بشار الاسد کے سقوط کے بعد اسرائیل شام پر لگاتار بمباری کرکے اس کی دفاعی تنصبات کو ختم کرکے ایک طرف اس کو اس حد تک غیر محفوظ بنانا چاہتا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی ہمت نہ کرے اور دوسری طرف کرد علاقہ اے اے این ای ایس کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے۔ یعنی کرد علاقوں کی خود مختاری کا دفاع اسرائیل نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔
شام میں بشار الاسد حکومت کی برطرفی کے بعد گو کہ اپوزیشن سیرین نیشنل آرمی نے ملک کے بیشتر علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے، مگر اب پوری توجہ شمال مشرقی شام کی طرف مرکوز ہو گئی ہے، جو ایران، ترکیہ، اور عراق کی سرحدوں کے ساتھ ملحق ہے۔
یہ علاقے امریکی حمایت یافتہ کرد قیادت والے سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے قبضہ میں ہیں۔
کرد گو کہ شام کی آبادی کا دس فیصد ہیں، مگر اس وقت وہ شام کے 30 فیصد علاقے پر قابض ہیں، جن میں کئی عرب اکثریتی والے قصبے اور دیہات بھی شامل ہیں۔
ترکیہ اور عر ب ممالک شام میں ایک مضبوط مرکزی انتظام کے خواہاں ہیں، مگر امریکہ، عراق کی طرز پر شام میں ایک ایسا وفاقی ڈھانچہ بنانے کے فراق میں ہے، جہاں کردوں کے ذریعے شمال مشرق میں قائم آٹانامس ایڈمنسٹریشن آف نارتھ اینڈ ایسٹ سیریا(اے اے این ای ایس) کو مکمل خود مختاری حاصل ہو اور دوسری طرف اس ملک کی سب اہم بندر گاہ لتاکیا اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر علوی فرقہ اور پھر گولان پہاڑوں کے آس پاس کے علاقہ کو باطنی فرقہ دروز کے حوالے کرکے ان کی نیم خود مختاری پر مہر لگائی جائے۔
کرد قوم، جو 50 ملین سے زائد افراد پر مشتمل ہے، ایک ایسا نسلی گروہ ہے جن کی اپنی کوئی ریاست نہیں ہے۔
تاریخی شواہد کے مطابق، ترکوں کے برعکس کرد مشرق وسطیٰ کے مقامی لوگ ہیں۔ ترک وسطی ایشیا اور دیگر خطوں سے ہجرت کر کے اس علاقے میں آبسے ہیں۔
کرد ایک وسیع جغرافیائی علاقے میں آباد ہیں، جن میں ایران، آذربائیجان، آرمینیا، جارجیا، اردن، بلقان اور روس شامل ہیں۔ مگر ان کی نمایاں موجودگی ترکیہ، ایران، عراق اور شام میں ہی ہے۔
روس کی ایک ریاست کا نام بھی بشکردستان ہے۔ شاید ماضی میں اس خطے میں کردوں کی اکثریت رہی ہوگی۔
اس قوم کی تاریخ بغاوتوں، دھوکوں، جنگ و جدل اور مختصر کامیابیوں سے بھری پڑی ہے۔ کرد زبان، جس میں کرمانجی، سورانی، اور زازا بولیاں شامل ہیں، یورپی لسانی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، جو عربی، فارسی، اور ترکی سے منفرد ہے۔
کردوں نے تاریخ میں کئی آزاد ریاستیں قائم کی ہیں، جیسے کہ متانی، مادی، شداڈی، بوتان امارات، حکاری امارات، مروانی ریاست، ایوبی سلطنت اور آخری خود مختار کرد ریاست موجودہ ایران میں مہ آباد جمہوریہ تھی۔
کرد قوم نے قابل ذکر شخصیات پیدا کی ہیں، جیسے کہ صلاح الدین ایوبی، جنہوں نے صلیبیوں کو شکست دے کر 1187 میں یروشلم کو فتح کر لیا تھا۔
گوکہ کرد 90 فیصد سنی مسلمان ہیں، مگر علوی کرد بھی موجود ہیں۔ مسلمانوں میں زیادہ تر شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ ترکوں کی غالب اکثریت حنفی مسلک سے منسلک ہے۔
عرب ممالک کے ساتھ ان کی رسہ کشی اس وقت شروع ہوئی جب ان ممالک میں عرب قوم پرستی کے نام پر سوشلسٹ بعث پارٹی نے غلبہ حاصل کرلیا اور اس طرح ترکیہ میں جب سخت گیر سیکولرازم نے مذہبی پابندیاں عائد کیں تو انہوں نے اس کے خلاف بغاوت کی۔
