درجن بھر قیدیوں نے جیل میں بنیادی سہولیات سے محرومی اور غیر انسانی صورتحال کی بابت شکایت کرتے ہوئے اپنے خطوط دی وائر کے ساتھ شیئر کیے ہیں، جن سے کھچا کھچ بھری ہوئی جیل میں روزمرہ کی ذلت آمیز زندگی کا تصویری خاکہ سامنے آتا ہے۔
ممبئی: جے پور سینٹرل جیل کی ہائی سکیورٹی سیل میں رضوان* کو بہت سوچ سمجھ کر ان-بلٹ ٹوائلٹ یعنی کمرے کے اندر بنے بیت الخلاء کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ دراصل، جیل کی یہ تنگ و تاریک کوٹھری جو تقریباً تین سالوں سے ان کا ‘مسکن’ہے وینٹی لیشن اور ایگزاسٹ فین کی سہولیات سےیکسر محروم ہے۔ گویا ایک بار جب وہ بیت الخلاء کا استعمال کرلیتے ہیں تو بدبو کمرے سے باہر نہیں جاتی اور گھنٹوں یہاں سے تعفن اٹھتا رہتاہے۔
وہ کہتے ہیں،’یہ ناقابل برداشت ہے۔’
رضوان کو کئی بار دیر تک سانسیں روکنی پڑتی ہیں، چوں کہ جیل کا یہ کمرہ تیزی سے’ٹارچر چیمبر’ یا کسی اذیت گاہ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
بتادیں کہ رضوان جے پور سینٹرل جیل میں بند 50 سے زیادہ ‘ہائی سکیورٹی قیدیوں’ میں سے ایک ہیں۔
غورطلب ہے کہ سزا یافتہ اور پری ٹرائل قیدی جیل حکام، ٹرائل کورٹ حتیٰ کہ راجستھان ہائی کورٹ سے اس نوع کی بنیادی سہولیات کی بابت شکایت کرتے آئے ہیں۔ یہ شکایتیں، جن میں سے بعضے 2019سے پہلے کی ہیں،ان پر بھی اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔اور اب درجن بھر قیدیوں نے جیل میں بنیادی سہولیات سے محرومی اور غیر انسانی صورتحال کی بابت شکایت کرتے ہوئےاپنے خطوط دی وائر کے ساتھ شیئر کیے ہیں،جن سےکھچاکھچ بھری ہوئی اس جیل میں روزمرہ کی ذلت آمیز زندگی کاتصویری خاکہ سامنے آتاہے۔
ستمبر 2024 میں ریاستی محکمہ جیل خانہ جات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، اس جیل میں 1818 قیدی ہیں، جبکہ اسے صرف 1173 قیدیوں کے لیے بنایا گیا تھا۔
یہ کافی بڑی سینٹرل جیل ہے، جس میں پری ٹرائل اور سزا یافتہ قیدیوں کو رکھاجاتاہے،ایسے میں امید کی جاسکتی ہے کہ یہاں قیدیوں کو بنیادی سہولیات فراہم کی جاتی ہوں گی۔ تاہم،شکایتوں، درخواستوں اور خطوط کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ قیدیوں کو یہاں بے حد بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔
‘ایک مگ، ایک کمبل اور ایک کین’
چند سال قبل دہشت گردی سے متعلق ایک معاملے میں قصوروار ٹھہرائے گئے وسیم نئے قیدیوں کے لیے انڈکشن روٹین (شروعاتی روٹین) کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ قیدیوں کو ایک مگ، ایک کالا کمبل اور ایک کین دیا جاتا ہے جس میں پانچ لیٹر پانی کی گنجائش ہوتی ہے۔وہ لکھتے ہیں،’جیل کے اندر زندہ رہنے کے لیے آپ کی کل کائنات یہی ہے۔’ نہانے، باتھ روم کا استعمال کرنے حتیٰ کہ پینے کا پانی رکھنے کے لیےبھی- ہر ضرورت کے لیے-یہی چھوٹا سا کین دیا جاتا ہے۔
