وکاس یادو کے تئیں حکومت کے رویے سے پران پورہ کے اندر ناراضگی بڑھ رہی ہے۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے آپ تو امریکہ گئے نہیں تھے۔ جو کام انہوں نے حکومت کی ہدایت پر کیا، انہیں اس کے لیے سزا کیسے دی جا سکتی ہے؟
پران پورہ (ریواڑی): کسی خفیہ ایجنٹ کے المیے کو آپ وکاس یادو کےآئینےسے دیکھ سکتے ہیں۔ ہریانہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پلے بڑھے وکاس پہلے سی آر پی ایف اور پھر را کے افسر رہے۔
اہیر برادری کے اس بنجر گاؤں میں، جہاں پانی زمین سے تقریباً چار سو فٹ نیچے چلا گیا ہے، وکاس یادو کی زندگی الگ ہی چمکتی ہے۔ لیکن پچھلی کئی دہائیوں میں اس گاؤں سے ابھرنے والی شایدسب سے روشن شخصیت کو آج سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سرکاری نوکری چھن جانے کے بعد وکاس یادو اب بے روزگار ہیں اور خوف کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
یہ جنوری کی ایک ہنگامہ خیز دوپہر ہے۔ گاؤں کے چوپال میں حقہ گڑگڑاتے پران پورہ کے لوگ اچانک تھم جاتے ہیں۔ وہ حیران بھی ہیں اور غصہ بھی کہ وہ نوجوان جو ان کے گاؤں کا فخر تھا اس وقت پریشان حال ہے۔
گزشتہ 15 جنوری کو وزارت داخلہ نے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کی طرف سے کچھ دہشت گرد تنظیموں اور مجرموں کے بارے میں ہندوستان کو دی گئی معلومات کی تحقیقات کے لیے مرکزی حکومت نے نومبر 2023 میں جو اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی ، اس نے اپنی رپورٹ سونپ دی ہے اور ‘ایک فرد کے خلاف قانونی کارروائی’ کی سفارش کی ہے۔
اگرچہ اس پریس ریلیز میں ایسا نہیں کہا گیا ہے، لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ یہ امریکہ کی طرف سے عائد فرد جرم کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی تھی، جس کے مطابق نیویارک میں خالصتان کے حامی گرپتونت سنگھ پنوں پر حملے کی سازش میں اس وقت کے را کے افسر وکاس یادو ملوث تھے۔ اس فرد جرم کے سامنے آنے کے بعدہندوستانی وزارت خارجہ نے گزشتہ سال کہا تھا کہ وکاس یادو ‘اب حکومت ہند کا ملازم نہیں ہے۔’
اسی طرح حالاں کہ اس ریلیز میں وکاس یادو کا نام نہیں تھا، لیکن تجزیہ کاروں اور میڈیا رپورٹس کے مطابق جس شخص کے خلاف قانونی کارروائی کی بات کی گئی ہے، وہ وکاس یادو ہیں۔ اس طرح ہندوستانی حکومت کی طرف سے یہ پہلا اعتراف نامہ ہے کہ ان کا ایک شہری امریکہ میں ہونے والی اس مبینہ سازش میں ملوث تھا۔
گاؤں والوں کے مطابق وزارت داخلہ کا یہ بیان وکاس یادو کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ان کی سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ اب ملک میں اس موضوع پر کوئی بحث نہیں ہورہی۔ اس کے برعکس میڈیا رپورٹس یہ بتا رہی ہیں کہ وکاس نے جو کچھ بھی کیا، اپنے آپ کیا اور حکومت کی اس میں کوئی حصہ داری نہیں تھی۔
ریواڑی کے اہیر کالج میں وکاس کے ساتھ پڑھنے والے انل کمارکمیٹی کی سفارشات پر سوال اٹھاتے ہیں،’ ملک کی خدمت کے لیے گیا جوان اپنے لیے خطرہ مول لیتا ہے یا ملک کے لیے؟ وکاس نے اپنے لیے تو کچھ نہیں کیا۔ وہ سرکاری ملازمت میں تھا، اس نے جو کچھ کیا وہ حکومت کے لیے کیا، پھر حکومت اس سے کیوں منہ موڑ رہی ہے؟’
گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وکاس یادو اپنے آپ تو امریکہ گئے نہیں تھے۔ ‘وہ حکومت کے کہنے پر امریکہ گئے، کام مکمل کر کے واپس آئے۔’
انل مزید کہتے ہیں کہ جب خود حکومت ہند نے کئی سال پہلے پنوں کو دہشت گرد قرار دیا تھا تو پھر ان پر حملے کے لیے اپنے ہی جوان کے خلاف کارروائی کیوں کی جا رہی ہے۔
سی آر پی ایف کے سابق جوان دنیش کمار نے سوال اٹھایا،’اگر حکومت خود اپنے جوانوں سے دستبردار ہو جائے گی تو پھر کون ایسی نوکری کرنا چاہے گا؟ ملک کے لیے اپنی جان کون خطرے میں ڈالے گا؟’
پران پورہ گاؤں کے زیادہ تر خاندان یادو برادری سے ہیں۔ خود وکاس کے والد رام سنگھ یادو بی ایس ایف میں بطور فوجی شامل ہوئے تھے اور ڈی ایس پی کے عہدے تک پہنچے تھے۔ وہ 2007 میں تریپورہ میں تعینات تھے، جب ان کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا۔ وکاس کے بڑے بھائی اجئے یادو ہریانہ پولیس میں ہیں۔ گاؤں کے رہنے والے شیش رام اس خاندان کو ‘محب وطن کا خاندان’ کہتے ہیں۔
صرف 22 سال کی عمر میں سی آر پی ایف میں اسسٹنٹ کمانڈنٹ کے طور پر بھرتی ہونے کے بعد وکاس یادو نے بعد میں را افسر کے طور پر ملک کی خدمت کی۔ لیکن امریکی فرد جرم میں ان کا نام سامنے آنے کے بعد ہندوستانی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ اب حکومت ہند کے ملازم نہیں ہیں ۔
دراصل، اانہیں نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ تب سے وہ بے روزگار ہیں اور ان کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
آفت
ان پر آفت قسطوں میں آئی ہے۔ سب سے پہلے جب گزشتہ سال امریکی فرد جرم میں ان کا نام آیا اور میڈیا میں ان کی تصویریں آنا شروع ہوئیں تو گھر والے اچانک پریشان ہو گئے۔
ان دنوں دی وائر نے دو خبریں کی تھیں۔ 17 اکتوبر 2024 کو امریکی فرد جرم کے بعد جب ایف بی آئی (فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن) نے وکاس یادو کو ‘مطلوب’ قرار دے دیا تھا اور ہندوستانی حکومت نے بھی واضح نہیں کیا تھا کہ وہ کہاں اور کیسے ہیں، تب پران پورہ سے اپنی پہلی خبرمیں ہم نے بتایا تھا کہ وکاس نے اپنے گھر والوں کو فون کیا تھااور بتایا تھا کہ وہ محفوظ اور صحت مند ہیں۔
دوسری خبر میں ہم نے لکھا تھا کہ اس کے بعد وکاس اپنے گھر پہنچے، اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارا اور انہیں یقین دلانے کے بعد واپس لوٹ گئے۔ ہم نے یہ بھی ریکارڈ کیا تھا کہ وکاس کا خاندان حکومت سے ناخوش ہے اور انہیں لگتا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے وکاس کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔
نوکری جانے کے بعد را کے اس سابق افسر نے فارمنگ اور پولٹری فارمنگ جیسے کام شروع کیے۔ لیکن جب وہ خود کو سنبھال کر کچھ استحکام کی طرف بڑھ رہے تھے، وزارت داخلہ کی حالیہ ریلیز ان کے لیے ایک نئی آفت بن گئی ہے۔
ریلیز مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے شخص کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ لیکن گاؤں والے وکاس کے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے امکان سے انکار کرتے ہیں۔ کالج کے دنوں میں وکاس کو ایک تیز گیند باز کے طور پر یاد کرتے ہوئے انل کمار کہتے ہیں،’اس نے کالج میں کبھی کسی سے بحث بھی نہیں کی، حکومت ایسے شخص کو مجرم کیسے کہہ سکتی ہے؟’
