الیکشن نامہ

کچرے کے پہاڑ: دہلی میں انتخابی سیاست کی منھ بولتی کہانی

سپریم کورٹ نے حال ہی میں دہلی میونسپل کارپوریشن اور مرکزی حکومت کو دہلی میں روزانہ 3000 ٹن سے زیادہ ٹھوس کچرے کو ٹھکانے نہ لگانے پر پھٹکار لگائی تھی اور مرکز اور دہلی حکومت کو کچرے کو ٹھکانے لگانے کے سلسلے میں مل کر کام کرنے کو کہا تھا۔ لیکن یہ مسئلہ برسوں سے انتخابی سیاست کا شکار ہے۔

اوکھلا لینڈ فل سائٹ۔ (تمام تصویریں: سونیا یادو/دی وائر)

اوکھلا لینڈ فل سائٹ۔ (تمام تصویریں: سونیا یادو/دی وائر)

نئی دہلی: دہلی اسمبلی انتخابات میں تھوڑا ہی وقت رہ گیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ ان انتخابی مسائل میں ایک اہم مسئلہ دہلی میں جمع کچرے کے تین پہاڑ ہیں۔ غازی پور، بھلسوا اور اوکھلا میں کچرے کے ان پہاڑوں پر اکثر سیاست ہوتی نظر آتی ہے، لیکن حقیقی حل کب نکلے گا اس حوالے سے صرف وعدے اور دعوے ہی نظر آتے ہیں۔

ان پہاڑوں کے قریب گھنی آبادی رہتی ہے، اگرچہ اس کی صحیح تعداد دستیاب نہیں ہے، لیکن یہ ہزاروں میں ہے۔ ان لوگوں کے پاس ووٹر شناختی کارڈ بھی ہیں اور یہ اپنا ووٹ بھی ڈالتے ہیں، لیکن ان کے مسائل اپنی جگہ برقرارہیں۔

دہلی کی اوکھلا لینڈ فل سائٹ، جہاں ہزاروں ٹن کچرا متعدد ٹرکوں میں ٹھکانے لگانے کے لیےآتا ہے، اس کے آس پاس رہنے والے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ لوگ اسے جنوبی دہلی کے نیلے آسمان کا کالا دھبہ بھی کہتے ہیں۔ کچی آبادیوں کے علاوہ یہاں بڑی بڑی کالونیاں اور کثیرمنزلہ مکانات بھی ہیں، جہاں لوگ اکثر اس کوڑے کے اثرات سے دوچار ہوتے نظر آتے ہیں۔ کچرے کا یہ پہاڑ نہ صرف مہلک بیماریوں کا گھر ہے بلکہ اس سے خارج ہونے والی زہریلی گیس بھی ہوا میں تحلیل ہو کر ماحولیات کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔

یہاں رہنے والے لوگوں کے مطابق، بارش کے دوران کچرا لیک ہونے سے یہاں کا پانی بھی آلودہ  ہو رہا ہے۔ اوکھلا کا کچرے کا پہاڑ تقریباً 40 میٹر اونچا ہے اور اس وقت یہاں تقریباً 30 ہزار میٹرک ٹن کچرا جمع ہے، جو یہاں رہنے والوں کی جان کی آفت  بن گیا ہے۔

اس کچرے کے پہاڑ کے بالکل ساتھ ہی ایمپلائز اسٹیٹ انشورنس کارپوریشن (ای ایس آئی سی) ہسپتال بھی ہے، جو ملٹی اسپیشلٹی ہسپتال ہے، دور دراز سے لوگ یہاں علاج کے لیے آتے ہیں اور اس کچرے کی بدبو کے ساتھ رہتے ہیں۔