وسیم نے 12 صفحے پر مشتمل اپنے خط میں لکھا ہے کہ جے پورمیں بہت سردی پڑتی ہے، اور قیدیوں کوصرف ایک موٹا کمبل دیا جاتا ہے،جس کوفرش پر بچھانا ہوتا اور اسی سے خود کو ڈھانپنا بھی ہوتا ہے۔ خستہ حال دیوار، بدحال چھت اور کئی سیلوں میں لیک ہونے کی وجہ سے قیدیوں کومسلسل اس خوف کے ساتھ جینا پڑتا ہے کہ اگرچھت گرگئی تو وہ دب کر مرجائیں گے۔ ہندی میں لکھے گئے اپنے خط میں وہ کہتے ہیں کہ،’ہمارے کھانے میں پلاسٹر کا گرنا عام سا واقعہ ہے۔’
دی وائر کو خط لکھنے والے اکثرسزا یافتہ قیدی راجستھان کی دوسری جیلوں میں بھی رہ چکے ہیں۔ بعض قیدیوں کے دیگر ریاستوں میں بھی مقدمے زیر التوا ہیں۔ اپنے خطوط میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں بنیادی سہولیات کا اندازہ ہے ۔ مثال کے طور پر،کئی معاملوں کا سامنا کررہے پری ٹرائل قیدی مراری* لکھتے ہیں کہ راجستھان کی مختلف جیلوں میں کافی وقت گزارنے کے بعد وہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جے پور میں ‘بدترین سہولیات’ دی جا رہی ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ کھانا ‘انتہائی ناقص ‘ ہے اور دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے کے لیے پیش کی جانے والی واحد سبزی کھیرا ہے۔ وہ لکھتے ہیں،’ جب کبھی غلطی سے آلو اور بھنڈی (بھنڈی) دی جاتی ہےتوقیدی خوش ہوجاتے ہیں۔’
اپنے خط میں انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ جے پور سینٹرل جیل شاید ملک کی واحد جیل ہے جو ‘گیلا راشن’ نہیں دیتی۔ زیادہ تر جیلوں میں کھانا اس قدر ناقص معیار کا ہوتا ہے کہ قیدی یہاں دستیاب کینٹین سروس پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن جے پور میں دیگر جیلوں کے برعکس، کوئی پکا ہوا کھانا (جسے’گیلا کینٹین’ کہا جاتا ہے) فراہم نہیں کیا جاتا ۔ متعدد قیدیوں کے مطابق، کینٹین میں ہلکا ناشتہ (اسنیکس) ہی ملتا ہے۔
کینٹین تک رسائی بھی ایک مہنگا سودا ہے اور صرف وہی لوگ یہ خدمات حاصل کر سکتے ہیں،جنہیں ریگولر منی آرڈر موصول ہوتے ہیں۔ بعض قیدیوں نے اپنے خطوط میں الزام لگایا ہے کہ جب اہل خانہ ان کے لیےاسنیکس اور گھر کا پکا ہوا کھانا لے کر آتے ہیں، تو اکثر جیل کے اندراس کو لانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
‘اہل خانہ اور وکیل سے بات کرنے کے لیے بھی کوئی پرائیویسی نہیں’
جیلوں میں درپیش ایک اور عام مسئلہ یہ ہے کہ قیدیوں کو ان کی ریگولر شنوائی کے لیے عدالت لے جانے کے لیے پولیس عملے کی کمی ہوتی ہے۔ یہ عدالتی آمد ورفت ان قیدیوں کو کچھ دیر کو تازہ ہوا فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے خاندان کے افراد سے زیادہ آزادانہ طور پر ملنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر قیدیوں کو ٹرائل کورٹ کے سامنےصرف ویڈیو کانفرنسنگ (وی سی) کے توسط سے ہی ‘پیش’ کیا جاتا ہے۔
جے پور کی جیلوں میں وی سی کے لیےصرف تین کمپیوٹر ہیں اورہر دن تقریباً 200 افراد کی وی سی کے ذریعے پیشی ہوتی ہے۔ دیال*نام کےایک قیدی نے بتایا کہ وی سی کے ذریعے ان کی پیشی محض ضابطے کی کارروائی ہے اور انہیں کبھی بھی عدالت تک اپنی شکایت پہنچانے کا موقع نہیں ملتا۔وہ لکھتے ہیں،’آپ کا چہرہ جج کو دکھایا جاتا ہے اور آپ کو وہاں سے ہٹا دیا جاتا ہے۔’
