خبریں

یوپی: صحافی کے گھر کو غیر قانونی طور پر گرانے کے الزام میں سابق ڈی ایم، پولیس سمیت 26 کے خلاف مقدمہ درج

نومبر 2024 میں سپریم کورٹ نے مہاراج گنج کے صحافی منوج ٹبریوال کے دو منزلہ آبائی گھر اور دکان کو غیر قانونی طور پر گرانے کے لیے یوپی حکومت کو 25 لاکھ روپے  معاوضہ کے طور پر ادا کرنے کو کہا تھا۔ اب اس معاملے میں کئی افسران کے خلاف نامزدایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

منوج ٹبریوال آکاش اور ڈیمولیشن کا اسکرین گریب۔

منوج ٹبریوال آکاش اور ڈیمولیشن کا اسکرین گریب۔

نئی دہلی: اتر پردیش کے مہاراج گنج ضلع میں صحافی منوج ٹبریوال آکاش کے آبائی گھر کو غیر قانونی طور پر مسمار کرنے کے معاملے میں پولیس نے اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ، کئی پولیس افسران اور انتظامی اہلکاروں سمیت 26 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

معلوم ہو کہ سپریم کورٹ نے اتر پردیش حکومت سے  اس معاملے میں افسران کی شخصی طور پر جوابدہی طےکرنے کو کہا  تھا، جس کے بعد دو ماہ کے اندر یہ کارروائی سامنے آئی ہے۔

اس معاملے میں، انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسر امر ناتھ اپادھیائے، جو ستمبر 2019 میں مہاراج گنج کے ڈی ایم تھے، کے ساتھ 26 دیگر لوگوں کےخلاف 16 سے زیادہ الزامات لگائے گئے ہیں جن میں سڑک کو چوڑا کرنے کے نام پر من مانے طریقے سے ٹبریوال کے گھر کو گرانا ،سازش کرنا، قانون کی نافرمانی اور دستاویزات کی جعلسازی وغیرہ بھی شامل ہیں۔

واضح ہوکہ گزشتہ سال 6 نومبر کو اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ سمیت تین ججوں کی بنچ نے یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی اتر پردیش حکومت کو صحافی منوج ٹبریوال  کے دو منزلہ آبائی مکان اور دکان کو غیر قانونی طور پر گرانے کے لیے  معاوضہ کے طور پر 25 لاکھ روپے دینےکو کہا تھا۔

سپریم کورٹ نے انہدامی کارروائی  کی منظوری اور اس کو انجام دینے والے  متعلقہ اہلکاروں کے خلاف تعزیری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ قانون کی حکمرانی میں  بلڈوزر جسٹس بالکل ناقابل قبول ہے ۔

اس سلسلے میں صحافی ٹبریوال نے اکتوبر 2019 میں عدالت کو ایک خط لکھ کر مہاراج گنج کے محلہ حامد نگر میں ان کی  جائیداد کو غیر قانونی طور پر مسمار کرنے کی شکایت کی تھی۔ عدالت نے شکایت کو ازخود نوٹس کے طور پر درج کیا تھا اور 2020 میں ڈی ایم اور سپرنٹنڈنٹ آف پولیس مہاراج گنج کو نوٹس جاری کیا تھا۔

نومبر 2024 کے اپنے فیصلےمیں عدالت عظمیٰ کی بنچ نے یوپی کے چیف سکریٹری کو قانون کی خلاف ورزی کرنے والے اہلکاروں کے ذاتی احتساب کو یقینی بنانے کے لیے تعزیری اقدامات سمیت مناسب کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔

بتا دیں کہ 30 دسمبر 2024 کو مہاراج گنج پولیس نے ٹبریوال کی جانب سے ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کو 5 مارچ 2020 کو جمع کرائی گئی شکایت پر مقدمہ درج کیا تھا۔ ان کی جائیداد کو منہدم کرنے کی کارروائی 13 ستمبر 2019 کو کی گئی تھی۔

اپنی شکایت میں ٹبریوال نے الزام لگایا تھا کہ ان کی آبائی جائیداد کو اس وقت کے ڈی ایم اپادھیائے کی قیادت میں افسران نے پولیس اہلکاروں، انجینئروں اور ٹھیکیدار کی ملی بھگت سے ایک ‘بڑی سازش’ کے تحت مسمار کیا تھا۔ ٹبریوال نے ایف آئی آر میں کہا تھا کہ ڈی ایم نے ‘جابرانہ اور بدنیتی پر مبنی رویہ’ اپنایا اور ‘مجرمانہ عزائم’ کے ساتھ ان کے  گھر کو ملبے میں تبدیل کردیا۔