اوکھلا لینڈ فل سائٹ کے قریب ہسپتال۔

اوکھلا لینڈ فل سائٹ کے قریب ہسپتال۔

ہسپتال کے پاس کھڑا کچرے کا پہاڑ

تاہم یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ایک ہسپتال کے پاس کچرے کا پہاڑ برسوں سے کھڑا ہے اور انتظامیہ کے پاس اس کی خبر گیری تک کا وقت نہیں ہے۔ یہاں سے بہت تھوڑے فاصلے پر رہائشی علاقے ہیں، جنہیں پہاڑی کی وجہ سے سڑکوں، پانی اور صاف ہوا کے مسائل کا سامنا ہے۔ یہاں ہر بار پارٹیاں وعدے کرتی ہیں لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہی داستان سناتی ہے۔

اس لینڈ فل سائٹ کے قریب بہت سی کچی بستیاں ہیں جہاں مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں اور کچرے کی بدبو اتنی ہے کہ آپ دو منٹ بھی ٹھیک سے کھڑے نہیں رہ سکتے۔ یہاں رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مجبوری میں یہاں رہ رہے ہیں، اور چونکہ ان میں سے بہت سے لوگوں کے پاس سرکاری دستاویز نہیں ہیں، اس لیے سرکاری مدد بھی ان تک نہیں پہنچ پاتی، جس کی وجہ سے ان کی زندگی مزید مشکل ہو گئی ہے۔ یہاں کے لوگ اکثر بیمار پڑ جاتے ہیں اور سرکاری ہسپتالوں میں بھی علاج کروانے کے لیےانہیں جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔

یہاں کے لوگوں کے پاس صاف پانی خریدنے کے پیسے نہیں ہیں، لوگ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ لوگ سانس لینے میں دشواری اور سینے میں درد کی شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں کی ہوا میں ہر وقت بدبو آتی ہے لیکن غریب کی کون سننے والا ہے۔ ہر کوئی الیکشن کے وقت صرف پیسے دینے کا وعدہ کرتا ہے، اس سے ووٹ خریدنا چاہتا ہے، لیکن یہاں رہنے والوں کے حالات بدلنے میں کسی کو دلچسپی نہیں۔

ویسے توقانون کے مطابق کسی بھی لینڈ فل سائٹ کے 200 میٹر کے اندر کوئی آبادی نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہاں زمین پر ایسا کوئی قانون نظر نہیں آتا۔ اس کے علاوہ پانی کی آلودگی اور فضائی آلودگی کو روکنے کے لیے ہندوستان میں سخت انتظامات ہیں، جو ان لینڈ فل سائٹس کے آس پاس ندارد ہیں۔

اوکھلا لینڈ فل سائٹ۔

اوکھلا لینڈ فل سائٹ۔

تیز ہوایا بارش میں صورتحال بدتر ہو جاتی ہے

پریم نگر اس لینڈ فل سائٹ کے قریب واقع ہے۔ یہاں رہنے والی آرتی کا کہنا ہے کہ کچرے کا یہ پہاڑ ان کے گھر کی چھت سے صاف نظر آتا ہے۔ ان کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ بدبو کا ہے جو یہاں رہنے والوں کو مسلسل پریشان کر رہا ہے۔ تیز ہوا یا بارش سے ایسی بدبو پیدا ہوتی ہے کہ آپ گھر کے اندر رہ سکتے ہیں نہ باہر۔

وہ کہتی ہیں کہ برسات کے موسم میں یہاں کے لوگ زیادہ بیمار پڑتے ہیں اور گلے میں انفیکشن ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سانس لینے میں بھی دقت ہوتی ہے۔ یہاں کے رہنے والے اپنے مسائل کونسلر سے لے کر ایم ایل اے اور ایم پی تک سب کو بتا چکے ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں ہے۔

