خبریں

مہاتما گاندھی کے آخری ایام: ایک مزار کی زیارت

اٹھارہ جنوری 1948 کو اپنے آخری اپواس کوختم کرنے کے ٹھیک نو دن بعد، یعنی اپنے قتل سے تین دن پہلے، گاندھی دہلی کے مہرولی واقع درگاہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار پر گئے تھے۔ انہوں نے دہلی میں امن وامان اور ہم آہنگی قائم کرنے کے ارادے سے کیے گئے اس دورے کو تیرتھ یاترا کا نام دیا تھا۔ یہ ان کا آخری عوامی دورہ تھا۔

دہلی کے مہرولی میں درگاہ قطب الدین بختیار کاکی کے مقبرے پر گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: ذکرِ دِلّی/البلادالین)

دہلی کے مہرولی میں درگاہ قطب الدین بختیار کاکی کے مقبرے پر گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: ذکرِ دِلّی/البلادالین)

آج جب ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کی سازش رچی جا رہی ہے تو ہمیں بابائے قوم مہاتما گاندھی یاد آ رہے ہیں کہ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو کیا کرتے اور آزاد ہندوستان میں محض ساڑھے پانچ  مہینےزندہ رہنے کےدوران انہوں نے کیا کیااور ہندو مسلمان اتحاداورہم آہنگی کو بنائے رکھنے کے لیے انہوں  نے اپنی جان  تک خطرے میں ڈالی اور ایک ہندو فرقہ پرست کی گولی کا نشانہ بنے۔ آج ہمیں اس پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

قتل سے صرف 3 دن پہلے وہ دہلی کے مہرولی میں درگاہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار پر گئے تھے۔ ان کے اس آخری عوامی دورے اور اس عظیم کارنامے کی وجہ کیا تھی جسے انہوں نے تیرتھ یاترا کا نام دیا تھا؟

اٹھارہ جنوری 1948 کو اپنے آخری اپواس کو ختم کرنے کے ٹھیک  نو دن بعد، دہلی میں امن اور ہم آہنگی کے قیام کے مقصد سے 79 سالہ مہاتما گاندھی نے،جو انتہائی کمزور اور تھکے ہوئے تھے، سخت سردی میں اپنے قتل سے ٹھیک تین دن پہلے، 27 جنوری کو دہلی کے مہرولی میں قطب الدین بختیار کاکی درگاہ کا دورہ کیا تھا۔ ان کے اس دورے کا مقصد تھا کہ وہ ذاتی طور پر موقع پر جاکر  فرقہ وارانہ فسادات کے دوران درگاہ کو ہوئے نقصان کو دیکھ سکیں، جو شدید طور پر فرقہ وارانہ تشدد کی زد میں تھا۔

دہلی میں سخت سردی تھی اور وہ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ہونے والے نقصان کو دیکھنے کے لیے صبح آٹھ بجے سے پہلے وہاں پہنچ گئے۔ انہیں اس بات سے بہت صدمہ پہنچا تھا کہ  مذہب کے نام پر مسلمانوں پر ان کے ہی ملک میں حملہ کیا جا رہا تھا۔ وہ مولانا آزاد اور راجکماری امرت کور کے ہمراہ  وہاں گئے تھے۔ اگرچہ اس وقت وہاں سالانہ عرس چل رہا تھا، اس کے باوجود ماحول کافی غمگین  تھا اور باپو کی طبیعت ناساز تھی کیونکہ وہ حال ہی میں اپواس پر تھے۔

اس مقدس مقام پر حملہ اور توڑ پھوڑ کے بعد بہت سے مقامی مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر چلے گئے تھے۔ درگاہ کے ملازمین بھی جان کے خوف سے درگاہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ بھی محفوظ مقامات پر چلے گئے تھے۔ مہاتما گاندھی درگاہ گئے اور وہاں موجود تمام لوگوں سے امن سے رہنے کی اپیل کی۔ انہوں نے پناہ گزینوں سے تباہ شدہ علاقے کو دوبارہ تعمیر کرنے کو کہا۔

گاندھی جی نے اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے بھی درگاہ کی مرمت کروانے کو کہا کیونکہ فسادات کے دوران درگاہ کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ اس کے علاوہ، گاندھی جی نے نہرو سے نقصان کی تلافی کے لیے 50000 روپے مختص کرنے کو کہا۔ یقیناً ان دنوں یہ بہت بڑی رقم تھی۔

