ایک دہائی قبل گڑگاؤں کے مانیسر میں ماروتی فیکٹری میں مینجمنٹ اور مزدوروں کے درمیان پرتشدد تنازعہ میں ایک عہدیدار کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد تقریباً ڈھائی ہزار مزدوروں کو من مانے طریقے سے نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ آج تک وہ اپنی نوکری کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مانیسر: ہریانہ انتخابات کے درمیان ایک ایسا مسئلہ پھر سے ابھر رہا ہے، جس نے کبھی ریاست کی سیاست طوفان برپا کر دیا تھا لیکن اب اسے تقریباً فراموش کیا جا چکاہے۔
اس کے ایک گواہ سریندر کوشک ہیں، جن کی یادوں میں جنوری 2018 کا وہ دن آج بھی ایسے تازہ ہے گویا کل کی بات ہو۔ ‘سرجی، میں نہیں چاہتا کہ میری تنخواہ سےپی ایف—وی ایف کے نام پر ایک بھی روپیہ کٹایا جائے۔ مجھے مستقل ملازم مت بنائیے۔’ چشمہ لگائے سریندر کوشک اس جنوری کی بات یاد کر رہے تھے۔ ‘میں نے اپنے باس سے کہا کہ آپ مستقل کیے بغیر بھی میری تنخواہ بڑھا سکتے ہیں، لیکن وہ کہاں ماننے والے تھے۔’
جب دی وائر نے اس سال 28 ستمبر کو کوشک سے ملاقات کی تو وہ اور ان کے ساتھی مانیسر کے تحصیل دفتر کے سامنے بیٹھے بھگت سنگھ کی 117 ویں صد سالہ پیدائش کی تیاری کر رہے تھے۔ کوشک یہ بھی بتا رہے تھے کہ پانچ سال جیل میں گزارنے کے بعد وہ 2017 میں رہا ہوئے اور سونی پت کے ایک ویئر ہاؤس میں کام کرنے لگے۔ کچھ عرصے بعد یعنی جنوری 2018 میں انہیں مستقل ملازم بننے کی پیشکش کی گئی۔ دن رات محنت کرنے والے ایک نیم ہنر مند یا غیر ہنر مند مزدورجس کے پاس صرف گزر بسر لائق پیسہ ہو اور بچانے کو پھوٹی کوڑی بھی نہ ہو، مستقل ملازم بننا زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتاہے۔ لیکن کوشک ایسا کیوں نہیں چاہتے تھے؟
‘مستقل ملازم ہونے کے لیے پولیس کی تصدیق ضروری تھی، اور پولیس کارروائی میں جانے کا مطلب تھا گڑے مردے اکھاڑنا۔’ دھول بھرے گدے پر بیٹھ کر بھنے ہوئے چنے چباتے ہوئے ایک اور ملازم ستیش نے جواب دیا۔ سریندر کوشک مالک سے کیا چھپانے کی کوشش کر رہے تھے؟ ‘میرا ماضی مجھے اس پر فخر ہے۔ لیکن وہی میری روزی نگل جاتا۔’
ماروتی کی مانیسر فیکٹری سے جڑا یہ ماضی اب بھی کوشک کے اوپر منڈلا رہا ہے۔
ماروتی فیکٹری میں آگ زنی
تقریباً ڈیڑھ دہائی قبل ماروتی سوزوکی کی مانیسر فیکٹری میں مزدور کم تنخواہ، غیر یقینی کام کے حالات اور کمپنی مینجمنٹ کی طرف سے ان کی آزاد یونین کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کی مخالفت کر رہے تھے۔ 18 جولائی 2012 کو یونین اور مینجمنٹ کے درمیان تنازعہ تشدد اور آگ زنی کی شکل اختیار کر گیا جس کے نتیجے میں ایک منیجر اونیش کمار دیو کی موقع پر موت ہو گئی۔ اس وقت کوشک اور ستیش فیکٹری کے اندر تھے۔ اگلے دن کمپنی نے کوشک اور ستیش سمیت 547 مستقل اور 1800 ٹھیکہ مزدوروں کو نکال دیا ۔ یہ دونوں مستقل مزدور تھے۔
