پڈوچیری کی غیر رسمی اُر (گرام) پنچایتیں ماہی گیروں کے کاروبار سے لے کر شادی اور دوسرے تنازعات تک کے معاملے طے کرنے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ حالانکہ ان پنچایتوں میں عورتوں کی نمائندگی نہیں رہی ہے اور نہ ہی ان کی بات سنی جاتی رہی ہے۔ لیکن اب سست گام ہی سہی، تبدیلی کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
(پلتزر سینٹر اور روہنی نیلے کنی پھلانتھراپیز کے تعاون سے تیار کی گئی یہ رپورٹ ہندوستان کی ماہی گیر خواتین کے حوالے سے کی جارہی ایک سیریز کا حصہ ہے۔ سیریز کا پہلا حصہ یہاں پڑھ سکتے ہیں ۔)
پندرہ سالہ کویتا*تھوڑی بے دھیان لگ رہی ہے۔ اس کے پیچھے برآمدے میں ایک بچی بار بار رو رہی ہے۔ وہ مسلسل نظریں چُراکر اسی سمت دیکھتی رہتی ہے۔ پھر اچانک کھڑی ہو جاتی ہے اور معذرت کے ساتھ کہتی ہے، ‘مجھے اسے دودھ پلانا ہے۔’
وہ واپس آتی ہے اور اپنی چار ماہ کی بیٹی کے بارے میں بتاتی ہے – اس کی پیدائش کا قصہ اور کس طرح اس کی وجہ سے اس کی زندگی بدل گئی۔ زمین کو ایک ٹک گھورتےہوئے وہ سسکیوں کے درمیان ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اپنی بیتی سناتی ہے۔
کویتا پڈوچیری کے کرائیکل ضلع میں ماہی گیروں کے گاؤں سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک رشتہ دار کی شادی میں اس کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی، جو ماہی گیروں کے دوسرے گاؤں سے تھا۔ بعد میں، وہ اس سے اپنے گاؤں کے قریب سمندر کے کنارے پر کئی بار ملی۔ ایک دن اسکول میں اس نے پیٹ میں درد کی شکایت کی اور اسے اسپتال لے جایا گیا، جہاں پتہ چلا کہ وہ حاملہ ہے۔
‘چائلڈ میرج کو ذہن میں رکھتے ہوئے پنچایت نے فیصلہ کیا کہ جب کویتا 18 سال کی ہو جائے،’تب شادی کی رسم ادا کی جائے’، ویداولی کہتی ہیں، جو گاؤں میں خواتین کی یونین لیڈر ہیں۔
کویتا جس ماہی گیر برادری سے تعلق رکھتی ہیں، وہاں پنچایت آپ کے لیے ایسے فیصلے لیتی ہے۔
کرائیکل گاؤں کی اُر (گرام) پنچایت نے پہلے بھی ایسی شادیوں کے احکامات جاری کیے ہیں۔ ان میں سے کچھ کامیاب نہیں ہوئیں جیسا کہ داوا چیلووی کے معاملے میں ہوا۔
◊
سال 2002 میں 15 سالہ داوا چیلووی اپنے پڑوسی گاؤں کے ایک 30 سالہ شخص کے ساتھ شادی کے لیے گھر سےخاموشی سے نکل گئی تھی۔ 10 دنوں میں وہ گھر واپس آگئی کیونکہ ویزاگ (وشاکھاپٹنم) میں اس کے ساتھ رہتے ہوئے اس کو اس شخص کا برتاؤ پسند نہیں آیا۔ چیلووی کہتی ہیں،’جب اس کے گاؤں کے لوگ ان سے ملنے آئے، تو اس نے مجھے ایک دوست کے گھر چھپا دیا۔’
چیلووی کے گھر واپس آنے تک لڑکے کے گاؤں کی پنچایت چیلووی کی پنچایت سے مل چکی تھی۔ چیلووی اور اس کی ماں دونوں پنچایتوں کی ایک مشترکہ بیٹھک کے سامنے پیش ہوئیں۔ جب پنچایت نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ اس شخص کو جانتی ہے تو چیلووی نے انہیں بتایا کہ وہ اس کے ساتھ گھر چھوڑ کر گئی تھی اور اواپس آنے تک اس کے ساتھ ہی رہ رہی تھی۔ لیکن لڑکے نے کہا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ پنچایت نے اپنے بیان کی سچائی ثابت کرنے کی ذمہ داری 15 سالہ چیلووی پر ڈال دی۔