اپنے دورے کے بعد گاندھی جی نے لکھا: ‘اجمیر کی درگاہ کے بعد یہ ملک کی دوسری سب سے باوقار (قطب الدین بختیار کاکی) درگاہ ہے جہاں ہر سال نہ صرف مسلمان بلکہ ہزاروں غیر مسلم بھی زیارت کے لیے آتے ہیں۔’درگاہ سے جانے سے پہلے گاندھی جی نے وہاں موجود لوگوں سے کہا، ‘میں یہاں ایک تیرتھ یاترا پر آیا ہوں۔ میں یہاں آئے مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ صدق دل سے عہد لیں کہ وہ کبھی بھی تنازعہ پیدا نہیں ہونے دیں گے، بلکہ دوستی اور بھائی چارے سے رہیں گے۔ ہمیں اپنے آپ کو پاک کرنا چاہیے اور اپنے مخالفین سے بھی محبت سے ملنا چاہیے۔’

باپو نے یہ بھی کہا؛

‘یہ درگاہ ہجوم کے غصے کا شکار ہو ئی ہے۔ پچھلے 800 سالوں سے آس پاس رہنے والے مسلمانوں کو اسے چھوڑنا پڑا۔ …اگرچہ مسلمان اس درگاہ سے محبت کرتے ہیں، لیکن آج اس کے آس پاس کوئی مسلمان نظر نہیں آتا… یہ ہندوؤں، سکھوں، حکام اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس درگاہ کو دوبارہ کھولیں اور ہم سب پر لگے  اس داغ کو دھو  ڈالیں۔ … اب وقت آگیا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں اپنے اپنے ممالک کی اکثریت کے سامنے واضح طور پر اعلان کریں کہ وہ مذہبی مقامات کی توہین کو برداشت نہیں کریں گے، خواہ وہ چھوٹے ہوں  یا بڑے۔ انہیں فسادات کے دوران تباہ شدہ مقامات کی مرمت کی ذمہ داری بھی اٹھانی چاہیے۔’

(کلیکٹیڈ ورکس آف مہاتماگاندھی، جلد 98، صفحات 98-99، 27 جنوری 1948)

قطب الدین بختیار کاکی کی درگاہ ہر سال موسم سرما کے دوران زندہ ہوجاتی ہے جب یہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا جشن منانے والا دہلی کا سالانہ تہوار ‘پھول والوں کی سیر’ منعقد ہوتا ہے۔ یہ واقعی گاندھی جی کو خراج عقیدت ہے، جنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کو سیکولر اقدار پر ہی زندہ رہنا چاہیے۔

ہندو مسلم اتحاد اور مشترکہ وراثت کی علامت کے جس ہفت روزہ تہوار کوبرطانوی حکومت  کے دوران  1862 میں بند کر دیا گیا تھا، اس کو آزادی کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے 1961 میں دوبارہ شروع کیا۔ اس تہوار کے دوران ہندو اور مسلمان دونوں درگاہ پر چادر اور پنکھا چڑھاتے ہیں اور مہرولی میں واقع دیوی یوگ مایا کے قدیم مندر میں پنکھا اور چھتری بھی چڑھائی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے، قطب الدین بختیار کاکی کی درگاہ پر کوئی تختی نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ اس جگہ کا گاندھی جی سے گہرا تعلق رہا ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ درگاہ پر کام کرنے والے لوگوں کو اس بات کا بالکل بھی اندازہ  نہیں ہےکہ 27 جنوری 1948 کو گاندھی جی یہاں کیوں آئے تھے؟