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ نے ان کے خلاف انتقامی کارروائی کی ہے کیونکہ ان کے والد سشیل کمار نے انہدام سے چند دن قبل ایک تحریری شکایت میں قومی شاہراہ 730 (کلومیٹر 484 سے 505تک ) کے 21 کلومیٹر طویل حصے کی تعمیر میں مبینہ بے ضابطگیوں اور بدعنوانی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، جس کی لاگت  185 کروڑ روپے ہے۔

اس معاملے میں سشیل کمار نے سڑک کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگی،’کمیشن خوری’ اور بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے خصوصی تحقیقاتی ٹیم سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ اس شکایت کے بارے میں ایک رپورٹ مقامی اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔

ٹبریوال نے الزام لگایا ہے کہ اس کے بعد ڈی ایم، ان کے معاون  افسران، سرکاری انجینئرز اور ٹھیکیدار خاندان کے خلاف رنجش رکھنے لگے۔

ڈی ایم کا متنازعہ ماضی

معلوم ہو کہ امر ناتھ اپادھیائے، جنہیں سال 2016 میں آئی اے ایس افسر کے طور پر ترقی دی گئی تھی، مارچ 2018 سے اکتوبر 2019 تک مہاراج گنج کے ضلع مجسٹریٹ تھے، جب انہیں چار دیگر افسران کے ساتھ  گئو سنرکشن کیندر(گائے کے تحفظ کا مرکز) کی دیکھ بھال  میں مبینہ ‘مالی بے ضابطگیوں’ اور اس میں بے سہارا جانوروں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے الزام میں معطل کر دیا گیا تھا۔

یہ معاملہ مشرقی اتر پردیش کے مہاراج گنج میں مدھ والیا گئو سدن سے متعلق تھا۔ ایک ابتدائی تحقیقاتی کمیٹی نے پایا تھا کہ رجسٹر میں درج آوارہ گایوں کی تعداد حقیقی  اعداد و شمار سے میل نہیں کھاتی تھی۔ ایک آن فیلڈ معائنے سے پتہ چلا کہ وہاں صرف 954 مویشی تھے، لیکن رجسٹر میں 2500 مویشی دکھایا  گیا تھا۔

اس کے بعد اپادھیائے کو 14 جون 2020 کو اسپیشل سکریٹری، سیاسی پنشن، فریڈم فائٹرز سینک بورڈ ڈپارٹمنٹ کے طور پر اگلی پوسٹنگ ملی۔ پچھلے سال جولائی میں انہیں یوپی ڈس ایبلٹی امپاورمنٹ ڈپارٹمنٹ لکھنؤ میں اسپیشل سکریٹری کے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔

ٹبریوال نے اپنی شکایت میں بتایا ہے کہ کس طرح 13 ستمبر 2019 کو حکام نے ‘انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے’ ان کی جائیداد کے ساتھ  ساتھ خاندان کے تمام سامان اور دکان میں رکھی ادویات کو بھی  بلڈوزکر دیا۔

انہوں نے کہا کہ حکام نے بغیر کسی قانونی نوٹس، حصول کے عمل یا مناسب معاوضے کے ان کے آبائی گھر کو مسمار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ چند ہی منٹوں میں مکان اور دکان ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے۔

ٹبریوال نے الزام لگایا ہے کہ اہلکاروں نے خاندان کو زبردستی گھر سے باہر نکالا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں کیش باکس سے قیمتی سامان نکالنے کے لیے ایک منٹ کا بھی وقت نہیں ملا۔

اس ‘غیر انسانی اور مجرمانہ فعل’ کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئےٹبریوال نے الزام لگایا کہ اہلکاروں اور پولیس نے ان کی ماں اور حاملہ بھابھی کے ساتھ بھی بدتمیزی کی اور ان کے خلاف جسمانی طاقت کا استعمال کیا۔ ٹبریوال کا کہنا ہے کہ ان کے دادا پیترام ٹبریوال نے یہ جائیداد 1960 کی دہائی میں ایک رجسٹرڈ ڈیڈ کے ذریعے خریدی تھی۔ اس کے بعد ان کے دادا کی وصیت کے ذریعے سرکاری دستاویزات میں ان کی والدہ لکشمی دیوی کے نام پر مکان رجسٹر کرایا گیا۔ ٹبریوال اور ان کا خاندان گزشتہ 45 سال سے اس گھر میں رہ رہے تھے۔