ان ڈھائی ہزار سے زیادہ مزدوروں میں سے 148 کو چھوڑ کر باقی کے نام ہریانہ پولیس کی تفتیش تک میں سامنے نہیں آئے ۔ دوسروں کو محض ‘عدم اعتماد’ کی وجہ سے نوکری سےنکال دیا گیا۔ باقی ملازمین کے خلاف مجرمانہ مقدمہ چلا، جن میں سے 117 کو بعد میں بری کر دیا گیا۔ بے قصور ثابت ہونے کے باوجود جب انہیں بحال نہیں کیا گیا تو مزدوروں نے مداخلت کے لیے لیبر کورٹ سے رجوع کیا ۔ جہاں یہ معاملہ آج بھی زیر التوا ہے۔
اس واقعہ کے 12 سال بعد آج پھر کوشک اور ستیش اپنے ان برخاست ساتھیوں کے ساتھ مانیسر تحصیل دفتر کے سامنے غیر معینہ مدت کی ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جن لوگوں کو عدالت نے بے گناہ قرار دیا ہے انہیں فوراً نوکری پر بحال کیا جائے ۔
یہ مزدور اس مطالبے کے حوالے سے اب تک 50 سے زائد دھرنے دے چکے ہیں اور 2012 میں لیبر کورٹ میں کیس بھی کر چکے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں ملا۔ ماروتی سے نکالے جانے کے وقت کوشک کی ماہانہ تنخواہ 18000 روپے تھی۔ جب اس نے 2017 میں جیل سے رہائی کے بعد مذکورہ ویئر ہاؤس میں نوکری کی تو انہیں صرف 15000 روپے ماہانہ ملتے تھے۔ لیکن نوکری ان کے لیے بہت ضروری تھی۔ جب ویئر ہاؤس کا مالک ان کی ملازمت کو مستقل کرنے پر بضدہو گیا تو وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ پولیس تصدیق کے دوران کوشک کا ماروتی واقعہ سے تعلق کا انکشاف ہوا۔ ‘انہوں نے دو ماہ کی تنخواہ دی اور کہا کہ اب ادھرکبھی مت آنا،’ کوشک نے کہا۔
اس کے بعد کوشک نے کم تنخواہ پر کئی نوکریاں کیں لیکن کوئی بھی کام چند ماہ سے زیادہ نہیں چل سکا۔ ہر بار جیسے ہی مینجمنٹ کو ماروتی سے ان کی برخاستگی کی جانکاری ملتی، انہیں باہر کر دیا جاتا۔
یہی حالت ماروتی سے نکالے گئے ان تمام مزدوروں کی ہے جو کام کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ وہ کھیتی مزدوری کرلیتے ہیں، موٹر ورکشاپ میں کام کرلیتے ہیں، جو بھی کام ملتا ہے کر لیتے ہیں۔ کئی لوگوں نے مویشی پالنا بھی شروع کر دیا ہے۔
‘میں کبھی بھی تین مہینے کی ٹیسٹ ونڈو کو پارنہیں کر سکا۔’ انہوں نے جھنجھلاتے ہوئے کہا کہ بھلے ہی وہ شروع میں اپنا ماروتی کنکشن چھپانے میں کامیاب بھی ہو جاتے لیکن چند مہینوں کے بعد جب مزدوروں سے دوستی ہو جاتی ہے تو وہ خود ہی بتا دیتے یا بات کرتے ہوئے منہ سے نکل جاتا اور بات مینجمنٹ تک پہنچ جاتی۔
ستیش اور کوشک بے قصور پائے گئے برخاست مزدوروں کی بحالی کے لیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ 18 ستمبر سے غیر معینہ مدت کی ہڑتال پر ہیں۔
‘یہ 18 تاریخ ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ہر 18 جولائی کو ہم فیکٹری کے گیٹ پر مظاہرہ کرتے ہیں۔ پچھلے 12 سالوں میں ہم نے 50 سے زیادہ مظاہرے اور مختلف پروگرام کیے ہیں۔ کیتھل سے دہلی تک پیدل مارچ کیا، سائیکل ریلی بھی نکالی،’ ماروتی سوزوکی سنگھرش سمیتی کے کنوینر خوشی رام نے کہا۔
