کانگریس نے جموں خطے کی 43 میں سے 29 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے، لیکن وہ اس خطے میں صرف ایک سیٹ جیت پائی۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، جموں و کشمیر ریاست میں 1967 میں پہلا الیکشن لڑنے کے بعد سے جموں خطے میں پارٹی کی یہ اب تک کی بدترین کارکردگی ہے۔
سری نگر: کانگریس نے جموں خطے میں اپنی انتخابی تاریخ کا بدترین مظاہرہ کیا ہے۔ پارٹی جب سے جموں و کشمیر میں انتخابی میدان میں اتری تھی، اس وقت سے ہی جموں کو اس کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن اس بار وہ اس علاقے سے صرف ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب رہی۔
یہاں پارٹی نے اپنے اتحادی پارٹنر نیشنل کانفرنس (این سی) سے زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا۔
پارٹی کی خراب کارکردگی نے این سی کے سامنے ایک مسئلہ پیدا کر دیا ہے کہ وہ ممکنہ طو رپرسابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت میں بننے والی حکومت میں جموں کی نمائندگی کو کیسےیقینی بنائے۔
اب تک کی بدترین کارکردگی
این سی کے ساتھ سیٹوں کی تقسیم کے معاہدے کے مطابق، کانگریس نے جموں خطے کی 43 میں سے 29 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے۔ این سی کو امیدتھی کہ کانگریس اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اور جموں کے اہم علاقوں میں کچھ سیٹیں جیت لے گی۔ تاہم، پارٹی نے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور خطے میں اور وہ بھی اندرونی علاقوں میں صرف ایک نشست جیتنے میں کامیاب رہی۔
پارٹی جموں کے 30 سے زیادہ ہندو اکثریتی علاقوں میں سے ایک بھی سیٹ جیتنے میں ناکام رہی۔ جموں میں اس کے تمام 19 ہندو امیدوار ہار گئے۔ خطے سے اس کے واحد جیتنے والے امیدوار افتخار احمد تھے، جنہوں نے راجوری سیٹ پر 1414 ووٹوں کے معمولی فرق سے کامیابی حاصل کی۔
الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، 1967 میں ریاست جموں و کشمیر میں پہلی بار الیکشن لڑنے کے بعد سے یہ جموں خطے میں کانگریس کی بدترین کارکردگی تھی۔
الیکشن کمیشن کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ کانگریس نے جموں سے 1967 میں 27، 1972 میں 28، 1977 میں 10، 1983 میں 23، 1987 میں 20، 1996 میں 4، 2002 میں 15، 2008 میں 13 اور 2014 میں پانچ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، پارٹی کئی وجوہات کی بنا پر خطے میں بری طرح ناکام ہوئی، جن میں امیدواروں کا انتخاب اور ناقص انتخابی مہم شامل ہے۔
جموں یونیورسٹی میں سیاسیات کی سابق پروفیسر ریکھا چودھری نے دی وائر کو بتایا کہ کانگریس کی قومی قیادت یہ نہیں سمجھ پائی کہ انہوں نے اصل بازی جموں خطے میں ہی کھیلی ہے۔
چودھری نے کہا، ‘انہوں نے اپنی ساری توانائی یا تو ہریانہ پر مرکوز کر دی یا پھر کشمیر چلے گئے اور جموں پر توجہ نہیں دی۔’
چودھری نے کہا کہ پارٹی نے امیدواروں کے انتخاب کا منصوبہ ٹھیک سے نہیں بنایا۔
انہوں نے کہا، ‘حد بندی سے متاثرہ کچھ انتخابی حلقوں میں بھرم کی حالت پیدا ہوگئی تھی۔ اس صورتحال میں پہلے سے یہ فیصلہ لینے کی ضرورت تھی کہ کون سا حلقہ کس امیدوار کو دیا جانا ہے۔ اس کے بجائے آخری لمحات میں فیصلہ کیا گیا جس کی وجہ سے امیدواروں کو اپنے اپنے حلقوں میں رابطہ مہم چلانے کے لیے زیادہ وقت نہیں ملا۔’
انہوں نے مزید کہا کہ کانگریس ایک پارٹی کے طور پر انتخابی مہم میں ناکام رہی اور وہ اس صورتحال کا فائدہ نہیں اٹھا سکی جس میں جموں کے لوگ متبادل تلاش کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا،’ہر امیدوار کو اپنے لیے انتخابی مہم چلانے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا، انہوں نے بطور پارٹی انتخابی مہم نہیں چلائی۔ کانگریس کا کوئی بیانیہ نہیں تھا۔ انہوں نے عوام کو درپیش مسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ وہ متبادل کی تلاش کر رہے لوگوں سے فائدہ اٹھانے میں بھی ناکام رہے۔’
کانگریس کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ تارا چند (سابق نائب وزیر اعلیٰ) اور رمن بھلا (سابق وزیر) جیسے کانگریس لیڈروں کے ‘محفوظ نشستوں’ سے انتخاب لڑنے کی’ضد’ نے پارٹی کے امکانات کو نقصان پہنچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جموں ضلع کے چھمب حلقہ سے آزاد امیدوار کے طور پر جیتنے والے ستیش شرما نے اس سیٹ سے پارٹی ٹکٹ مانگا تھا، لیکن قیادت نے تارا چند کو ترجیح دی، جو اس سے پہلے بھی اس سیٹ سے الیکشن لڑ چکے ہیں، جب یہ سیٹ درج فہرست ذات کے امیدواروں کے لیے ریزرو تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پارٹی نے بھلا کو، جو پہلے گاندھی نگر (اب باہو) سے انتخاب لڑے تھے، آر ایس پورہ-جموں ساؤتھ سے اور ٹی ایس ٹونی کو، جنہیں آر ایس پورہ-جموں ساؤتھ میں اچھی حمایت حاصل تھی، کو باہو سے میدان میں اتارا ۔
انہوں نے کہا، ‘یہ دونوں کے لیے سیاسی طور پر مہلک ثابت ہوا۔’
ستیش شرما نے دی وائر کو بتایا کہ جموں خطے میں پارٹی کی خراب کارکردگی کے لیے امیدواروں کا غلط انتخاب ذمہ دار ہے۔
انہوں نے کہا، ‘میرے والد مدن لال شرما نے 1983 اور 1987 میں چھمب اسمبلی حلقہ کی نمائندگی کی تھی۔ 2022 میں (حد بندی کے دوران) اس کو غیرمحفوظ سیٹ قرار دیے جانے کے بعد اس حلقے میں 80فیصداعلیٰ ذاتیں ہیں۔ میں اکھنور حلقہ میں تارا چند کی مدد کرنے کو تیار تھا، لیکن وہ اپنی انا کی وجہ سے یہاں سے الیکشن لڑنے پر اڑے رہے۔ اسی لیے میں نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا۔’
خراب کارکردگی نے نئی حکومت کے لیےمسئلہ پیدا کر دیا ہے
جموں میں کانگریس امیدواروں کی کارکردگی کی وجہ سے عبداللہ کی قیادت والی نیشنل کانفرنس کو وزراء کی کونسل میں جموں کی نمائندگی کو یقینی بنانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔
این سی کے دو ہندو امیدوار رام بن اور نوشیرا سے جیتے ہیں – دونوں جموں کے اندرونی علاقے ہیں – اور ہندو برادری سے ایک این سی ‘باغی’ اندروال سیٹ سے جیتنے میں کامیاب رہا ہے، جو ایک اندرونی علاقہ ہے۔ مخلوط حکومت کو درپیش اہم مسئلہ جموں سے نمائندگی کو یقینی بنانا ہوگا، جہاں بی جے پی نے 2014 سے اپنی گرفت برقرار رکھی ہے۔
وہ اتحادی شراکت داروں کو دی گئی جموں کے مرکزی علاقوں میں 24 نشستوں میں سے ایک بھی نشست جیتنے میں ناکام رہے، جہاں بی جے پی کو 22 نشستیں ملی اور باقی دو نشستیں آزاد امیدواروں کے پاس گئیں۔
یہ دو آزاد امیدوار ستیش شرما (چھمب) اور رامیشور سنگھ (بانی) ہیں۔
ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ نیشنل کانفرنس کچھ آزاد ایم ایل اے کے ساتھ رابطے میں ہے اور وہ پارٹی کے ساتھ ساتھ حکومت میں بھی شامل ہوسکتے ہیں تاکہ جموں کو نمائندگی دی جاسکے۔
بتادیں کہ کل سات آزاد امیدواروں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے، جن میں سے پانچ کا تعلق جموں اور دو کا کشمیر سے ہے۔ جموں سے جیتنے والے ان امیدواروں میں سے دو مرکزی جموں اور تین اندرونی علاقوں سے ہیں۔
عبداللہ، جو حکومت کی قیادت کرنے جا رہے ہیں، نے ان علاقوں کو مناسب نمائندگی دینے کا اشارہ دیا ہےجہاں ان کے اتحادیوں کے ایم ایل اے کم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں اتحاد کے ایم ایل اے کی تعداد کم ہے وہاں نمائندگی فراہم کرنے کی سمت کام کیا جا رہا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔
Categories: الیکشن نامہ, خبریں, فکر و نظر