بارہ اکتوبر 2024 کو ملک میں آر ٹی آئی قانون کے نفاذ کے 18 سال ہو گئے۔ سترک ناگرک سنگٹھن (ایس این ایس) کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک کے انفارمیشن کمیشنوں میں چار لاکھ سے زائد شکایتیں زیر التوا ہیں۔ انفارمیشن کمشنرکے عہدے خالی پڑے ہیں اور کئی کمیشن کام کرنا بند کر چکے ہیں۔
نئی دہلی: ٹھیک 19 سال پہلے 12 اکتوبر 2005 کو رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) قانون نافذ ہوا تھا۔ اقتدار کے گلیاروں سے عوام تک سچ اور جانکاری کی روشنی پہنچانے کا ایک مؤثر وسیلہ رہے آر ٹی آئی قانون کوپچھلے کچھ سالوں سے مختلف مسائل در پیش ہے۔
سترک ناگرک سنگٹھن (ایس این ایس) کی حالیہ رپورٹ (رپورٹ کارڈ آن دی پرفارمنس آف انفارمیشن کمیشنز ان انڈیا ، 2023-24) بتاتی ہے کہ انفارمیشن کمیشن میں چار لاکھ سے زیادہ شکایات اور اپیلیں زیر التوا ہیں۔ انفارمیشن کمشنرکے عہدے خالی پڑے ہیں۔ کئی کمیشن کام کرنا بند کر چکے ہیں۔ کئی کمیشن بنا کوئی جواب دیے درخواستیں لوٹا رہے ہیں۔ ہر کمیشن کو اپنے نفاذ کے بارے میں سالانہ رپورٹ تیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن زیادہ تر کمیشن ایسا نہیں کر رہے ہیں ۔
ایس این ایس کی بانی اور کارکن انجلی بھاردواج نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2005 میں قانون کومضبوط کیا گیا تھا ، لیکن اس پر منظم طریقے سے عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے اور اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
انجلی، آر ٹی آئی کے لیے چلائی گئی قومی مہم کی کوآرڈینیٹر بھی رہی ہیں ۔ ان کی تنظیم طویل عرصے سے آرٹی آئی کا استعمال کرتے ہوئے محروم طبقات کو ان کے حقوق دلانے کے لیے کام کر رہی ہے۔
زیر التوا معاملوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے
ایس این ایس کی رپورٹ کے مطابق ، 30 جون ، 2024 تک ہندوستان کے تمام 29 انفارمیشن کمیشن میں زیر التوا اپیلوں اور شکایتوں کی تعداد 405509 تھی ۔
اپیلوں/شکایات کے بیک لاگ کی تعداد ہرسال بڑھتی جا رہی ہے۔ 31 مارچ 2019 تک 26 انفارمیشن کمیشنوں میں کل 218347 معاملے زیر التوا تھے ۔ 30 جون 2021 تک یہ تعداد بڑھ کر 286325 ہو گئی ۔ جون 2022 میں زیر التوا شکایتوں اور اپیلوں کی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔
پچھلے سال 30 جون 2023 تک بیک لاگ 388886 تھا ۔ (یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سالوں میں زیر التوا شکایتوں/اپیلوں کی تعداد میں 187162 کا اضافہ ہوا ہے۔)
ریاستی لحاظ سے بات کریں تو مہاراشٹر کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ مہاراشٹر کے انفارمیشن کمیشن میں108641 اپیلیں / شکایات زیر التوا پائی گئیں ۔ اس کے بعد کرناٹک (5000)، تمل ناڈو (41241) اور چھتیس گڑھ (25317) آتے ہیں ۔ سینٹرل انفارمیشن کمیشن کے پاس تقریباً 23000 اپیلوں اور شکایتوں کا بیک لاگ پایا گیا ۔