جس کی وجہ سے 1930کی دہائی میں دو بار ان کا قتل عام ہوا۔ کرد پٹھانوں کی طرح خاصے مذہبی مانے جاتے ہیں۔ اس کا اندازہ مشرقی ترکیہ کے کرد اکثریتی صوبوں دیار بکر اور شانلی عرفہ وغیرہ کا دورہ کرنے سے ہوتا ہے۔
ترک اکثریتی علاقوں کے برعکس یہاں مساجد نمازیوں سے خاصی بھری ہوتی ہیں۔ مگر یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ایران، عراق، شام اور ترکیہ میں کردوں سے ساتھ رقابت اور سیاسی کشیدگی کی وجہ یہ نسلی گروہ موجودہ حالات میں اس خطے میں اسرائیل اور امریکہ کا حلیف تصور کیا جاتا ہے۔
بشار الاسد کے سقوط کے بعد اسرائیل شام پر لگاتار بمباری کرکے اس کی دفاعی تنصبات کو ختم کرکے ایک طرف اس کو اس حد تک غیر محفوظ بنانا چاہتا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی ہمت نہ کرے اور دوسری طرف کرد علاقہ اے اے این ای ایس کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے۔ یعنی کرد علاقوں کی خود مختاری کا دفاع اسرائیل نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے اسرائیل کردوں کے قائم کردہ علاقے کی سرحد گولان میں دروز علاقے تک بڑھانا چاہتا ہے، تاکہ اس کی سرحدوں کے آس پاس عرب آبادی کا انخلاء کرکے وہاں کرد اور دروز آبادی کو بسا کر ان کو دائمی طور پر محفوظ کرے، دوسری طرف کردوں کے ذریعے ترکیہ کو بھی عدم استحکام سے دوچار کردے۔
شمال مشرقی شام کی خود مختار انتظامیہ میں کرد عسکری گروپ وائی پی جی (پیپلز پروٹیکشن یونٹس) کا غلبہ ہے۔ یہ گروپ سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کا اہم حصہ ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ہیت تحریر الشام یعنی ایچ ٹی ایس سیرین نیشنل آرمی (ایس این اے) کا اہم اور غالب جزو ہے۔
وائی پی جی کی قیادت میں ایس ڈی ایف نے امریکی حمایت کے ساتھ داعش کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ صدر بارک اوبامہ کی قیادت میں اس وقت کی امریکی انتظامیہ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ داعش کے خاتمہ کے بعد شمال مشرقی شام میں ان کو ایک خود مختار علاقہ عطا کیا جائے گا۔ اس سے قبل ان کو ویسا ہی علاقہ امریکی مدد سے شمالی عراق میں کردستان ریجنل گورنمنٹ کے نام سے دیا گیا تھا۔
مگر امریکہ کے ناٹو اتحادی ترکیہ نے شام میں کرد قوتوں کے ابھرنے کو ایک براہ راست خطرہ سمجھا۔ ترکیہ کے مطابق وائی پی جی ممنوعہ دہشت گرد گروپ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی ہی شاخ ہے، جو ترکیہ میں برسرپیکار ہے۔ پی کے کے کے ساتھ چالیس سالہ جنگ میں ترکیہ میں 40 ہزار ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
اس خطر ہ کا سد باب کرنے کے لیے ترک صدر رجب طیب ایردوان نے دو اہم فوجی آپریشن کراکے اپنی سرحد پر بفر زون قائم کروائے۔ 2016 میں آپریشن فرات شیلڈ نے داعش کو نشانہ بنایا لیکن ساتھ ہی فرات کے مغرب میں کرد پیش قدمی کو بھی روکا۔ 2019 میں آپریشن پیس اسپرنگ نے براہ راست کرد فورسز کو کمزور کرنے کا ہدف بنایا،اور تل ابیض اور راس العین پر قبضہ کر کے وہاں فوجی تعینات کیے۔
کردوں کو روکنے کے لیے ترکیہ نے شامی اپوزیشن ایس این اے کی بھی بھر پور اعلانیہ مدد کر کے ان کو ڈرونز اور جیٹس فراہم کرائے۔ جس کی وجہ سے اپوزیشن نے کردوں سے دو اہم شہر تل رفعت اور منبج ہتھیا لیے۔
بتایا جاتا ہے کہ ان علاقوں میں مقامی عرب قبائل کرد خود مختار کرد انتظامیہ سے منحرف ہوگئے اور انہوں نے دمشق کی انتظامیہ کے ساتھ الحاق کرکے ایس این اے سے مدد مانگی۔ ایس ڈی ایف کے کمانڈر ان چیف مظلوم عابدی نے ان علاقوں پر ایس این اے کے قبضہ اور مقامی عرب کمانڈروں کے منحرف ہونے کی تصدیق کی۔