دہلی کے سینئر صحافی اور تاریخ داں  وویک شکلا کے مطابق، ’12 اپریل 1915 سے 30 جنوری 1948 تک دہلی میں اپنے 744 دنوں کے قیام کے دوران گاندھی جی نے صرف دو بار دہلی میں مذہبی مقامات کا دورہ کیا، حالانکہ وہ ایک کٹر ہندو تھے۔ انہوں نے 22 ستمبر 1939 کو بڑلا مندر کا افتتاح اس شرط پر کیا کہ دلتوں کو وہاں داخل ہونے سے روکا نہیں جائے گا۔ اور دوسری بار جب کسی درگاہ پر گئے تو وہ قطب الدین بختیار کی ہی درگاہ تھی۔ جی ہاں، وہ دہلی کے والمیکی مندر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے تھے، جہاں وہ والمیکی خاندانوں کے بچوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ وہ بلیک بورڈ آج بھی محفوظ ہے، جس کا استعمال مہاتما گاندھی اپنے طلباء کو پڑھانے کے لیے کرتے تھے ۔ باپو 1 اپریل 1946 سے 10 جون 1947 تک ٹھیک 214 دنوں کے لیے اس وقت کے ریڈنگ روڈ (اب مندر مارگ) پر واقع والمیکی مندر میں ٹھہرے تھے۔ یہیں پر لوئس فشر نے اپنی عظیم سوانح حیات ‘مہاتما گاندھی کی زندگی’ لکھنے سے پہلے ان کا آخری انٹرویو لیا تھا۔’

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اجمیر شریف میں واقع خواجہ معین الدین چشتی کی جس  درگاہ کو لے کر آج تنازعہ پیدا کیا جا رہا ہے اس درگاہ پر مہاتما گاندھی نےدو بار حاضری دی تھی اور اپنی سچی عقیدت کے اظہارکے طور پر انھوں نے پھول اور چادر چڑھائی تھی۔ اس درگاہ کو ‘انسانیت کا مرکز’ بتایا تھا۔

مہاتما گاندھی نے اپنی زندگی میں 1921، 1922 اور 1934 میں تین بار اجمیر شریف (راجستھان) کا دورہ کیا۔ گاندھی جی پہلی بار 8 مارچ 1921 کو اجمیر شریف آئے۔ انہوں نے درگاہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی زیارت کی اور دربار (مزار) پر حاضری دیتے ہوئے اس دربار کو ‘مرکز انسانیت’ قرار دیا۔

گاندھی جی دوسری بار 8 مارچ 1922 کو انقلابی کمارآنند کی دعوت پر اجمیر آئے۔ کمارآنند اس وقت کسانوں اور مزدوروں کے لیڈر تھے۔ کمارآنند اور مقامی کانگریس لیڈروں نے اجمیر ریلوے اسٹیشن پر مہاتما گاندھی کا شاندار استقبال کیا۔ وہ سیدھے کچہری روڈ پر پھول نواس بھون پہنچے جو ان کے دوست پنڈت گوری شنکر بھارگو کا گھر تھا۔ اس کے بعد وہ درگاہ شریف گئے۔

جب گاندھی جی کو اپنی گرفتاری کا خدشہ ہوا تو وہ اسی رات وہاں سے واپس آگئے۔ وہ ٹرین سے احمد آباد چلے گئے۔ راجپوتانہ ہریجن سیوا سنگھ کی دعوت پر گاندھی جی 4 جولائی 1934 کی رات تیسری بار پھر اجمیر پہنچے۔

سال 1990 میں ایک نام نہاد مؤرخ ، سیتا رام گوئل نے  دیگر مصنفین ارون شوری، ہرش نارائن، جئے دوباشی اور رام سوروپ کے ساتھ، دو جلدوں پر مشتمل کتاب شائع کی جس کا عنوان تھا ‘ہندو مندر: ان کے ساتھ کیا ہوا’۔ اس کتاب میں گوئل نے 1800 سے زیادہ مسلم ڈھانچے (مسجدوں) کا پتہ لگایا جو موجودہ مندروں پر تعمیر کی گئی تھیں یا تباہ شدہ مندروں کا سامان استعمال کر کے بنائی گئی تھیں۔ اس کتاب میں قطب مینار سے بابری مسجد، گیان واپی مسجد، پنجور گارڈن اور دیگر کا ذکر ہے۔ اب یہ تعداد 35000 سے تجاوز کر گئی ہے۔

گزشتہ تین چار دہائیوں سے اس ملک کی وحدت اور سالمیت اور ہزاروں سال پرانی تہذیب و ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنے والے جب یہ نعرے لگا رہے ہوں کہ ‘تین نہیں تو تین ہزار، نہیں بچے گی کوئی مزار’ اور ‘ ایودھیا تو جھانکی ہے متھرا کاشی باقی ہے۔’ ایسے میں مہاتما گاندھی اور ان کے اقوال بہت یاد آتے ہیں۔

(قربان علی سینئر صحافی ہیں اور ان دنوں ملک میں سوشلسٹ تحریک کی تاریخ کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔)