گزشتہ دنوں ہریانہ کے پانی پت میں بہار کے کشن گنج سے تعلق رکھنے والے مزدورفردوس عالم کی مذہبی ٹوپی کو لے کر ہوئے تنازعہ کے دوران حملے کے بعد موت ہو گئی۔ اہل خانہ نے اس کی وجہ ان کی مذہبی پہچان بتائی ہے، جبکہ پولیس نے کسی بھی فرقہ وارانہ زاویے سے انکار کیا ہے۔
گزشتہ دس سالوں میں مسلم مخالف تعصب اور جذبات عروج پر پہنچ گئےہیں– اور اسے مقتدرہ پارٹی کی خطرناک سیاست نے اوربھڑکایا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بھی کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، تو اس کا اثر مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پہلگام حملے کے بعد جو ماحول بنا ہے، وہ بالکل وہی ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔
ہمانشی نروال کے بیان میں انسانیت کو بیدار کرنے کی جو طاقت تھی، اس سے خوفزدہ ہندوتوا گروہ کی جانب سے ان کی ساکھ کو ختم کرنے کے لیےمذمتی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ ایک عام ہندو کے لیے آزمائش کا وقت ہے؛ وہ ہمانشی کے ساتھ کھڑا ہوگا یا ان پر حملہ آور اس گروہ کے ساتھ؟
پہلگام دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے ہندوستانی بحریہ کے لیفٹیننٹ ونے نروال کی اہلیہ ہمانشی نے نروال کی سالگرہ کے موقع پر منعقدہ ایک پروگرام میں کہا کہ کسی سے نفرت نہیں ہونی چاہیے۔ ہم نہیں چاہتے کہ لوگ مسلمانوں اور کشمیریوں کے پیچھے پڑیں۔ ہم صرف امن چاہتے ہیں۔
وکاس یادو کے تئیں حکومت کے رویے سے پران پورہ کے اندر ناراضگی بڑھ رہی ہے۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے آپ تو امریکہ گئے نہیں تھے۔ جو کام انہوں نے حکومت کی ہدایت پر کیا، انہیں اس کے لیے سزا کیسے دی جا سکتی ہے؟
ہریانہ کے بی جے پی چیف موہن لال بڈولی اور گلوکار راکی متل کے خلاف کسولی میں گینگ ریپ کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ وہیں، مدھیہ پردیش کے سیدھی ضلع کے بی جے پی لیڈر اجیت پال سنگھ چوہان کو پارٹی کی ہی ایک خاتون لیڈر سے مبینہ ریپ اور جبری وصولی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
وزارت تعلیم کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہریانہ کے 81 اسکولوں میں 178 اساتذہ کی تقرری کے باوجود کوئی طالبعلم نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، 867 اسکولوں کو ایک ٹیچر کے سہارے چلایا جا رہا ہے۔
جب میڈیا وکاس یادو کے بارے میں قیاس آرائیوں میں مصروف تھا، وہ اپنے گھر آئے، اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارا، انہیں تسلی دی اور واپس لوٹ گئے۔ وکاس کے گھر والے حکومت کے رویے سے ناخوش ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے وکاس کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔
وکاس کے اہل خانہ نے بتایا کہ امریکہ کی جانب سے 17 اکتوبر کو الزام عائد کیے جانے کے چوبیس گھنٹے کے اندر یعنی 18 اکتوبر کو وکاس نے انہیں فون پر کہاتھا، ‘تشویش کی کوئی بات نہیں، میں خیریت سے ہوں اور محفوظ ہوں۔’
بہادرگڑھ سیٹ سے کانگریس کے باغی راجیش جون نے آزاد امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کی، جبکہ 11 دیگر سیٹوں پر جہاں بی جے پی نے جیت درج کی، وہاں کانگریس کے باغی آزاد امیدوار دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔
فیروز پورجھرکا سیٹ سے کانگریس لیڈر مامن خان نے بی جے پی امیدوار نسیم احمد کے خلاف سب سے زیادہ 98441 ووٹوں کے فرق سے جیت درج کی ہے۔ خان کو گزشتہ سال تشدد بھڑکانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