ایک اور کرد کمانڈر مظلوم کوبانی کا کہنا ہے کہ ان کی جدوجہد صرف بقا کے لیے نہیں بلکہ عزت اور پہچان کے لیے ہے۔
کرد علاقے میں متعدد امریکی فوجی اڈے ہیں، مگر کوبانی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ مریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے یقین دلایا تھاکہ بائیڈن انتظامیہ شام میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ کیونکہ کرد اس جیل کی بھی حفاظت کر رہے ہیں، جس میں داعش سے وابستہ جنگجو اور ان کے افراد خانہ قید ہیں۔
معروف ترک صحافی و دانشور مہمت اوز ترک کے مطابق کرد مسئلہ بڑی حد تک پہلی عالمی جنگ کی میراث ہے۔ کرد زیادہ تر سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے، جہاں صرف مذہبی اقلیتوں کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ چونکہ کرد زیادہ تر مسلمان ہیں، انہیں ایک علیحدہ نسلی گروہ کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ سلطنت عثمانیہ کے تحت، کرد سلطنت کے اہم ستون تھے، جو پہاڑی علاقوں اور سرحدوں کی حفاظت کے ذمہ دار تھے۔ لیکن سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد، ترکی میں ان کے خلاف پالیسیاں تبدیل ہو گئیں۔
اوز ترک کے مطابق، جب 1923 ایک سیکولر حکومت نے عثمانیوں کی جگہ لی تو اس وقت کی ترک حکومت نے ان کی مذہب کے ساتھ زیادہ وابستگی کی وجہ سے ان کو تختہ مشق بنادیا۔ ترک حکومت نے 1937 اور 1938 میں تْنسلی کو بمباری کا نشانہ بنایا تاکہ کردوں کی بغاوت کو دبایا جا سکے، جو ‘درسیم بغاوت’ کے نام سے جانی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں قتلِ عام ہوا۔
موجودہ صدر رجب طیب ایردوان نے 2011 میں ترکی ریاست کی طرف سے درسیم قتلِ عام پر معافی مانگی۔ مگر یہ علاقے چونکہ شورش کی زد میں تھے، اس لئے ترقی سے محروم او رعسرت میں رہے۔ یہ بھی شورش کے جاری رہنے کا ایک باعث بنا۔ پھر 1980 سے پہلے کا ترکیہ کا معاشرہ شدید طور پر تقسیم کا شکار تھا، جس کے نتیجے میں بائیں بازو اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی تھیں، جن میں تقریباً 15000 افراد ہلاک ہوئے۔ 1980 کی فوجی بغاوت کے بعد، کرد عسکری تنظیم پی کے کے (کُردستان ورکرز پارٹی) نے گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔
انقرہ یونیورسٹی کے کرد طلبہ کی قائم کردہ اس تنظیم کا نظریہ مارکسزم-لینن ازم اور نسلی علیحدگی پر مبنی تھا۔ پی کے کے کو بین الاقوامی حمایت حاصل ہوئی اور اس نے ترکیہ کی سکیورٹی فورسز کو بڑے پیمانے پر چیلنج کیا اور جنوب مشرقی علاقوں کے بڑے شہروں میں اثر و رسوخ حاصل کرلیا۔
ترکیہ نے شام پر بغاوت کی حمایت اور پی کے کے کے رہنما عبداللہ اوجلان کو پناہ دینے کا الزام لگایا۔ کشیدگی بڑھنے اور ترکیہ کی طرف سے حملے کی دھمکیوں کے بعد، شام نے سفارتی دباؤ کے تحت اوجلان کو ملک بدر کردیا۔
اوجلان کو مختلف ممالک میں پناہ کی تلاش کے دوران 1999 میں کینیا میں ترکیہ کی انٹلی جنس نے گرفتار کیا اور اس کو ترکیہ کے حوالے کیا گیا۔ مقدمے میں انہیں 30000 افراد کی ہلاکت کا ذمہ دار قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اوز ترک کا کہنا ہے کہ شام نے تو خود کردوں کی شہریت ہی رد کر دی تھی، مگر ترکی میں ان کی کارروائیوں کی حمایت کرتا تھا۔