چیلووی کہتی ہیں، ‘میں ویزاگ میں زیادہ تر اکیلی تھی اور کمرے کی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر توجہ دینے کے علاوہ میرے پاس اور کوئی کام نہیں تھا۔ میں نے کیلنڈر پر اس کے (لڑکے کی) سالگرہ کی تاریخ پرنشان لگایا تھا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن یہ ثبوت میں بدل جائے گا۔’
دونوں پنچایتوں کے دس لوگ چیلووی اور اس شخص کے ساتھ ویزاگ گئے۔ چیلووی نے اس گھر کا راستہ ڈھونڈ لیا، جہاں وہ ٹھہری تھی۔ کمرہ بالکل بدل گیا تھا – سالگرہ کا کیلنڈر غائب تھا، اور دیوار کے ساتھ لگے بڑے ڈرم بھی غائب تھے۔ تاہم پڑوسیوں نے پنچایت کےممبران کو بتایا کہ چیلووی اس آدمی کے ساتھ وہاں ٹھہری تھی اور اس آدمی نے کچھ دن پہلے چیزوں منتقل کیاہے۔ پنچایت نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ چیلووی اس شخص کے دوست کے گھر ٹھہری تھی۔
کرائیکل واپس آنے پر پنچایت نے چیلووی کی شادی اس آدمی سےکروا دی۔ ‘میں نے اپنے شوہر کی بات ماننے کا فیصلہ کیا تھا اور جو کچھ وہ پسند کرتے ہیں وہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔’ چیلووی کہتی ہیں۔ایک بار اس نے مجھ سے نیند کی 15 گولیاں کھانے کو کہا تو میں نے کھا لی۔ اس نے مجھ سے اسقاط حمل کروانے کو کہا، میں نے وہ بھی کیا۔’
چیلووی پھر حاملہ ہو گئی اور اس کے شوہر نے اسے دوبارہ اسقاط حمل کروانے کو کہا۔ اس بار چیلووی نے انکار کر دیا۔ ‘اس دن میں نے اپنی تھالی (منگل سوتر جسے تمل عورتیں شادی کی نشانی کے طور پر پہنتی ہیں) اتار دی اور اس کے گھر سے نکل گئی،’ چیلووی کہتی ہیں۔
پنچایت کی طرف سے طے کی گئی شادی کو ابھی دو سال ہی ہوئے تھے۔ اب چیلووی اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگی۔ اس نے ایک بیٹی کو جنم دیا اور گھر میں سلائی کے کام سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اکیلے ہی اس کی پرورش کی۔ اس نے ابھی تک اپنے شوہر سے باضابطہ طور پر طلاق نہیں لی ہے۔ اس کے باوجود اس شخص نے دوسری شادی کر لی ہے اور وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ قریبی گاؤں میں رہتا ہے۔
چیلووی کا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور وہ اپنی بیٹی کو، جو اب 17 سال کی ہے، محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔
چیلووی کہتی ہیں،’جب میری بیٹی چھوٹی تھی، میں نے اسے بتایا تھاکہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا ہے۔ لیکن جب وہ بڑی ہوگئی تو میں نے اسے سچ بتا دیا۔ حال ہی میں اس نے اپنے والد کو کہیں دیکھا۔ اب وہ اپنے حقوق کی بات کرتی ہے کہ اس کے والد کو اس کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔’
