الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2008 کے اسمبلی انتخابات میں فی سیٹ اوسطاً 2 فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس بار جن 19 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے تھے، وہاں اس کا ووٹ فیصد بڑھ کر اوسطاً 6.76 فیصد ہو گیا۔
سری نگر: اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات میں شکست سے دو چار ہوئی، لیکن پارٹی نے یہاں اپنی کارکردگی کو یقینی طور پر بہتر کیا ہے۔ مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں 47 میں سے 19 اسمبلی سیٹوں پر بھگوا پارٹی نے ہر سیٹ پر اوسطاً 7 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2008 کے اسمبلی انتخابات میں فی سیٹ اوسطاً 2 فیصد سے کم ووٹ حاصل کرنے والی بی جے پی کا اس بار ان 19انتخابی حلقوں میں ووٹ فیصد بڑھ کر اوسطاً 6.76 فیصد ہوگیا، جہاں اس نے اپنے امیدوار اتارے تھے۔
معلوم ہو کہ 2008 میں بی جے پی نے اسمبلی انتخابات میں وادی کشمیر کی 46 میں سے 25 اسمبلی سیٹوں میں پڑے کل ووٹوں کا اوسطاً 1.89 فیصد ووٹ حاصل کیا تھا۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں یہ اعدادوشمار بڑھ کر 3.89 فیصد ہو گیا تھا، اس وقت پارٹی نے وادی میں 34 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا۔
منگل (8 اکتوبر) کو الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج میں ‘انڈیا’ اتحاد آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مرکز کے زیر انتظام علاقے جموں و کشمیر میں پہلی مقبول حکومت بنانےکو تیار ہے۔ وہیں، بی جے پی ان انتخابات میں 29 سیٹیں جیت کر دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔
واضح ہو کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات تین مرحلوں میں ہوئے تھے۔ اس میں فاروق عبداللہ کی قیادت والی نیشنل کانفرنس (این سی) کو 42 سیٹیں ملی ہیں، جبکہ کانگریس کو صرف چھ سیٹوں پر ہی قناعت کرنا پڑی، جن میں سے پانچ سیٹیں پارٹی نے وادی کشمیر میں جیتی ہیں۔
ایک سیٹ انڈیا اتحاد کی مدد سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے رہنما ایم وائی تاریگامی کے حصے میں آئی، جنہوں نے جنوبی کشمیر کے کولگام اسمبلی حلقے سے کامیابی حاصل کی ہے۔ اس طرح کل 49 سیٹیں جیت کر انڈیا اتحاد نے 95 ایم ایل اے کی اسمبلی میں 46 کی اکثریت کا ہندسہ پار کر لیا ہے۔
بتادیں کہ جموں و کشمیر اسمبلی میں منتخب اراکین کی تعداد 90 ہے، جبکہ پانچ اراکین کو لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نامزد کریں گے، جن کی نامزدگی کے معاملے نے انتخابی نتائج کے اعلان سے قبل وادی کشمیر میں ایک سیاسی تنازعہ کھڑا کر دیا تھا۔
بھلے ہی ان انتخابات میں مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں بی جے پی کو ایک بار پھر کوئی فائدہ نہیں ملا، لیکن اس بار پارٹی اپنی پہلی جیت کے بہت قریب پہنچ گئی تھی۔ گریز اسمبلی سیٹ سے سینئر لیڈر اور بی جے پی کے امیدوار فقیر محمد خان نیشنل کانفرنس لیڈر نذیر احمد خان سے 1132 ووٹوں کے معمولی فرق سے ہار ے۔
تاہم، سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 97 فیصد مسلم آبادی والے گریز میں بی جے پی کا مظاہرہ بنیادی طور پر پارٹی کے لیے زمینی حمایت کے بجائے عوام کے ساتھ اس کے امیدوار کے تال میل کی وجہ سے تھا۔
معلوم ہو کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے سابق رہنما فقیر محمد خان نے 2020 میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ انہوں نے 1996 کے اسمبلی انتخابات میں گریز سے آزاد امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کی اور بعد میں کانگریس میں شامل ہو گئے تھے۔ نیشنل کانفرنس نے 2002، 2008 اور 2014 کے اسمبلی انتخابات میں گریز سیٹ جیتی تھی۔
راجدھانی سری نگر میں کشمیری پنڈتوں کے سابق گڑھ حبہ کدل سے بی جے پی کے امیدوار اشوک کمار بھٹ پارٹی کے لیے سب سے بہتر مظاہرہ کرنے والوں میں سے رہے، جو سینئر این سی لیڈر شمیم فردوس سے ہار گئے۔ فردوس کو 12437 ووٹ ملے، جبکہ اشوک کمار 2899 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے، جنہیں اس سیٹ پر پولنگ کے کل ووٹوں کا 15.08 فیصدووٹ ملا۔
جنوبی کشمیر کے شوپیاں اسمبلی حلقہ میں، جو کبھی علیحدگی پسندوں کے جذبات کا مرکز تھا، بی جے پی کے امیدوار جاوید احمد قادری نے 6895 ووٹ حاصل کیے یعنی کل ووٹوں کا 11.6 فیصد، جو کہ بہت اچھی کارکردگی سمجھی جا رہی ہے۔ وہ گنتی کے پہلے سات راؤنڈز میں آگے تھے، لیکن آخر کار آزاد امیدوار شبیر احمد کولے سے ہار گئے، جنھیں 14113 ووٹ ملے۔
کشمیر میں بی جے پی کا نوجوان چہرہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے پسندیدہ اعجاز حسین نے بھی وادی کشمیر سے الیکشن لڑا، جو دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد مسلم اکثریتی علاقے میں بی جے پی کے خلاف بڑے پیمانے پر غصے کے باوجود ووٹروں کی بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہے۔
الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، حسین کو سری نگر ضلع کے لال چوک اسمبلی حلقہ میں 3281 ووٹ یا کل پولنگ ووٹوں کا 8.91 فیصد ملے۔ یہ سیٹ نیشنل کانفرنس کے شیخ احسن احمد نے جیتی، جنھیں 16731 یعنی 45.45 فیصد ووٹ ملے۔ انڈیا الائنس نے سری نگر ضلع کی تمام آٹھ سیٹوں پر جیت درج کی ہے۔
جنوبی کشمیر کے دو انتخابی حلقوں راج پورہ اور کوکرناگ اسمبلی حلقوں میں بی جے پی کے امیدواروں کو بالترتیب کل ووٹوں کا 10.44 فیصد اور 7.26 فیصد ووٹ ملے۔
بی جے پی نے کرناہ میں بھی اپنی کارکردگی کو بہتر کیا، جہاں اس کا ووٹ فیصد 2014 کے اسمبلی انتخابات میں 2.52 فیصد سے بڑھ کر اس بار 7.2 فیصد ہوگیا۔ اس الیکشن میں اننت ناگ میں پارٹی کا ووٹ فیصد 3.84 فیصد سے بڑھ کر 5.37 فیصد ہو گیا اور ہوم شالی باغ (سابقہ اننت ناگ ویسٹ) میں 5.35 فیصد سے بڑھ کر 10.61 فیصد ہو گیا۔
ای سی آئی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر کے باقی انتخابی حلقوں میں بی جے پی کا ووٹ فیصد 2008 کے اسمبلی انتخابات کے بعد سے کم و بیش مستحکم رہا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔
Categories: الیکشن نامہ, خبریں, فکر و نظر