کرد عسکری تنظیم نے بعد میں سیاست میں بھی قسمت آزمائی کرکے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ آج کل یہ پیپلز ایکویلیٹی اینڈ ڈیموکریسی پارٹی (ڈی ایچ پی) کی نام سے سرگرم ہے اور ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت ہے۔
ترک پارلیامنٹ میں اس کے اراکین کی تعداد 57 ہے۔ ایک اور کرد پارٹی، ہُدا-پار، جو اسلام پسند کردوں کی نمائندگی کرتی ہے کے بھی چار اراکین پارلیامان ہیں اس کو ترکیہ کی حزب اللہ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔
رجب طیب اردگان کی آق پارٹی نے جب اقتدار سنبھالا تو اس میں کرد اراکینِ پارلیامنٹ کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔
ترکیہ کی موجودہ حکومت میں کئی کرد وزراء شامل ہیں، جن میں نائب صدر جودت یلماز اور وزیر خارجہ حقان فیدان شامل ہیں۔اس وقت بھی ان کی پارٹی میں کرد اراکین پارلیامان کی تعداد 60 کے آس پاس ہے۔
پچھلے صدارتی انتخابات میں جس امیداوار کمال کلیچی داراولو نے اردوان کو کانٹے کی ٹکردی، وہ بھی کرد ہی ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ وہ سنی کرد کے بجائے علوی کرد ہیں، جو ایک نہایت ہی چھوٹی اقلیت ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کرد ترکیہ کی آبادی کا تقریباً 15-20 فیصد ہیں، مگران کی شرح پیدائش ترکوں سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ یہ رجحان مستقبل میں آبادی کے توازن میں نمایاں تبدیلی کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔
آج، ترکیہ میں تقریباً چار ملین مخلوط خاندان ہیں جہاں کردوں کی غیر کردوں سے شادیاں ہو چکی ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا کرد آبادی والا شہر اس وقت استنبول ہی ہے۔ عراق میں کردوں کا ایک خودمختار علاقہ ہے جسے کردستان ریجنل آٹونومس گورنمنٹ کہا جاتا ہے۔ عراق کے موجودہ صدر عبداللطیف راشد اور وزیر خارجہ فواد حسین بھی کرد ہیں۔ اس علاقے پر دو بڑی کرد جماعتوں، برزانی اور طالبانی، کا غلبہ ہے، جو اثر و رسوخ کے لیے آپس میں برسرپیکار رہتی ہیں۔
شام میں خانہ جنگی سے قبل، کردوں کو سخت امتیازی سلوک کا سامنا تھا، جن میں شہریت کے حقوق سے محرومی بھی شامل تھی۔ خانہ جنگی کے دوران، کردوں نے امریکہ کے ساتھ اتحاد کیا اور مغربی حمایت کے ذریعے اب شام کے تقریباً 30 فیصد علاقے پر قابض ہیں۔
ایران میں بھی ترکیہ کی طرح کردوں کو ایک الگ نسلی گروہ کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ انہیں سنی مسلمان ہونے اور ایک الگ نسلی گروہ ہونے کی وجہ سے دوہرے امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ترکیہ میں 1980 کی فوجی بغاوت کے بعد کرد زبان پر پابندی لگا دی گئی، اور عوامی مقامات پر بولنے کی اجازت نہیں تھی۔ کردطویل عرصے سے اپنی مادری زبان میں بنیادی تعلیم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اروان کی
آق پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد 2002 سے کئی پابندیاں ختم کر دی تھیں۔ سرکاری ٹی آر ٹی نیٹ ورک کے ذریعے کرد زبان کا ایک ٹی وی چینل شروع کیا گیا اور سرکاری انادولونیوز ا یجنسی میں ایک کرد زبان کا ونگ قائم کیا گیا۔
جاتے جاتے بشار الاسد، جو پوری عمر کردوں کے ساتھ نبرد آزما رہے نے ایک چال چلی تھی۔ نومبر کے وسط میں جب حز ب اللہ نے لبنان میں اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ جنگ کی وجہ سے اپنی پوسٹس کو خالی کیا، تو شام کی سرکاری افواج نے ان کو کردوں کی تحویل میں دینے کا فیصلہ کیا۔ مگر27 نومبر کو ترکیہ نے ایس این اے کو متحرک کرکے ان پوسٹوں کو کردوں سے واپس لینے کی ترغیب دی۔