ہائی سکیورٹی سیل میں بند دیال بتاتے ہیں کہ ان کے اہل خانہ ہفتہ وار ملاقات کے دوران کس طرح کی توہین ، ذلت اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں ۔ دیال کا خاندان ہر ہفتے دور دراز کےضلع کے ایک گاؤں سے ان سے ملنے آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں،’وہ صبح 8 بجے کے قریب جیل پہنچ جاتے ہیں، لیکن مجھ سے ملنے کے لیےانہیں شام 4 بجے تک اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یہ ملاقات بھی جیل کے عملے کی نگرانی میں 15 منٹ سے زیادہ نہیں چلتی۔’ اگر جیل میں کوئی وی آئی پی ملاقاتی ہوتا ہے تو گھر والوں کو واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
ایک اور زیر سماعت قیدی کے خط میں ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جیل میں ملاقات کے لیے آنے والے وکیلوں کو بھی اہل خانہ کی طرح ہی اس سسٹم کے عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے قانونی حکمت عملیوں کے بارے میں بات چیت اور گفتگو محال ہے۔ وکیل دکشا دویدی، جو کبھی جے پور جیل میں بند ایک مؤکل کی نمائندگی کرتی تھیں اور بعد میں اجمیر چلی گئیں، خطوط میں کیے گئے ان دعووں کی تصدیق کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں،’عام لوگوں اور وکیلوں کے لیے ملاقات کا کمرہ ایک ہی ہے۔ ہمیں کانچ کی اسکرین کے پار کھڑے ہوکر اپنے مؤکل سے فون پر بات کرنی ہوتی ہے۔ کوئی پرائیویسی نہیں ہوتی؛ مؤکل اوروکیل کے استحقاق کوبرقرار نہیں رکھا جا سکتا اور بعض اوقات دوسرے لوگ قیدی کے پیچھے کھڑے ہو کر سننے لگ جاتے ہیں کہ وہ اپنے وکیل سے کیا کہہ رہا ہے۔’
ایک طول طویل خط میں، جس کی ایک کاپی راجستھان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی ارسال کی گئی تھی، ایک قیدی نے شکایت کی ہے کہ اس کے خط مطلوبہ افراد تک نہیں پہنچتے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ خط کو جیل کی سطح پر ہی روک لیاجاتا ہے۔ جے پور سینٹرل جیل میں بند اپنے مؤکل کے نام ایک وکیل کی جانب سے لکھے گئے خط میں بھی اسی طرح کی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے،جس میں وہ لکھتے ہیں،’میرے پچھلے خط کے بعد سےآپ سےمیر اکوئی رابطہ نہیں ہوا۔ مجھے نہیں پتہ کہ یہ خط آپ تک پہنچا بھی یا نہیں۔‘
‘صرف تعلیم یافتہ قیدیوں کو ہی پریشانی ہے’: جیل حکام
کھچاکھچ بھری ہوئی جیل، ایک ایسا مسئلہ ہے جسے جیل سپرنٹنڈنٹ راکیش موہن شرما بھی تسلیم کرتے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ 150-160فیصدکے درمیان تصرف کی شرح کے ساتھ یہاں قیدیوں کوانتہائی تنگ جگہوں میں رکھا جاتا ہے۔ ایسے میں ایک نوجوان قیدی نے دی وائر کو لکھے اپنے خط میں بتایا ہے کہ کس طرح اس کی بیرک میں 100 سے زیادہ لوگ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کمرے میں صرف ایک چھت والا پنکھا ہے۔ ‘اس بند جگہ میں سانس لینے کے لیے بھی ہوا نہیں ہے’،وہ شکایت کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ گرمی اور مانسون میں زندہ رہنا خصوصی طور پر مشکل ہوتا ہے۔غریب پس منظر سےتعلق رکھنے والے قیدی، جن کے پاس صابن یا بالٹی تک خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے، اکثر کئی دن بنا نہائے رہتے ہیں۔کمرے میں بدبو ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔ یہاں کئی لوگ جلد کی بیماریوں کی بھی شکایت کرتے ہیں۔’