ان کے ارد گرد نعرے گونج رہے تھے – ‘ماروتی کمپنی کےپرزے پرزے، ہمیں بتاتے اپنے قصے؛’نو وار بٹ کلاس وار۔’
اٹھارہ ستمبر کی صبح جب تقریباً 500 مزدور ڈی سی آفس سے پلانٹ کی طرف بڑھنے لگے تو تقریباً دگنی تعداد میں پولیس والوں نے رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور انہیں آگے بڑھنے نہیں دیا۔
سیاسی تبدیلی اور مزدوروں کی جدوجہد
چونکہ ہریانہ انتخابات کی دہلیز پر ہے، یہ قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ بی جے پی کے ایک دہائی کے اقتدار کے بعد دوسری پارٹی انتخابات جیت سکتی ہے۔مزدوروں کو امید ہے کہ اس بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے کا اثران کی جدوجہد پر پڑے گا۔ اس کے علاوہ فیکڑی میں یونین اور مینجمنٹ کے درمیان تنخواہ پر نظر ثانی اور دیگر مطالبات کے لیے تین سالہ سی او ڈی (ڈیمانڈ لیٹر) پر بھی اس سال بات چیت ہونے والی ہے۔
بی جے پی حکومت بھی مزدوروں کی جدوجہد کا استعمال اپنی انتخابی مہم کے لیے کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ‘ہُڈا صاحب، لوگ بھولے کوڈیا’ (ہُڈا صاحب، لوگ بھولے نہیں ہیں ) کے عنوان سے ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے، جس میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر سنگھ ہڈا پر طنز کیا جا رہا ہے۔
ستیش نے دی وائر کو بتایا کہ 2023 میں مزدوروں، یونین کے اراکین اور انتظامیہ کا ایک وفد اس وقت کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کے پاس گیا تھا، جنہوں نے اس معاملے کو جلد سے جلد حل کرنے کی بات کہی۔
حالانکہ موجودہ وزیر اعلیٰ نائب سینی نے ان کی جلد بحالی کی یقین دہانی کرائی، لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
‘ہم نے اپنی جوانی ماروتی کو دے دی، اب جب ہمارا جسم ڈھلنے لگا ہے تو ہم کہاں جائیں؟ ہم 2006 میں اس پلانٹ میں آئے تھے۔ یہ تب ہی شروع ہوا تھا۔ ہماری دن رات کی محنت سے ہی یہ فیکٹری ایک پلانٹ سے تین پلانٹ تک پھیلنے میں کامیاب ہوئی۔’ ستیش کہتے ہیں۔
بڑھتی عمر کے مسائل
بیس کی عمر میں آئی ٹی آئی سے براہ راست منتخب ہونے والے زیادہ ترمزدور 40 کی عمر کو عبور کر چکے ہیں۔ اب ان کے جسم میں درد کی لہر اٹھنے لگی ہے۔
کسی خاص اہلیت کے فقدان میں وہ خود کو نااہل پانے لگے ہیں۔ ‘ایک کارکن جو بولٹ اور پیچ لگاتا ہے وہ زندگی بھر وہی کرتا رہتا ہے۔ ا مینجمنٹ جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے،’ خوشی رام نے کہا۔
کٹار سنگھ افسردگی کے لہجے میں کہتے ہیں کہ حالات ایسے ہیں کہ ‘میں اپنے بچوں کے لیے اسکول کے ڈریس نہیں خرید سکتا۔’
ان مزدوروں کی جدوجہد کا خاتمہ نظر آتا ہے اور نہ ہی یہ سیاست ان کی پرسان حال ہے۔
(کنشک گپتا پیشے سے ڈاکٹر اور کہانی کار ہیں۔)
Categories: الیکشن نامہ, گراؤنڈ رپورٹ