ایس این اے جو ابھی تک صرف ادلیب تک محدود تھیں، نے حلب کے آس پاس ان ملٹری پوسٹوں کو کردوں سے چھڑا لیا، تو معلوم ہوا کہ شہر میں کسی طرح کی مزاحمت نہیں ہے۔ بالکل جس طرح امریکی انخلاء کے اعلان کے بعد افغانستان میں اشرف غنی کی سرکاری افواج ہتھیار ڈالتی گئی، بلکل اسی طرح دمشق تک ایس این اے کو کسی بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
کردستان نیشنل کانگریس کی خارجہ پالیسی کمیٹی کی ترجمان نیلوفر کوچ کا کہنا ہے کہ کرد مسئلہ کا واحد حل وفاقیت اور غیر مرکزیت والی حکومت کے قیام میں ہے۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے مجھے کہا کہ کردوں کا مقصد عراق یا شام میں علیحدہ خطے کا قیام نہیں ہے، بلکہ جمہوری ڈھانچے کے اندر خود مختاری اور بقائے باہمی ہے۔
امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ اتحاد کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف اسی وجہ سے ترکیہ اور دیگر ممالک کو کردو ں کی نسلی کشی کا موقعہ نہیں ملا۔ ‘یہ کرد سفارت کاری میں ایک سنگِ میل ہے۔’ اس کے بدلے میں کرد جنگجووں نے داعش کا قلع قمع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ شمال اور مشرقی شام کی کرد خودمختار انتظامیہ کثیرالجہتی، سیکولر، اور جامع حکمرانی کی مثال ہے، جو مختلف کمیونٹیز کے درمیان بقائے باہمی پر مبنی ہے۔
میں نے جب ان سے پوچھا کہ خطے میں رائے بن رہی ہے کہ شام کا فیصلہ شامیوں پر ہی چھوڑا جائے، جبکہ کرد علاقے میں عراق اور دیگر ملکوں کے کرد شہری سرگرم ہیں، تو کوچ کا کہنا تھا کہ وہ کردوں کے درمیان یکجہتی کو ترجیح دیتی ہیں، خواہ وہ کسی بھی حصے میں ہوں۔ یہ مداخلت نہیں بلکہ اجتماعی کرد مفادات کو یقینی بنانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شمال مشرقی شام کو کردوں نے صرف اس وجہ سے آزاد کرالیا تھا جب ترکی، ایران، عراق، شام، اور جلاوطن کردوں کے درمیان اتحاد ممکن ہوا۔مگر ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے، عراقی کردستان کی روایتی کرد جماعتیں مالی مفادات کہ وجہ سے ترکیہ کو فائدہ پہنچا تی ہیں۔
ان کا استدلال تھا کہ عراق نے 2003 سے وفاقی حل کو اپنایا ہے، اور شام میں کرد 2012 سے ایک خودمختار انتظامیہ قائم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ ماڈل سرحدوں کو دوبارہ ترتیب دیے بغیر ایران اور ترکیہ میں بھی ایک جامع حکمرانی کا فریم ورک فراہم کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مغربی حمایت، خاص طور پر امریکہ کی مدد کردوں کی بقا کے لیے اہم ہے۔ عراق میں، کردستان ریجنل گورنمنٹ (کے آر جی) کو اندرونی اختلافات پر قابو پانا ہوگا اور بغداد کے ساتھ پائیدار معاہدے کرنے ہوں گے۔ شام میں، کرد خود مختار علاقہ کا مستقبل انقرہ اور دمشق کے ساتھ بات چیت پر منحصر ہے، جس میں امریکہ کی ثالثی سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔
مشرق وسطیٰ کی بدلتی ریت میں، کردوں کا سفرجاری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس خطے کا کوئی بھی ملک ان کے لیے کسی علیحدہ ملک کی پرزور مخالفت کرے گا اور ماضی کی طرح ایسی تحریک کو سختی کے ساتھ دبایا جائے گا۔ گو کہ اس وقت عراق کے صدر اور وزیر خارجہ، ترکیہ کے نائب صدر اور وزیر خارجہ کرد نسل سے ہی تعلق رکھتے ہیں، مگر ایک کرد کارکن کا کہنا تھا وہ اپنے تشخص اور جائز مقام کے حصول تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔
Categories: خاص خبر, خبریں, عالمی خبریں, فکر و نظر