پچھلی ڈیڑھ دہائی میں ماؤ واد سے مقابلے کے نام پر بستر میں ڈھیر ساری پونجی پہنچی ہے، ٹھیکیدار پنپ چکے ہیں اور بہت سے تعمیراتی کام شروع ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان سے وابستہ منافع کی تار کو ہلانے کی کوئی بھی کوشش مہلک ہوگی۔ اس لیے اس حملہ آور کے پہلے نشانے پر بستر کے صحافی آ جاتے ہیں۔
بستر میں بیجاپور ضلع کے نوجوان صحافی مکیش چندراکر کے قتل سے چھتیس گڑھ کے صحافی مشتعل ہیں، مضطرب ہیں، غصے میں ہیں اور اباک بھی ہیں۔ مکیش چندراکر این ڈی ٹی وی سمیت کئی دوسرے چینلوں کے لیےبیجاپور سے کام کر چکے تھے، ان کا اپنا یوٹیوب چینل بھی تھا، بستر جنکشن جس نے بہت کم وقت میں اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی۔
مکیش سسٹم مخالف خبریں کرنے والے صحافی کے طور پر معروف تھے۔ حال ہی میں سڑک کی تعمیرات میں بھاری گڑبڑیوں کے بارے میں این ڈی ٹی وی پر دکھائی گئی ایک رپورٹ سے بھی مکیش وابستہ تھے۔ وہ پہلی جنوری سے لاپتہ تھے۔ 3 جنوری کو ان کی لاش ایک سیپٹک ٹینک میں پائی گئی۔
مکیش کو بے دردی سے قتل کر کے بیجاپورکے جس احاطے میں واقع سیپٹک ٹینک میں دفن کیا گیا، وہ اسی ٹھیکیدار کا ہے، جس کے خلاف مبینہ طور پریہ سڑک کی تعمیرات سے متعلق رپورٹ نشر ہوئی تھی۔ یہ سطریں لکھنے تک پولیس اس ٹھیکیدار سریش چندراکر کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ سریش چندراکر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاست سے لے کر بیوروکریسی تک اثر و رسوخ رکھنے والاٹھیکیدار ہے۔
بستر کے صحافی اویناش پرساد نے سوشل میڈیا پر اس سیپٹک ٹینک کی تصویر شیئر کرتے ہوئے اپنے غصے کا اظہار کیا ہے کہ – ‘یہ سیپٹک ٹینک نہیں… صحافت کی قبر ہے۔’
پولیس نے قتل کی وجہ کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات نہیں دی ہے، لیکن چھتیس گڑھ میں یہ چرچہ ہے کہ سڑک گھوٹالے پر کی گئی وہی رپورٹ مکیش چندراکر کے بہیمانہ قتل کی وجہ تھی۔
سرمایہ اور ترقی کے دعووں کا سیاہ گٹھ جوڑ
پچھلی ڈیڑھ دہائی سے ماؤواد سے لڑنے کے نام پر بستر میں بہت سرمایہ آچکا ہے، ٹھیکیدار پنپ چکے ہیں اور بہت سے تعمیراتی کام شروع ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان سے وابستہ منافع کی تار کو ہلانے کی کوئی بھی کوشش مہلک ہوگی۔ لہٰذا اس حملہ آور بندوق کے نشانے پرصحافت آ جاتی ہے۔
دراصل، بستر کے سوداگروں کو ماؤ واد سے زیادہ اگر کوئی کھٹکتا ہے تو وہ ایک ایماندار، بے باک اورسمجھوتہ نہیں کرنے والا صحافی ہے۔ بستر میں کام کرنے والے ٹھیکیداروں کو سرکاری افسروں تک حصہ پہنچانا پڑتا ہے اور اس کے عوض میں ماؤنوازوں کی طرف سے بھی بے روک ٹوک لوٹ کی چھوٹ مل جاتی ہے۔ بستر کے صحافی اس حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ صحافی نہ ہوں تو دنیا کوبستر کی دھڑکن بھی سنائی نہ دے۔
جب مزاحمت کی زیادہ تر آوازوں کو حکومت ہی کچل چکی ہو، تو بستر میں صحافت ہی وہ واحد امید رہ جاتی ہے جہاں مزاحمت کی لہریں زندہ رہ سکتی ہیں۔ اس لیےنشانے پر یہاں کی صحافت ہے۔
مکیش چندراکر کا بہیمانہ قتل محض ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ بستر میں جمہوریت کی شکست ہے۔
بستر میں صحافت: جوکھم اور جنون کا سبب
بستر میں صحافت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن جب آپ صحافیوں پر حملوں کو کسی حکومت کے دور سے جوڑکر دیکھتے ہیں، تو سیاسی الزام تراشیوں کے درمیان صحافت کے سوال حاشیے پر رہ جاتے ہیں۔
بستر میں ماؤواد اور حکومتوں کے درمیان صحافت ہمیشہ سےچیلنجنگ رہی ہے، بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایک تیسری تلوار بھی ہے – ٹھیکیدار۔ یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی ایک تصویر ہے۔ سرمائے کا ایسا گٹھ جوڑ جس میں حکمران، سیاستدان، بیوروکریٹس، ٹھیکیدار اور بڑے بڑے تاجر بھی ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ میڈیا اس ناپاک گٹھ جوڑ سے غائب ہے۔ چند سال قبل ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے سامنے میڈیا سے وابستہ لوگوں کے خلاف شکایات موصول ہوئی تھیں۔ لیکن جس بستر میں سماجی کارکنوں کے لیے جگہ ختم کر دی گئی ہے اور حکومت کو یہاں کے عام لوگوں کا اعتماد ابھی حاصل کرنا ہے، وہاں جمہوریت کے محافظ کے طور پر اگرکسی پر تھوڑا بہت بھروسہ کیا جا سکتا ہے تو وہ میڈیا ہی ہے۔
بستر کے وہ تقریباً گمنام صحافی جو مناسب معاوضے کے بغیر اپنے آجروں کے لیے اشتہارات بھی اکٹھے کرتے ہیں اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر خبریں لاتے ہیں۔
اگر صحافت محض ذریعہ معاش ہوتی تو بستر کے بہت سے صحافی اس سے خود کو دور کر لیتے لیکن صحافت ایک جنون ہے۔ بستر کے نامہ نگاراور صحافی کراس فائرنگ کے درمیان پورٹ کرتے ہیں۔ پولیس اہلکاروں کو ماؤنوازوں کے چنگل سے آزاد کرانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ کبھی وہ ماؤنوازوں سے متاثرہ علاقوں سے جوانوں کی لاشیں لاتے ہیں، کبھی کسی غیر ملکی کو ماؤنوازوں کے قبضے سے آزاد کرواتے ہیں۔
بستر کے قبائلی فن اور قدرتی حسن پر بھی کسی ریسرچ اسکالر کے مقابلے بستر کے صحافی کا کام کمتر نہیں ہوتا۔ بستر کی بھوک، غربت، وسائل کی لوٹ مار اور عدم مساوات کی داستانیں بھی انہی صحافیوں کے قلم یا کیمرے سے دنیا کے سامنے آتی ہیں۔
ماؤنوازوں اور حکومت/ فورسز کے درمیان بات چیت کی ضرورت پیش آتی ہے تو جس پر دونوں فریق اعتماد کرتے ہیں وہ بستر کا مقامی صحافی ہی ہوتاہے۔ وہ صحافی جو ماؤ نوازوں کی گولیوں کا بھی نشانہ بنا اور سرکار کی جیل میں بھی ٹھونسا گیا… اور اب ٹھیکیدار کا سایہ بھی اس پر پڑگیا ہے۔ بستر کے مظلوم قبائلیوں کے مسائل کو یہ صحافی اپنی تمام تر حد کے باوجود دنیا کے سامنے لانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
مکیش چندراکر نے اپنے ایک پرانے انٹرویو میں بستر کے صحافیوں کی حالت پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میڈیا کا یہ حال ہے تو آپ اس خطے کے عام قبائلیوں کی حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
مکیش کے ساتھ ہوئی اس بات چیت کا تذکرہ صحافت اور تحقیق کے شعبوں میں کام کرنے والی نیویارک میں قائم دی پولس پروجیکٹ نامی تنظیم کے نمائندے نے اپنے ایک مضمون میں کیا ہے۔ اس بات چیت میں مکیش چندراکر نے کہا تھا – ‘مقامی لوگ اور پولیس دونوں ہی ہمیں [صحافیوں] سیفٹی آرمر کے طور پر دیکھتے ہیں۔’
دراصل، بستر عدم مساوات کا ایک تکلیف دہ ماڈل ہے۔ بستر کے قبائلی عوام کا جمہوریت پر ایمان ان صحافیوں کی وجہ سے زندہ ہے۔
مؤرخ رام چندر گہا اپنے مضمون ‘آدی واسی ، نکسلائٹس اور ہندوستانی جمہوریت’ میں لکھتے ہیں کہ قبائلیوں کو جمہوری اور انتخابی عمل کے ذریعے اپنی شکایات کو مؤثر طریقے سے بیان کرنے کا موقع نہیں ملا۔ لہٰذا، ریاست اور رسمی سیاسی نظام کی ناکامی نے انقلابی ماؤ نوازوں کے لیے سیاسی خلا کو پر کرنے کی راہ ہموار کی۔
اس ناکامی کے مقابلے بستر میں صحافت ہی جمہوری طریقے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی نظر آئے گی۔
کچھ سال پہلے ماؤ نوازوں نے باقاعدہ کچھ صحافیوں کے نام جاری کیے تھے اور اپنی نام نہاد ‘جن عدالت’ میں انہیں سزا دینے کا اعلان کیا تھا۔ جب صحافیوں نے اس کی سخت مخالفت کی تو ماؤنواز بیک فٹ پر تھے۔
ایسی ہی فہرست ایک بار ایک ماؤنواز مخالف تنظیم نے بھی جاری کی تھی، تب بھی صحافیوں نے کھل کر احتجاج کیا تھا۔
صحافیوں کے تحفظ کا قانون
چھتیس گڑھ کی پچھلی کانگریس حکومت کے دوران جرنلسٹ پروٹیکشن ایکٹ تیار کیا گیا تھا۔ یہ قانون بستر کے صحافیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور ان کے پرانے مطالبے کے پیش نظر بنایا جا رہا تھا۔ لیکن اس قانون کے اصل مسودے میں ان کے جذبات کے برعکس زبردست تبدیلیاں کی گئیں اور اس کے بعد بھی اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ مکیش چندراکر کے قاتلوں کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ بستر میں جمہوری اقدامات کسی سیپٹک ٹینک میں دفن نہ ہوں۔
(روچر گرگ سینئر صحافی ہیں۔)