ان کی علیحدگی کے بعد پنچایت نے اس آدمی کے اہل خانہ کو شادی اور دیگر سماجی کاموں کی اجازت دینا بند کر دی۔ اس سے پریشان ہو کر 2013 میں خاندان نے پنچایت کے ذریعے چیلووی سے رابطہ کیا۔ ‘انہوں نے مجھے 25000 روپے کی پیشکش کی اور وعدہ کیا کہ جب میری بیٹی کی شادی ہوگی تو مجھے پانچ سونے کے زیورات دیں گے۔ نو سال تک میں نے کڑی محنت کی اور اپنی بیٹی کو اکیلے پالا۔ پھرتذبذب کے ساتھ میں نے اپنی بیٹی کی خاطر اس پیشکش پر دستخط کر دیے،‘ چیلووی کہتی ہیں۔
ویسے بھی چیلووی ابھی اپنی بیٹی کی شادی پر توجہ نہیں دے رہی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد اس کی بیٹی کا خواب ہے، جو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننا چاہتی ہے۔
اس کے خواب کے بارے میں پوچھنے پر چیلووی نے کچھ دیر سوچا، پھر کہا، ‘اگر پنچایت مجھے اس شخص سے شادی کرنے کو نہ کہتی جس کے ساتھ میں بھاگی تھی تو میری زندگی بہتر ہوتی۔ میری عمر صرف 15 سال تھی اور مجھے لگ رہا تھاکہ میں نے گھر سے بھاگ کر کوئی سنگین جرم کر دیا تھا۔ لیکن، اب مجھے لگتا ہے کہ میں اپنی نوعمری کی چھوٹی موٹی غلطیوں سے نکل سکتی تھی۔ اگر اس کچی عمر میں غلط آدمی سے شادی نہ ہوئی ہوتی تو میرے پاس زندگی جینے کا ایک موقع ہوتا۔’
پنچایت نے غلط فیصلہ کیا، وہ کہتی ہیں۔ ‘اگر مجھے پنچایت میں اس طرح کے معاملے سے نمٹنا پڑے تو میں کبھی اس چھوٹی سی لڑکی کی شادی نہ کرواؤں۔ میں پڑھائی کے لیے اس کی حوصلہ افزائی کرتی۔’
◊
پڈوچیری کے کرائیکل ضلع کے ساحلی دیہاتوں میں اُر پنچایتیں بہت طاقتور ہیں۔ حالاں کہ ان ذات پنچایتوں کو قانونی منظوری نہیں ہے، لیکن ان کا سماجی دبدبہ قائم ہے۔
وہ ماہی گیروں کے دیہاتوں کے رہائشیوں کی اقتصادی اور سماجی زندگی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اُر پنچایتیں ماہی گیری کے حقوق کا تعین کرتی ہیں- وہ مچھلی پکڑنے کے علاقے مختص کرتی ہیں، مچھلی کی تجارت (فروخت) کو کنٹرول کرتی ہیں اور مانسون میں ماہی گیری پر پابندیاں عائد کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ وہ خاندانی معاملات میں بھی کافی داخلت کرتے ہیں۔ ہر قسم کے ازدواجی تعلقات کے لیے ان کی منظوری ضروری ہے۔ وہ گھریلو تشدد اور ازدواجی اختلافات میں بھی ثالثی کرتے ہیں۔ تمام قسم کے جھگڑے ان پنچایتوں سے طے ہوتے تھے اور سنگین جرائم کے معاملے میں بھی رہائشیوں نے کبھی پولیس یا عدالت سے رجوع نہیں کیا تھا، اب کچھ لوگوں نے قانونی راستہ اپنانا شروع کر دیا ہے،لیکن اس کے لیے بھی انہیں پنچایت سے اجازت لینی پڑتی ہے۔
ایک اختیار جسے پنچایت اکثر استعمال کرتی ہے اور جس سے باشندے بہت ڈرتے ہیں وہ ہے سماجی (ذات) بائیکاٹ کا فرمان۔
اس طرح یہ غیر رسمی پنچایتیں ہر رہائشی کی زندگی کے تمام شعبوں کو کنٹرول کرتی ہیں، لیکن ان میں خواتین کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ پڈوچیری کے 51 گاؤں میں ایک بھی خاتون پنچایت ممبر نہیں ہے۔ تاریخی طور پر، پنچایتوں نے خواتین کو اپنی بیٹھکوں میں شامل ہونے یا یہاں تک کہ ایک عرضی بھی پیش کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ خواتین پنچایت میں نمائندگی کے لیے مرد رشتہ داروں پر انحصار کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں ناانصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خصوصی طور پر گھریلو تشدد اور جہیز کے معاملات کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے۔
◊
سن 1990 میں، کِلنجلمیڈو اور ایک پڑوسی گاؤں کی پنچایتوں نے مل کر مالنی کی شادی طے کر دی، جب وہ صرف 13 سال کی تھیں۔
‘میرے شوہر ہر روز میرے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے۔ ایک بار اس نے میرے پیٹ میں سنکی (ایک نوکیلے سرے والا دھار دار ہتھیار) سے وار کیا۔ میں مر سکتی تھی،’ مالنی کہتی ہیں۔
مالنی نے اپنے سسرال کی پنچایت کِلنجلمیڈو سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے اس کی شکایت کو نظر انداز کر دیا۔ بدسلوکی اس وقت تک نہیں رکی جب تک کہ اس کا شوہر اسے چھوڑ کر کیرالہ نہیں چلا گیا، جہاں اب اس کا ایک دوسرا خاندان ہے۔ اس کی دوسری شادی کے بعد پنچایت نے اسے سماج سے بے دخل کردیا۔
مالنی نے بڑی مشکل سے اپنے چاروں بیٹوں کی پرورش کی۔ وہ کہتی ہیں، ‘اکثر میرے بچے اپنا مڈ ڈے مل گھر لے آتےاور ہم بانٹ کر کھاتے۔ یہی ہماری واحدخوراک ہوتی تھی۔ ‘
سال 2004 کی سونامی کے بعد جب حکومت نے متاثرین کو گھر الاٹ کیے تو وہ گھر ان کے شوہر کو مل گیا۔ وہ سال میں ایک یا دو دن کے لیے گاؤں آتا ہے اور اسی گھر میں رہتا ہے۔ مالنی کہتی ہیں،’میں اور میرے چار بیٹے جو یہاں مستقل طور پر رہتے ہیں، ان کے پاس گھر نہیں ہے۔’
گھروں کا الاٹمنٹ اور تمام سرکاری مراعات کی تقسیم پنچایت کی مشاورت سے کی گئی تھی۔ جب اس کا شوہر گاؤں آتا ہے تو سب اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں۔’یہ کیسا بائیکاٹ ہے؟ ‘ مالنی سوال کرتی ہیں۔’مجھے اب پنچایت پر کوئی بھروسہ نہیں رہا۔’
مالنی کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ کچھ بھی ہو جائے، وہ پنچایت میں اپیل نہیں کریں گی۔ ‘وہ میری بات نہیں سنتے کیونکہ میں غریب ہوں اور اس پر بھی ایک عورت ۔ پنچایت میں عورتیں نہیں ہیں اور مرد عورتوں کے درد کو نہیں سمجھتے۔’
◊
پچھلی چار دہائیوں میں کرائیکل کی خواتین نے پنچایت کے ساتھ بات چیت کے لیے خود کو منظم کیا ہے۔ انہوں نے اس پیچیدہ سماجی نظام سے نمٹنے کا فن سیکھ لیا ہے۔ گنے چنے معاملات میں ہی وہ کھلم کھلا پنچایت سے ٹکراتی ہیں، لیکن زیادہ تر وقت وہ تدبر اور گفت و شنید سے کام لیتی ہے۔