امریکہ کی جانب سے نومبر 2023 میں پہلی فرد جرم داخل کرنے کے تین ہفتے بعد دہلی پولیس نے وکاس یادو کو اغوا اور پیسہ وصولی کے الزام میں 18 دسمبر 2023 کوگرفتار کر لیا تھا۔ 22 اپریل 2024 کو انہیں باقاعدہ ضمانت مل گئی۔ تقریباً چار ماہ تہاڑ جیل میں گزارنے کے بعد اپریل میں انہیں رہا کیا گیا تھا۔
گاؤں والوں کے مطابق یہ پورا معاملہ مشکوک ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جس وقت ان کے تہاڑ میں ہونے کی بات کہی گئی ہے،اس دوران وہ اپنے خاندان کے ساتھ رابطے میں تھے۔
‘کیا حکومت کوامریکہ سے ڈر ہے؟’
حکومت کی حالیہ پریس ریلیز کے بعد میڈیا میں کوئی ہلچل نہ ہونے پر گاؤں والے حیران ہیں۔ ‘جب پچھلی بار نام آیا تھاتو میڈیا والے یہاں آئے تھے۔ وہ اس بار یہ خبر کیوں نہیں دکھا رہے؟
وکاس کے ہم جماعت انل کہتے ہیں،’لوگ کہتے ہیں کہ پوری دنیا میں مودی کا ڈنکا بج رہا ہے… لیکن ابھی کیا ہوگیا؟ کیا وہ امریکہ سے ڈرگئے؟ ‘
گاؤں والے یاد کرتے ہیں کہ جب حکومت پاکستان میں پھنسے ونگ کمانڈر ابھینندن کو واپس لا سکتی ہے تو پھر اپنے افسر کے خلاف مقدمہ چلانے کی تیاری کیوں کر رہی ہے۔
واضح ہو کہ 2019 میں ابھینندن کو پاکستانی فوج نے قیدی بنا لیا تھا۔ ہندوستانی حکومت ابھینندن کو بہت جلد وطن واپس لے آئی تھی ۔ اس واقعہ کو مودی حکومت کی جارحانہ خارجہ پالیسیوں کی فتح کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
دنیش اپنے چار بھائیوں کے ساتھ فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہریانہ کے نوجوانوں کی بڑی تعداد فوج میں جاتی ہے، خاص کر ریواڑی اور مہندر گڑھ کے نوجوان۔ گاؤں میں جنگ میں مارے گئے فوجیوں کی یاد میں یادگاریں بنائی گئی ہیں۔ اگر حکومت اپنے ایک ہونہار نوجوان کو کٹہرے میں کھڑا کرے گی تو لوگ اپنے بچوں کو فوج میں بھیجنا بند کر دیں گے۔
وہ سب باری باری حقہ گڑگڑاتے ہیں اور اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہیں۔ وکاس یادو کی گرفتاری کے امکان پر سابق سی آر پی ایف جوان دنیش کمار کا کہنا ہے کہ ‘اگر ایسا ہوا تو بغاوت ہو جائے گی۔’
ان سے تھوڑی دور پران پورہ کی دیواروں پر ایک نیلا سا سایہ لہرا رہا ہے۔ ایک گھر کے باہر لٹکی پلاسٹک کی بوتل میں نیلا پانی ٹپک رہا ہے۔ یہ نیل کا پانی ہے۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ آوارہ کتے نیل کے پانی سے بھاگتے ہیں۔ اگر اس بوتل کو دروازے پر لٹکا دیا جائے تو کتے ادھر ادھر گندگی کرنے نہیں آئیں گے اور نہ ہی کوئی شور مچائیں گے۔
ایسے گاؤں میں وکاس یادو کا خاندان قدرے خوشحال تھا، جس کے آنگن میں ایک خوبصورت بیگل ڈولتا تھا۔ ٹامی کو وکاس ہی لے کر آئے تھے۔ وہ انہیں بہت عزیز تھا۔ اس خوشحالی کی بڑی وجہ وکاس کا کیریئر تھا جو آج اچانک ختم ہو گیا ہے۔ غیر متوقع مالی بحران کا سامنا کرنے والے اس خاندان میں وکاس کی ننھی بٹیا کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اس بچی کی دیکھ بھال دادی کر رہی ہیں۔ اپنے بیٹے کے لیے فکر مند یہ بزرگ خاتون اچانک کئی بیماریوں میں مبتلا ہوگئی ہیں۔
پچھلی بار انہوں نے دی وائر کو بتایا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی حفاظت چاہتی ہیں۔
اس ماں کی مانگ آج بھی وہی ہے۔
Categories: خاص خبر, خبریں, گراؤنڈ رپورٹ