز نے سرحدوں کی آواز پر کان نہ دھرے تو اس کا سیاسی بہرا پن کہلائے گا۔’

منگل کو دہلی کے وزیر اعلیٰ آتشی سونم وانگچک سے ملنے پہنچی تھیں، لیکن انہیں پولیس نے روک دیا۔

اس سے پہلے آتشی نے ایکس  پر لکھا ، ‘سونم وانگچک اور ہمارے 150 لداخی بھائی اور بہنیں پرامن طریقے سے دہلی آ رہے تھے۔ اسے پولیس نے روک لیا ہے۔ وہ کل رات سے بوانہ تھانے میں قید ہیں۔ کیا لداخ کے لیے جمہوری حقوق کا مطالبہ کرنا غلط ہے؟ کیا ستیہ گرہیوں کا 2 اکتوبر کو گاندھی سمادھی جانا غلط ہے؟ سونم وانگچک جی کو روکنا آمریت ہے۔’

غورطلب  ہے کہ 5 اگست 2019 کو ہندوستانی پارلیامنٹ نے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔ لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر کے دونوں کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا۔

سونم وانگچک نے یکم ستمبر 2024 کو لیہہ سے ‘دلی چلو’ مارچ کا آغاز کیا تھا۔ اس مارچ کا مقصد لداخ کو ریاست کا درجہ دلانا اور اسے آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل کرنا ہے۔

اس حوالے سے ایل اے بی کے رکن اشرف علی نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ،’یہ جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے، ہمیں دکھ ہوا ہے کہ یہاں (دہلی) پہنچنے کے بعد  انہوں نے ہمارے لوگوں کو حراست میں لے لیا۔ یہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ پولیس نے ڈی یو ایس یو انتخابی نتائج اور وقف ترمیمی ایکٹ کا حوالہ دیا ہے۔ ہریانہ کے انتخابات وغیرہ کے لیے امتناعی احکامات جاری کرنے کے لیے کہا گیا ہے، لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دہلی میں امن ہے۔ انہوں نے بے بنیاد خبروں کی بنیاد پر ہمارے لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے رکن پارلیامنٹ کو بھی حراست میں لیا گیا، ہم حیران ہیں کہ ہندوستان جیسی جمہوریت میں ایسی چیزیں ہوسکتی ہیں۔’

قابل ذکر ہے کہ لیہہ اپیکس باڈی (ایل اے بی) نے کارگل ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے) کے ساتھ مل کر ‘ دہلی چلو پیدل مارچ’ کا اہتمام کیا تھا جو گزشتہ چار سالوں سے ریاست کا درجہ، آئین کے چھٹے شیڈول میں توسیع، لداخ کےلیے لوک سیوا آیوگ کے ساتھ تیز رفتار بھرتی کے عمل اور لیہہ اور کارگل اضلاع کے لیے الگ لوک سبھا سیٹوں کا مطالبہ کرتے ہوئے مہم چلا رہی ہے۔