انتخابی میدان میں یہ فتح ونیش کی لڑائی کا خاتمہ نہیں ہے۔ یہ دراصل شروعات ہے۔ جن عزائم کے ساتھ انہیں ایک کھلاڑی کی حیثیت سے اپنے کیریئر کو عروج پر خیرباد کہتے ہوئے سیاست کا رخ کرنا پڑا، ان کی تکمیل کی راہیں اب یہاں سے شروع ہوتی ہیں۔
فوج میں جوانوں کی قلیل مدتی بھرتی کے لیے لائی گئی ‘اگنی پتھ’ اسکیم، دہلی کی سرحدوں پر اپنے مطالبات پر ڈٹے کسان اور راجدھانی میں ہی پولیس کے ذریعے گھسیٹے گئے پہلوانوں کے معاملے ہریانہ کے موجودہ اسمبلی انتخابات پر شدید طور پر اثر انداز ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
ہریانہ کے بھیوانی ضلع کا باپوڑا گاؤں سابق آرمی چیف اور بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ جنرل وی کے سنگھ کا گاؤں ہے۔ گاؤں کے ہر دوسرے گھر میں آپ کو فوجی مل جائیں گے، لیکن ‘اگنی پتھ’ اسکیم کے آنے کے بعد یہاں کے نوجوان فوج میں جانے کا خواب چھوڑ کر مستقبل کی تلاش میں کہیں اور بھٹک رہے ہیں۔
امت باگڑی نے بچپن میں ایک بار انجانے میں برہمنوں کے کنویں سے پانی پی لیا تھا۔ انہیں فوراً اس کنویں سے دور رہنے کی تنبیہ کی گئی تھی۔ اس کے بعد وہ کبھی اس کنویں پر نہیں گئے۔
ایک دہائی قبل گڑگاؤں کے مانیسر میں ماروتی فیکٹری میں مینجمنٹ اور مزدوروں کے درمیان پرتشدد تنازعہ میں ایک عہدیدار کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد تقریباً ڈھائی ہزار مزدوروں کو من مانے طریقے سے نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ آج تک وہ اپنی نوکری کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی سے بغاوت کرنے کے بعد آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے والے 5 امیدوار جیت کر اسمبلی پہنچے تھے، جبکہ باغیوں نے کئی سیٹوں پر بی جے پی کا کھیل بگاڑ دیا تھا۔ نتیجتاً، پارٹی اکثریت سے محروم رہ گئی تھی۔ اس بار بھی کم از کم 18 سیٹوں پر بی جے پی کے باغی آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں۔
ونیش اسٹیڈیم کو خیرباد کہہ کر ایک نئی راہ پر چل پڑی ہیں۔ ان سے پہلے بھی کھلاڑی سیاست میں آئے ہیں، لیکن ان سب نے اپنی مکمل پاری کھیلنے کے بعد پارلیامنٹ کا رخ کیا تھا۔ کیا ایک دم سے چنا گیا یہ راستہ ونیش کے لیے ثمر آور ہوگا؟
ہریانہ میں جولانا امیدوار ونیش پھوگاٹ کے عوامی اجلاس کے لیے بھلے ہی کانگریس نے ہریجن بستی کا انتخاب کیا تھا، لیکن جلسے کی تیاری کے لیے ہدایات برہمن دے رہے تھے اور دلت ان کی پیروی کر رہے تھے۔ مایاوتی کی بے عملی کے باوجود محروم سماج اب بھی اپنی قیادت بی ایس پی میں ہی تلاش کر رہا ہے اور سماجی انصاف کے کانگریس کے دعوے پر انہیں بھروسہ نہیں ہے۔
وقتاً فوقتاً جاری ہونے والی سرکاری رپورٹ، پرائیویٹ اداروں کے جاری کردہ لیبر فورس کے اعداد و شمار اور روزگار بازار کے رجحانات سے اپوزیشن پارٹیوں، بالخصوص کانگریس کو یہ اعتماد ملا ہے کہ وہ بے روزگاری کا مسئلہ اٹھا کر بی جے پی کو اقتدار میں واپسی کرنے سے روک سکتی ہیں۔
گزشتہ 23 اگست کو ہریانہ کے فرید آباد میں 12ویں جماعت کے طالبعلم آرین کو مبینہ گئو رکشک گروپ نے پیچھا کرتے ہوئے گولی مار دی تھی۔ متاثرہ خاندان سے ملاقات کے بعد سی پی آئی (ایم) لیڈربرندا کرات کا کہنا ہے کہ پولیس نےمتاثرین کو بتایا کہ ملزم نے ‘غلطی سے’ ان کے بیٹے کو مار دیا۔