اُر پنچایت میں نمائندگی خواتین کے لیے اب بھی دور کا خواب ہے۔ لیکن،مرضی کے خلاف ہی سہی، انہیں بیٹھکوں میں شرکت کرنے اور عرضیاں پیش کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ خواتین اب بھی فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ نہیں ہیں۔ لیکن خواتین کے رضاکار گروپوں اور کوآپریٹو سوسائٹیوں نے ان کی سماجی حیثیت اور آواز کو مضبوط کیا ہے۔ اس سے بااختیار ہو کر کچھ خواتین اب پنچایت ممبر بننے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔
◊
کرائیکلمیڈو کی خواتین فیڈریشن کی لیڈر اندرانی کہتی ہیں،’شروع میں جب ہم نے بیٹھکوں میں حصہ لینا شروع کیا، تو ہم ہاتھ جوڑ ے کھڑے رہتے تھے، کوئی ہمیں کرسی نہیں دیتا تھا۔ لیکن اب میں اس کا انتظار نہیں کرتی۔ میں کمرے میں داخل ہوتی ہوں اور اپنے لیے کرسی کھینچ کر بیٹھ جاتی ہوں۔’
کرائیکلمیڈو کی کوکیلا کہتی ہیں،’ خواتین کے لیے ایک بڑی جیت ہوئی تھی جب ہم نے کاروبار کرنے کا حق حاصل کیا۔ بڑے تاجر اور مرد ایجنٹ ساری مچھلیاں خرید لیتے تھے اور قلیل سرمایہ والی ماہی گیر خواتین ان کے سامنے ٹک نہیں پا رہی تھیں۔ اس کے بعد 400 خواتین دکانداروں نے ایک ساتھ ہڑتال کی۔ مجبور ہو کرپنچایت کوروایتی ماہی گیروں سے مچھلی خریدنے کا پہلا حق خواتین کو دینا پڑا۔ پنچایت نے گاؤں میں اس کا اعلان کیا۔’
اگرچہ کچھ جگہوں پر اس پر ڈھنگ سے عمل نہیں کیا جا رہا ہے، لیکن کئی گاؤں میں یہ نظام چل رہا ہے۔ تمام خواتین مچھلی فروش اپنے وسائل جمع کرتی ہیں اور خریداری اور نقل و حمل کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے ایک ساتھ بولی لگاتی ہیں۔ اب ان کا مطالبہ ہے کہ مقامی مچھلی منڈیوں کو لیز پر خواتین کی کوآپریٹو سوسائٹیوں کے حوالے کیا جائے۔
◊
سماجی تبدیلی کی رفتار اب بھی سست گام ہے۔
پندرہ سالہ کویتا* ایک ایسے شخص سے شادی کرنے والی ہے جس نے یہ ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ اس کے بچے کا باپ ہے۔ وہ لڑکا کویتا کے دعووں کی تردید کرتا رہا اور اسے جھوٹا کہتا رہا۔ چیلووی کیس کی طرح اس بار بھی پنچایت نے ثبوت کا بوجھ کویتا پر ڈال دیا تھا، جب وہ صرف 14 سال کی تھی۔
کویتا کہتی ہیں،’میں نے پنچایت میں کہا کہ میں اپنی بیٹی کا ڈی این اے ٹیسٹ کرواؤں گی۔ تب کہیں جاکر لڑکے نے ہار مان لی اور باپ ہونے کی بات قبول کی۔ لیکن وہ اب تک لڑکی کے اخراجات کے لیے 4000 روپے ماہانہ دینے کی پنچایت کی ہدایات پر عمل نہیں کر رہا ہے۔
وہ تو اپنی بیٹی سے ملنے بھی صرف ایک بار آیا ہے، کویتا کہتی ہیں۔’وہ لڑکی کو 500 روپے دے کر چلا گیا، تب سے وہ واپس نہیں آیا۔’
*(تبدیل شدہ نام)
(انگریزی میں ملٹی میڈیا رپورٹ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔) (ہندوستان کی ماہی گیر خواتین پر پانچ حصوں پر مشتمل ملٹی میڈیا سیریز دیکھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)
(اس سیریز کے تمام مضامین اُردو میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
Categories: حقوق انسانی, گراؤنڈ رپورٹ