ٹبریوال نے یہ بھی بتایا کہ انہدام سے ایک دن پہلے ڈی ایم نے انہیں فون کیا تھا اور ان کے والد اور چھوٹے بھائی موہت سے سڑک کو چوڑا کرنے کے منصوبے کے سلسلے میں اپنے کیمپ آفس میں میٹنگ میں شرکت کرنے کو کہا تھا۔ میٹنگ میں پولیس افسران، نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور ضلع انتظامیہ کے افسران اور نیشنل ہائی وے کے پروجیکٹ سپروائزر پہلے سے ہی موجود تھے۔

ٹبریوال نے کہا کہ انہیں وہاں بتایا گیا کہ پرائیویٹ زمین پر تعمیراتی کام کو منہدم نہیں کیا جائے گا اور ریونیو میپ کے مطابق محکمہ تعمیرات عامہ کو دستیاب سڑک کی چوڑائی کے مطابق ہی کام آگے بڑھے گا۔

وعدہ خلافی

اس کے بعد حکام نے شاہراہ کے دونوں طرف 26 فٹ سڑک کو پیلے رنگ کے پینٹ سے نشان زد کیا اور ٹبریوال سے منصوبہ کے پانچ فٹ کے دائرے میں آنے والی اپنی جائیداد کے ایک حصہ  کوگرا نے کے لیے کہا۔

انہوں  نے بتایا کہ وہ گھبرا گئے اور راتوں رات مذکورہ حصہ کو گرادیا۔ تاہم، اگلے دن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ حکام نے پراسرار طور پر اپنا فیصلہ بدل دیا، ان کے خاندان کو ‘اندھیرے میں’ رکھتے ہوئے بلڈوزر اور دیگر مشینوں سےان  کے پورے گھر کو مسمار کر دیا گیا۔ اس انہدامی کارروائی سے قبل سڑک کو بلاک کرنے کے لیے بھاری پولیس فورس تعینات کی گئی تھی۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ایف آئی آر میں نامزد تمام افراد قواعد و ضوابط پر عمل کیے بغیر سڑک کو چوڑا کرنے کے لیے جائیدادوں کو من مانی طور پر گرانے میں مالی غبن اور بدعنوانی کی سازش کا حصہ تھے۔

معاملے کی ایف آئی آر میں فساد، مجرمانہ سازش، نقصان پہنچانے کے ارادے سے قانون کی خلاف ورزی ، غلط دستاویز تیار کرنا، رضاکارانہ طور پر تکلیف پہنچانا، مجرمانہ دھمکی، شرارت، جعلی دستاویزات کو حقیقی دستاویزکے طور پر استعمال کرنا، جعلسازی، کسی شخص کی توہین کے ارادے سے حملہ کرنا  یامجرمانہ طاقت کا استعمال ، غلط طریقے سے یرغمال بنانا اور دوسروں کے شخصی تحفظ یا زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے لیے جلد بازی یا لاپرواہی سے کام کرنا جیسے الزام شامل ہیں۔

ایف آئی آر میں نامزد افراد میں اے ڈی ایم مہاراج گنج کنج بہاری اگروال، راجیش جیسوال، مہاراج گنج میونسپلٹی کے اس وقت کے ایگزیکٹو آفیسر راجیش جیسوال، سپرنٹنڈنگ انجینئر منی کانت اگروال اور اشوک کنوجیا، انجینئر دیو آنند یادو، آر کے سنگھ اور راکیش کمار شامل ہیں۔

ایف آئی آر میں مقامی انٹلی جنس یونٹ کے دو انسپکٹرز راجن سریواستو اور سنتوش کمار کے نام بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نو دیگر پولس افسران کے نام بھی ہیں جن میں اسٹیشن انچارج، مہاراج گنج سٹی سرویش کمار سنگھ، انسپکٹر نربھے کمار، چوکی انچارج نیرج رائے اور سب انسپکٹر ایس کے سنگھ رگھوونشی، اویناش ترپاٹھی، جئے شنکر مشرا، رنوجے، کنچن رائے اور منیشا سنگھ وغیرہ کے نام شامل ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )