ممبئی کے دھاراوی میں مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے بارے میں معلومات اور شفافیت کے فقدان کے باعث حکمراں اور اپوزیشن، دونوں ان کا استحصال کر رہے ہیں۔
ممبئی: پچھلے ہفتے پانچ لوگوں کی ایک ٹیم نے دھاراوی میں 90 فٹ روڈ پر سندر کی تین پیڑھی پرانی دکان کا دورہ کیا۔ اڈانی ریئلٹی کے ملازم ہونے کا دعویٰ کرنے والے یہ لوگ سندر کی 340 مربع فٹ کپڑوں کی دکان کی پیمائش کرنے گئے تھے۔ کیمرے، پیمائشی ٹیپ اور چھوٹی ڈائریوں سے لیس۔ انہوں دکان کے ہر کونے کو ریکارڈ کیا۔سندر سے دکان کی پیمائش کی تصدیق کرنے کو کہا گیا، اور جواب دیتے ہوئے انہیں کیمرے پر ریکارڈ کیا گیا۔
تشویش میں مبتلا سندر بولتے رہے کہ گراؤنڈ فلور کے بالکل اوپر کا ایکسٹینشن ان کی دکان کا حصہ ہے، اس کی پیمائش بھی کرلی جائے۔ لیکن ان لوگوں نے صاف انکار کر دیا۔ انہوں نے سندر کو بتایا کہ ہمیں مرکزی ڈھانچے کے علاوہ بنائی گئی جگہ کی پیمائش کی ہدایت نہیں دی گئی ہے۔ تاہم، مرکزی ڈھانچے کے اوپر بنے یہ ایکسٹینشن والے علاقے کی دکانیں اور مکانات جتنی ہی پرانی ہیں اور یہ دھاراوی اور اس کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں۔
سن 1940 کی دہائی میں ممبئی کے جنوبی وسطی علاقے میں مہاجرین بڑی تعداد میں آ رہے تھے۔ جھونپڑیوں کو خطرناک حد تک ایک دوسرے کے قریب بنایا گیا تھا۔ جگہ کی کمی کے باعث لوگوں نے بالائی منزلوں کو ڈھال بنا کر اپنے گھروں کو وسیع کر لیا، جس کی وجہ سے جھونپڑیاں کثیر المنزلہ بن گئیں۔ یہ کثیر المنزلہ تعمیرات آج دھاراوی میں جاری ری دیولپمنٹ پروجیکٹ کا ایک متنازعہ حصہ ہیں، جہاں زیادہ تر لوگ اپنے گھر کے ایک اہم حصہ سے محروم ہوجانے کے خوف میں زندگی بسرکررہے ہیں۔
نئے پروجیکٹ کے تحت ری ڈیولپمنٹ کے بعدلوگ 350 مربع فٹ جگہ کے حقدار ہوں گے۔ مقامی لوگوں کو خدشہ ہے کہ وہ اپنی موجودہ عمارتوں کا نصف سے زیادہ حصہ کھو دیں گے۔
لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں اس منصوبے کے بارے میں مطلع نہیں کیا گیا ہے اور شفافیت کے فقدان اور افواہوں کی وجہ سے وہاں کے لوگ حکمران اور اپوزیشن، دونوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہو رہے ہیں ۔
سال 2022 میں گوتم اڈانی کی اڈانی ریئلٹی نے 259 ہیکٹر کے دھاروی کلسٹر ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے لیے 20000 کروڑ روپے کا ٹینڈرحاصل کیا تھا۔ نئے منصوبے کے تحت ایشیا کی سب سے بڑی جھگی بستی کو ‘ماڈرن اربن انکلیو’ میں تبدیل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ یہ علاقہ شہر کے مرکز میں واقع ہے اور اپ مارکیٹ اور شہر کے مرکز کے مغربی مضافاتی علاقوں کو جوڑتا ہے۔
اُسی سال ستمبر میں اڈانی ریئلٹی نے ریاستی حکومت کی دھاراوی ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ اتھارٹی کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے دھاراوی ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ پرائیویٹ لمیٹڈ (ڈی آر پی پی ایل ) نام کے ایک اسپیشل پرپز وہیکل (ایس پی وی ) قائم کی، ایک ایسی اکائی جو دہائیوں سے زیادہ وقت سے خصوصی طور پردھاراوی پروجیکٹ کے لیے ریاست کے سلم ری ہیبلیٹیشن اتھارٹی (ایس آر اے ) کے تحت موجود تھی۔
ڈی آر پی پی ایل کی 80فیصد حصہ داری اڈانی ریئلٹی کے پاس ہے، جس کی وجہ سے ریاستی مداخلت بہت کم ہے، اور علاقے کی دوبارہ ترقی کے لیےاڈانی ریئلٹی تقریباً واحد اکائی بن گئی ہے۔
اس فیصلے کے ساتھ ہی ایشیا کی سب سے بڑی جھگی بستی کاری ڈیولپمنٹ کا دو دہائیوں پرانا منصوبہ جو کئی مواقع پر ناکام ہو چکا تھا، ایک بار پھر سے زندہ ہو گیا ہے۔ اس پروجیکٹ میں اڈانی کے داخلے کو جلد ہی سیاسی اہمیت حاصل ہوگئی اور اب یہ نہ صرف دھاراوی بلکہ پوری ریاست میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اہم انتخابی مسائل میں سے ایک بن گیا ہے۔ اپوزیشن پارٹی کے لیڈر مہاراشٹر بھر میں اپنی انتخابی مہم میں دھاراوی اور اڈانی کا ذکر کر رہے ہیں۔
سندر کے دادا جنوبی تمل ناڈو کے ضلع ترونیل ویلی کے ہزاروں دوسرے لوگوں کی طرح 60 کی دہائی کےاواخر میں دھاراوی آئے تھے۔ سندر کہتے ہیں،’یہ جگہ ایک دلدل تھا۔ میرے دادا اور میرے والد نے مٹی بھرکر اس جگہ کو برابر کیا تھا۔ آج آپ جو یہ رہنے لائق جگہ دیکھ رہےہیں ، اس کو بنانے میں کئی دہائیوں کی محنت شامل ہے۔’
سندر کہتے ہیں،’لیکن آج دھاراوی میں جن لوگوں نے کمیونٹی بنائی،وہ ‘قانونی یا غیر قانونی’ اور ‘اہل یا نااہل’ میں تقسیم ہو چکے ہیں۔
نئے پروجیکٹ کے تحت سال 2000 سے پہلے کے ڈھانچے ری ڈیولپمنٹ کے لائق ہیں، اور باقی کو نااہل قرار دیا گیا ہے۔
سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق، 6.5 لاکھ سے زیادہ لوگ دھاراوی کے گنجان علاقوں میں رہتے ہیں۔ حکام اور مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں یہ تعداد کم از کم دوگنی ہو گئی ہے، جس سے تعمیر نو کے کام کو مزید مشکلات کا سامنا ہے۔ جو لوگ 2000 کے بعد یہاں آئے ، ان کے لیے ڈی آر پی پی ایل کے پاس کرائے کی اسکیمیں ہیں۔
دھاراوی میں بڑے پیمانے پر مہاراشٹر کے باقی حصوں اور ریاست سے باہر کے مہاجررہتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مختلف ریاستوں کے دلت اور او بی سی برادریوں سے ہے۔ اس علاقے میں مسلمانوں کی بھی بڑی آبادی ہے۔ تاہم یہاں کے لوگوں کا پیشہ آج بھی ذات پات کی بنیاد پر تقسیم ہے۔ اس علاقے میں مختلف برادریوں کے زیادہ تر لوگ ہم آہنگی سے رہتے آ رہے ہیں۔
چمڑے کے کارخانے، کمہار، کیٹرنگ کے کاروبار، کڑھائی کے یونٹ اور ری سائیکلنگ کے کاروبار دھاراوی کی مختلف گلیوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ لوگ اپنے کاروبار 200 مربع فٹ سے بھی کم کے چھوٹے کمروں سے چلاتے ہیں، جو اکثر ان کے گھر بھی ہوتے ہیں۔
یہاں کے تمام کاروبار قانونی دائرے میں نہیں آتے۔ جیسےکہ سندرن کا لاٹری کا کاروبار اور 90 فٹ روڈ پر ایک گلی میں چھپی ہوئی جوئے کی سلاٹ مشینیں۔ ایک گندے اور سادہ کمرے سے چلنے والے کاروبار علاقے کے بہت سے خاندانوں کی روزی روٹی کو یقینی بناتے ہیں۔ ری ڈیولپمنٹ کا منصوبہ نہ صرف سندرن کا کاروبار بند کر دے گا، بلکہ وہاں کام کرنے والے بہت سے لوگوں کو بھی بے روزگار کر دے گا۔
دھاراوی میں ہر کوئی اڈانی کے حصول کے خلاف نہیں ہے۔ تاہم، ان کے خدشات زیادہ تر ایک جیسے ہیں۔ مثال کے طور پر، 90 فٹ روڈ پر کمہرواڑہ یا کمہاروں کی کالونی، جہاں بنیادی طور پر گجرات کے کاٹھیاواڑ کی روایتی کمہار برادری کے لوگ رہتے ہیں۔
کمہرواڑہ کے مکانات اپنے تعمیر کے طریقے کی وجہ سے علاقے کے باقی گھروں سے مختلف نظر آتے ہیں۔ مکانات کی کی ساخت ایک لمبی ماچس کی طرح ہے، جس میں سڑک کے سامنے مٹی کے برتنوں کی دکان ہوتی ہے اور آخر میں ان کا گھر ہوتاہے۔ ہر گھر کے عقب میں اینٹوں کے عارضی بھٹے ہیں، جو مٹی کے برتنوں کو پکانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
دھاراوی کے اس علاقے کے رہائشی زیادہ تر دلت یا او بی سی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے روایتی ووٹر ہیں۔ تاہم، یہ لوگ واضح طور پر بے گھر ہونے اور روزی روٹی کھونے کے خوف کا اظہار کرتے ہیں۔
جانو بائی پرمار نامی ایک 90 سالہ خاتون گجرات کے اونا سے آئی تھیں اور بچپن میں یہاں آکر آباد ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں، ‘میری شادی یہیں ہوئی تھی، میرے چار بیٹے ہیں اور آج ان سب کے پوتے پوتیاں ہیں۔’
پرمار کا خاندان اس علاقے کے بہت سے مشترکہ خاندانوں میں سے ایک ہے۔ وہ کہتی ہیں،’بیٹا اور ان کا خاندان پہلی منزل پر رہتے ہیں۔ میں اور میرے شوہر نیچے ہیں، جہاں ایک دکان بھی ہے۔’
ری ڈیولپمنٹ کا منصوبہ خاندان کے بیشتر افراد کو دھاراوی سے باہر متبادل رہائش تلاش کرنے پر مجبور کرے گا۔
پرمار کے خاندان کو یقین نہیں ہے کہ آیا وہ ری ڈیولپمنٹ پلان کے تحت بنائے گئے نئے رینٹل آپشن سے فائدہ اٹھا سکیں گے یا نہیں۔
انتخابی اعلان سے کچھ دن پہلےدھاراوی میں زمین کے بڑے پارسل کے علاوہ، ریاستی حکومت نے ممبئی کے دیگر علاقوں میں اضافی 1080 ایکڑ زمین الاٹ کی تھی۔ حکومت کے مطابق اس زمین کو دھاراوی ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے تحت نااہل قرار دیے گئے لوگوں کے لیے رہائش کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اپوزیشن نے ریاستی حکومت کے اندھا دھند زمین اڈانی کو سونپنے کے فیصلے کو زمین پر قبضہ قرار دیا ہے۔ اس علاقے سے کانگریس کی امیدوار جیوتی گائیکواڈ اس ایشو پر گھر گھر مہم چلا رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے دی وائر کے ساتھ ایک انٹرویو میں گایکواڈ نے کہا کہ مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) علاقے کی ترقی کے خلاف نہیں ہے۔ وہ اڈانی کو شہر میں دستیاب زمین کے تقریباً ہر حصے پر قبضہ کرنے کی اجازت دینے کے ریاست کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں،’کوئی شفافیت نہیں ہے۔ مکینوں کی باز آبادی کیسے ہوگی، انہیں کہاں منتقل کیا جائے گا اور کیا ان کے گھر اور دکانیں ایک ساتھ یا مختلف علاقوں میں واقع ہوں گی؟ کچھ معلوم نہیں۔’
کانگریس مقامی لوگوں کو اپنے گھروں اور دکانوں کا سروے کرنے کی اجازت دینے سے منع کر رہی ہے۔ بہت سے مقامی لوگ، جو بہتر زندگی کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں، کانگریس کے اس موقف سے متفق نہیں ہیں۔ دھاراوی کے رہنے والے سورج کہتے ہیں،’اگر کانگریس کے پاس کوئی متبادل اور بہتر منصوبہ ہے تو انہیں پہلے اسے پبلک کرنا چاہیے۔’
دھاراوی روایتی طور پر کانگریس کی نشست رہی ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر ایکناتھ گائیکواڈ اور ان سے پہلے ان کے والد اس حلقہ سے کئی بار جیت چکے ہیں۔ بعد میں جب ایکناتھ اس علاقے سے ایم پی بنے تو ان کی بڑی بیٹی ورشا گائیکواڈ نے لگاتار چار بار ایم ایل اے کی سیٹ جیتی۔ اب ورشا ممبئی علاقائی کانگریس کمیٹی کی صدر اور ممبئی شمالی وسطی لوک سبھا حلقہ سے رکن پارلیامنٹ ہیں۔
جیوتی گائیکواڈ کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں شیو سینا (ایکناتھ شندے دھڑے) کے امیدوار راجیش کھنڈارے ۔اڈانی کی زیرقیادت تعمیر نو کے منصوبے کے حامی کھنڈارے کو انتخابات میں برتری دلانے کے لیے راج ٹھاکرے کی مہاراشٹر نو نرمان سینا نےیہاں سے کوئی امیدوار کھڑا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بدھسٹ امبیڈکرائٹ ستیش کہتے ہیں،’علاقے کی دوبارہ ترقی کوئی نیا سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ یہاں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ 90 کی دہائی کے اوائل سے یہ مذاکرات ہر چند سال بعد ہوتے تھے لیکن آخر کار ختم ہوجاتے تھے۔ لیکن اس دوران عوام کی روزمرہ کی جدوجہد کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔’
ستیش، اصل میں تمل ناڈو سے ہیں، پریار برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جو درج فہرست ذات کے تحت آتی ہے۔ یہاں کے زیادہ تر مہاجر دلتوں کے پاس کاسٹ سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔
ستیش کہتے ہیں،’یہ ایک محفوظ حلقہ ہے اور ہمارے تمام منتخب ممبران دلت ہیں۔ لیکن انہوں نے یہاں دلتوں کی بقا کے لیے کبھی کسی چیز پر کام نہیں کیا۔ ‘
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)
Categories: الیکشن نامہ, خاص خبر, خبریں, گراؤنڈ رپورٹ