انجلی، بیک لاگ کو بہت سنگین مسئلہ سمجھتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو زیر التوا مقدمات کی وجہ سے لمباانتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہماری رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ حالات میں اگر چھتیس گڑھ اور بہار میں کوئی نئی آر ٹی آئی داخل کی جائے تو اس کی سماعت میں چار سے پانچ سال لگیں گے۔ …اگر اطلاع اتنی تاخیر سے موصول ہوگی تو اس کا کیا مطلب رہ جائےگا؟ لوگ معلومات مانگتے ہیں کرپشن کو اجاگر کرنے کے لیے ، اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے، ایسے میں اگر ہمیں معلومات حاصل کرنے کے لیے پانچ پانچ سال تک انتظار کرنا پڑے تو اس معلومات کی کیا اہمیت رہ جائے گی۔’
انجلی مزید بتاتی ہیں، ‘یہ مسئلہ (بیک لاگ) اس لیے ہے کہ حکومتیں وقت پر انفارمیشن کمشنر کی تقرری نہیں کر رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے بار بار کہنےکے باوجود تقرریاں وقت پرنہیں کی جا رہی ہیں ۔’
قابل ذکر ہے کہ فروری 2019 میں انفارمیشن کمشنروں کی عدم تقرری سے متعلق ایک پی آئی ایل پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے جلد از جلد خالی عہدوں کو پُر کرنے کو کہا تھا۔
ظاہر ہےآر ٹی آئی ایکٹ کے صحیح نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے مناسب تعداد میں انفارمیشن کمشنروں کا ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی انفارمیشن کمشنر نہیں ہے تو درخواست گزار کو جانکاری کیسے حاصل ہو گی ؟
انفارمیشن کمشنروں کے خالی عہدے
ایس این ایس کی رپورٹ بتاتی ہے کہ یکم جولائی ، 2023 سے 30 جون ، 2024 کے درمیان 7 انفارمیشن کمیشن ( جھارکھنڈ ، تلنگانہ ، گوا ، تریپورہ ، مدھیہ پردیش ، اتر پردیش اور چھتیس گڑھ ) الگ الگ مدت کے لیے غیر فعال رہے کیوں کہ موجودہ کمشنروں کے عہدہ چھوڑنے کے بعد نئے کمشنر کی تقرری نہیں کی گئی۔ان میں سے4 کمیشن (جھارکھنڈ ، تلنگانہ ، گوا اور تریپورہ ) اب بھی غیر فعال ہیں۔ 5 کمیشن (چھتیس گڑھ ، مہاراشٹر ، کرناٹک ، اتراکھنڈ اور اڑیسہ) میں چیف انفارمیشن کمشنر کے عہدےخالی ہیں ۔
انجلی نے بتایا ،’مہاراشٹرا میں ایک لاکھ سے زیادہ معاملے زیر التوا ہیں اور وہاں چیف انفارمیشن کمشنر کا عہدہ ہی خالی ہے ۔ اس صورتحال میں زیر التوا معاملوں کی تعداد میں تو اضافہ ہوتا ہی رہے گا ۔ … یہاں تک کہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں بھی 11 میں سے صرف تین کمشنر ہیں ۔ آٹھ کمشنر کی تقرری نہیں کی گئی ہے جبکہ 23 ہزار معاملے زیر التوا ہیں ۔ ‘
آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت ، انفارمیشن کمیشن میں ایک چیف انفارمیشن کمشنر اور زیادہ سے زیادہ 10 انفارمیشن کمشنر ہوتے ہیں ۔ سینٹرل انفارمیشن کمیشن کے سربراہ اور کمشنروں کے لیے سلیکشن کمیٹی میں وزیر اعظم (چیئرمین)، لوک سبھا میں اپوزیشن کے رہنما اور مرکزی کابینہ کے ایک وزیر شامل ہوتے ہیں، جبکہ ریاستی انفارمیشن کمیشن کے سربراہ اور کمشنروں کے لیے سلیکشن پینل میں وزیر اعلیٰ (چیئرمین)، اسمبلی حزب اختلاف کے رہنما اور کابینہ کے ایک وزیر شامل ہوتے ہیں۔
‘سرکاروں کی کوشش ہے کہ لوگوں کو جانکاری نہ ملے’
رپورٹ کادعویٰ ہے کہ کئی کمیشن بغیرکوئی فیصلہ کیےبڑی تعداد میں درخواستیں واپس کر رہے ہیں۔ جولائی 2023 اور 30 جون 2024 کے درمیان، سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے موصول ہونے والی کل اپیلوں / شکایتوں میں سے 42فیصد کو واپس کر دیا تھا ۔
آر ٹی آئی کے ذریعے معلومات حاصل کرنا کتنا مشکل ہو گیا ہے، اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ دی ہندو کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چند ماہ قبل مہاراشٹر کے رہائشی اجئے بوس نے آر ٹی آئی دائرکرتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون ، 2019 (سی اے اے ) کے تحت شہریت کے لیے درخواست دینے والوں کی جانکاری مانگی تھی۔
پندرہ (15) اپریل کو بوس کے آر ٹی آئی کے جواب میں مرکزی وزارت داخلہ نے لکھا ، ‘ سی اے کے قوانین کے تحت شہریت کے لیے درخواستوں کا ریکارڈ رکھنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے ۔ مزید یہ کہ آر ٹی آئی ایکٹ -2005 کے مطابق ، سینٹرل پبلک انفارمیشن آفیسر کو جانکاری تیار کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا ہے ۔’
انجلی کہتی ہیں، ‘حکومتیں مختلف طریقوں سے لوگوں کو معلومات حاصل کرنے سے روکنے کی کوشش کررہی ہیں کیونکہ جب معلومات سامنے آتی ہیں تو حکومتوں پر کئی طرح کے سوال اٹھتے ہیں ۔ حکومتوں کے لیے یہ خوشگوار نہیں ہوتا۔ ایسے میں لوگوں کے پاس ایک ہی آپشن رہ جاتا ہے کہ وہ انفارمیشن کمیشن کے پاس جائیں اور معلومات طلب کریں۔ اپیل کریں اور شکایت کریں۔ انفارمیشن کمیشن بہت ضروری ہے۔ انفارمیشن کمیشن کا کام یہ ہے کہ اگر حکومت غلط طریقے سے یا بہانہ بناکرمعلومات نہیں دے رہی ہے تو انفارمیشن کمشنروں کو اختیار ہے کہ وہ حکومت کو معلومات مہیا کرانے کی ہدایات دیں۔ جب انفارمیشن کمیشن ٹھیک سے کام نہیں کرے گا، تب لوگوں کو معلومات حاصل نہیں ہو گی۔ خاص طور پر ایسی معلومات دستیاب نہیں ہوں گی جو حکومت دینا نہیں چاہتی۔ حکومت سے معلومات فراہم کرنا انفارمیشن کمشنر کا کام ہے۔ ‘
انجلی بھاردواج سے بات چیت میں ، یہ نکتہ ابھرکر سامنے آتا ہے کہ رائٹ ٹو انفارمیشن کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ انفارمیشن کمشنر ڈھنگ سے سے کام کریں اور ان لوگوں پر جرمانہ عائد کیا جائے جو معلومات نہیں دے رہے ہیں۔
آر ٹی آئی قانون کی خلاف ورزی پر پبلک انفارمیشن آفیسر (پی آئی او) پر 25000 روپے تک کا جرمانہ لگایا جا سکتا ہے ۔ جرمانہ عائد کرنے کا اختیار انفارمیشن کمشنر کے پاس ہوتا ہے۔ سزا سے متعلق یہ شق قانون کو مضبوط کرنے اور پی آئی اوز کو قانون کی خلاف ورزی سے روکنے کے لیے ہے۔
سترک ناگرک سنگٹھن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے ، ‘انفارمیشن کمیشن کی جانب سے عائد جرمانے کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ کمیشنوں نے 95 فیصد معاملوں میں جرمانے عائد نہیں کیے جہاں ممکنہ طور پر جرمانہ عائد کیے جا سکتے تھے۔ ‘
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 25 کے تحت ہر کمیشن کو ایکٹ کے نفاذ پر سالانہ رپورٹ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ 29 میں سے 18 کمیشن (62 فیصد) نے 2022-23 کی سالانہ رپورٹ شائع نہیں کی ہے ۔
Categories: فکر و نظر