متعدد قیدی جیل میں غیر انسانی صورتحال کے بارے میں شکایت کرنے پر پرتشدد حملے، الگ کیے جانے اور سنگین نتائج کی دھمکیوں کے اپنے تجربے کا اشتراک کرتے ہیں۔ دی وائر کے ساتھ اپنی پریشانیوں کا اشتراک کرتے ہوئے ان میں سے کئی لوگ واضح طور پر ذکر کرتے ہیں کہ ان کے خطوط انہیں حکام کے غضب میں مبتلا کر دیں گے، لیکن وہ یہ خطرہ مول لینے کو تیار ہیں، بشرطیکہ ان کے مسائل کو عام کیا جائے اور ریاست ان پر کارروائی کرے۔
دی وائر نے مفصل سوالنامے کے ساتھ شرما سے رابطہ کیا۔ قیدیوں کی جانب سے لگائے گئے متعدد الزامات کے جواب میں شرما نے کہا کہ وہ کوئی تبصرہ نہیں کریں گے، لیکن انہوں نے قیدیوں کے ‘رویے’ کے بارے میں بات کی،’وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے خطوط ان کے وکلاء تک نہیں پہنچ رہے ہیں، لیکن آپ کو ان کا پیغام مل گیا۔لہذا، ایک بات تو واضح ہے: یہاں کے قیدی باہر کی دنیا سے رابطہ رکھنے میں کامیاب ہیں۔’ تاہم، یہ خطوط ڈاک سروس کے ذریعے دی وائر کو نہیں بھیجے گئے تھے –جو جیل میں اور جیل سے رابطے کا واحدقانونی ذریعہ ہے – اور جو قیدیوں کے لیے دستیاب ہے۔ پوسٹل سروس کے ذریعے اپنے وکلاء اور اہل خانہ کو خطوط بھیجنے یا وصول کرنے میں ان کی ناکامی ایک مسئلہ بہر حال ہے۔
شرما نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ شکایتیں صرف اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ قیدی ’بے کار‘ رہتے ہیں۔’جب آپ سارا دن مصروف ہوتے ہیں، تو آپ بہ مشکل اپنے کھانے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہاں کے قیدی ایسے مسائل کے بارے میں سوچنے کے لیے آزاد ہیں جن پر واقعتاً تشویش نہیں ہونی چاہیے،‘ انہوں نے کہا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ قیدیوں کا ایک’عجیب وغریب طبقہ’ ہے جو جیل کی حالت کے بارے میں شکایت کرتا ہے۔ ‘یہ تعلیم یافتہ قیدی ہیں، جو ایک منظم سنڈیکیٹ کا حصہ ہیں اور ان میں قائدانہ صلاحیتیں ہیں۔’ تاہم، سپرنٹنڈنٹ نے خطوط میں اٹھائے گئے خدشات کے بارے میں یہ کہتے ہوئے کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ ، ‘[یہ] انکوائری کا معاملہ ہے۔’
تاہم، شرما نے اس بات سے اتفاق کیا کہ کھچا کھچ بھری ہوئی جیل ایک سنگین مسئلہ ہے۔انہوں نے کہا،’ اس تشویش کو دور کرنا ریاست کا کام ہے ۔ میرے پاس محدود وسائل ہیں، اور ان وسائل کے ساتھ میں بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔’
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔
* نام خفیہ رکھنے کے لیے قیدیوں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
Categories: حقوق انسانی, خاص خبر, خبریں, فکر و نظر