یہ واقعہ 23 اگست کو فرید آباد میں پیش آیا، جہاں دہلی – آگرہ قومی شاہراہ پر گڑھ پوری کے قریب گئو رکشوں کے ایک گروپ نے دوستوں کے ساتھ جا رہے 12 ویں جماعت کے طالبعلم کی کار کا پیچھا کرتے ہوئے گولی چلا ئی، جس میں لڑکے کی موت ہوگئی۔ پولیس نے اس معاملے میں پانچ لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔
روسی فوج میں تعینات ہندوستانیوں کے اہل خانہ مسلسل حکومت سے مدد کی فریاد کر رہے ہیں، اور یہ دیکھ کر مایوس بھی ہیں کہ اس سمت میں کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔ یوم آزادی سے عین قبل ایسے ہی دس نوجوانوں کے اہل خانہ دہلی پہنچے اور انڈیا گیٹ اور روسی سفارت خانے کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
ہریانہ کے نوح ضلع میں ایک تاجر، جس کو گئو رکشک گروپوں سے وابستہ بتایا گیا ہے، کو مبینہ طور پر گولی مار دیے جانے کے بعد گئو رکشک گروپ اپنے اراکین سے ہتھیار کے لائسنس کے لیے درخواست دینے کو کہہ رہے ہیں۔
اس قدم کے پیچھے فوری وجہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا جن نایک جنتا پارٹی کے ساتھ ساڑھے چار سالہ اتحاد کا ٹوٹنا بتایا جا رہا ہے۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات کے لیے سیٹوں کی تقسیم میں اختلافات کو بی جے پی-جے جے پی اتحاد میں دراڑ کی بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
جمعہ کو دل کا دورہ پڑنے سے 62 سالہ درشن سنگھ کی موت ہوگئی۔ وہ دلی چلو احتجاجی مارچ کے دوران جان گنوانے والے چوتھے کسان ہیں۔ 29 فروری تک احتجاجی مارچ کو ملتوی کرتے ہوئے کسان لیڈروں نے کہا ہے کہ فی الحال ان کی توجہ اس بات کو یقینی بنانے پر ہے کہ شبھ کرن کی موت کے لیے ذمہ دار لوگوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔
یہ معاملہ ہریانہ کے پٹودی کے بابا شاہ محلہ میں 6 فروری کو دو گروہوں کے درمیان تصادم سے متعلق ہے، جس میں گئو رکشک مونو مانیسر نے مبینہ طور پر اپنے لائسنسی ہتھیار سے گولیاں چلائی تھیں، جس سے اقلیتی کمیونٹی کا ایک شخص زخمی ہو گیا تھا۔ مانیسر راجستھان کےچچازاد بھائیوں جنید اور ناصر کے قتل میں بھی ملزم ہیں۔
پولیس ذرائع نے بتایا کہ 31 جولائی کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں نوح پولیس سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیے جارہے پوسٹ کی جانچ کر رہی تھی۔ ایک فرضی اکاؤنٹ سے اسی طرح کے پوسٹ کرنے کے الزام میں مونو مانیسر کو پکڑا گیا ہے۔ وہ راجستھان کے دو بھائیوں جنید اور ناصر کو پیٹ پیٹ کر قتل کیے جانے کے معاملے میں بھی ملزم ہے۔
ویڈیو: ہریانہ کے میوات علاقے میں نوح میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد اور اس کے بعد ہوئی ‘بلڈوزر کارروائی ‘ کو مقامی وکلاء کی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے درج کیا ہے۔ دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی سے ان وکلاءکی بات چیت۔
ویڈیو: ہریانہ کے نوح میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد انہدامی کارروائی میں گھروں کے ساتھ سرکاری اسپتال کے سامنے بنی 45 دکانوں کو بھی مسمار کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے 15 دکانوں کے مالک نواب شیخ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کورٹ کا اسٹے آرڈر تھا، اس کے باوجود حکام نے ان کی بات نہیں سنی۔ ان سے اور مقامی لوگوں سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
ہریانہ کی نوح پولیس نے 31 اگست کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں گئو رکشک راجکمار عرف بٹو بجرنگی کو گرفتار کیا ہے۔ اس تشدد میں چھ افراد مارے گئے تھے۔ گئو رکشک مونو مانیسر بھی اس کیس میں ملزم ہیں۔ دونوں پر دائیں بازو کے گروپوں کی شوبھا یاترا سے پہلے مسلم اکثریتی ضلع نوح میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کا الزام ہے۔
ہریانہ میں گئو رکشکوں کے نمایاں چہرےمونو مانیسر، جنید اور ناصر کے قتل کیس میں نامزد 21 ملزمین میں سے ایک ہیں۔ 16 فروری کو ہریانہ کے بھیوانی میں ایک گاڑی میں دونوں چچا زاد بھائیوں کی جلی ہوئی لاشیں پائی گئی تھیں۔ ناصر اور جنید کے خلاف گائے کی اسمگلنگ کے الزامات لگائے جانے کے بعد اس واقعہ کو انجام دیا گیا تھا۔
گزشتہ 31 اگست کو نوح میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد، ریواڑی، جھجر اور مہندر گڑھ اضلاع کی کئی گرام پنچایتوں کی جانب سے اپنے گاؤں میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگانے کے لیے قراردادیں پاس کرنے کی خبریں موصول ہوئی تھیں۔ نوح میں وی ایچ پی سمیت دیگر دائیں بازو کے گروپوں کی طرف سے نکالی گئی ‘شوبھا یاترا’ کے دوران فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا، جس میں چھ افراد کی موت ہو گئی تھی۔
ہریانہ کے پلول ضلع میں منعقد ہندوتوا تنظیموں کی مہاپنچایت میں اعلان کیا گیا کہ گزشتہ31 جولائی کو فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہونے کے بعد وہ 28 اگست کو نوح ضلع میں وشو ہندو پریشد کی برج منڈل یاترا دوبارہ شروع کریں گے۔ اس یاترا کے دوران ہونے والے تشدد میں چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اب تک جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے 13 متاثرہ مساجد کا دورہ کیا ہے، اور بتایا ہے کہ صرف پلول میں 6 مساجد نذر آتش کی گئیں، ہوڈل میں تین مساجد ، سوہنا میں تین مساجد، اور ایک مسجد گروگرام میں جلائی گئی۔ وفد کا یہ بھی کہنا ہے کہ تشدد کے دوران مذہبی کتابوں کو جلایا گیا اور تبلیغی جماعت کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔
نوح میں تشدد کے بعد ریاست کے کئی علاقوں میں پھیلی فرقہ وارانہ کشیدگی کے درمیان ہریانہ کی تقریباً 30 کھاپوں، سنیوکت کسان مورچہ کے رہنماؤں، کئی کسان یونینوں اور مختلف مذاہب کے لوگوں نے حصار میں مہاپنچایت میں حصہ لیا، جہاں امن و امان اورہم آہنگی بنائے رکھنے کی اپیل کی گئی۔
غلامی کے دور میں غیر ملکی حکمرانوں تک نے اپنی پولیس سے عوام کے جان و مال کے تحفظ کی امید کی تھی، لیکن اب آزادی کے امرت کال میں لوگوں کی چنی ہوئی حکومت اپنی پولیس کے بوتے سب کو تحفظ دینے سے قاصر ہے۔
کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے نوح تشدد کے بعد متاثرہ علاقے میں جاری انہدامی کارروائی پر روک لگا دی ہے۔ عدالت نےکہا کہ لاء اینڈ آرڈر کے مسئلے کا استعمال ضروری قانونی ضابطوں کی پیروی کیے بغیر عمارتوں کو گرانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ہریانہ کے نوح میں31 جولائی کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں سوشل میڈیا اور کچھ نیوز ویب سائٹ پر ایسے دعوے کیے جا رہے تھے کہ نلہر مہادیو مندر میں پھنسی خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا تھا، پولیس نے ان دعووں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
نوح میں ہوئے واقعے کے خلاف احتجاج کے طور پربجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی ہندوتوا تنظیموں نے حصار ضلع کے ہانسی شہر میں 2 اگست کوایک ریلی نکالی تھی، جس میں مسلم دکانداروں کے بائیکاٹ کی اپیل کرنے کے ساتھ ہی مسلمانوں کو دو دن میں شہر چھوڑنے کی وارننگ دی گئی۔