اس لینڈ فل سائٹ کے ایک سے دو کلومیٹر کے اندر اوکھلا، لال چوک، پریم نگر، ای ایس آئی ہسپتال اور پرہلاد پور کے علاقے واقع ہیں، جہاں کے باشندے اسے ‘آفت کا پہاڑ’ کہتے ہیں۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو مزید زہریلی گیس بننے کا خدشہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے قریبی نشیبی علاقے جیسے پل پرہلاد پور، لال کنواں بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ بارش کے موسم میں یہاں ڈینگی، وائرل بخار اور دیگر بیماریوں کے معاملے اچانک بڑھ جاتے ہیں۔

okhla-3

لاجپت نگر میں کام کرنے والی سویتا لال کنواں کے قریب رہتی ہیں اور اپنے دفتر جانے کے لیے اس کچرے کے ڈھیر سے متصل اوکھلا روڈ کا استعمال کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ بارش کے موسم میں کچرا بہہ کر سڑکوں پر جمع ہو جاتا ہے، سڑکیں پانی سے بھر جاتی ہیں جس سے نہ صرف بدبو اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ گھنٹوں ٹریفک جام بھی رہتا ہے۔ یہ سفر جو عام دنوں میں 10 سے 15 منٹ کا ہوتا ہے، بارش کے موسم میں گھنٹوں لگتے ہیں۔

سویتا کہتی ہیں،’یہاں کی بدبو کی وجہ سے آپ نہ تو سیر کے لیے باہر جا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو اپنے گھر بلا سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ کب کچرے کے اس ڈھیر سے اچانک بدبو آنے لگے گی۔ کبھی کبھی آپ کو سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے؛ اگر آپ زیادہ دیر تک سڑک پر رہیں تو آپ کو سر میں درد ہونے لگتا ہے۔ ایسی حالت میں آپ کو اپنے گھر کے تمام دروازے اور کھڑکیاں ہر وقت بند رکھنی پڑتی ہیں۔’

تقریباً آٹھ سال سے یہاں کلینک چلا رہے ایک ہیلتھ پریکٹیشنر کہتے ہیں،’سب سے زیادہ  مریض بارش کے موسم میں دیکھے جاتے ہیں، جب یہاں پانی جمع ہو جاتا ہے اور مکھی- مچھر بھی زیادہ افزائش کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ سانس لینے میں دشواری، گلے میں انفیکشن اور دم گھٹنے جیسی شکایات کے ساتھ آتے ہیں۔ اب بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی ایسی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

اوکھلا لینڈ فل سائٹ۔

اوکھلا لینڈ فل سائٹ۔

کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا عمل ٹائم لائن سے بہت پیچھے ہے

اوکھلا لینڈ فل سائٹ کے بارے میں جنوری 2021 میں نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) میں سماعت کے دوران کارپوریشن نے کچرے کو مکمل طور پر ٹھکانے لگانے کے لیے ایک ٹائم لائن مقرر کی تھی۔ اس کے مطابق اوکھلا سائٹ سے دسمبر 2021 تک 25 فیصد، ستمبر 2022 تک 50 فیصد اور 2023 تک 100 فیصد کچرا ہٹا نے کی بات کہی گئی تھی ۔ تاہم بعد میں اس میں مزید توسیع کر دی گئی۔

کارپوریشن نے ستمبر 2023 میں بتایا کہ اس سے متعلق ٹینڈر کا عمل مکمل ہو چکا ہے، لیکن مستقل کمیٹی کی تشکیل نہ ہونے کی وجہ سے ٹینڈر الاٹ نہیں ہوسکا، جس کی وجہ سے اس کچرے کے پہاڑ کو مکمل طور پر صاف کرنے کی تاریخ کو  دو سال آگے بڑھا دیا گیا۔ پہلے اسے 2024 کے آخر تک صاف کرنے کی ڈیڈ لائن دی گئی اور پھر 2026 کے آخر تک اسے صاف کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا۔

قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں دہلی میونسپل کارپوریشن (ایم سی ڈی) اور مرکزی حکومت کو ملک کی راجدھانی دہلی میں روزانہ 3000 ٹن سے زیادہ ٹھوس کچرے کو ٹھکانے نہ لگانے پر پھٹکار لگائی تھی۔ سپریم کورٹ کے جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس اجول بھوئیاں کی بنچ نے ایم سی ڈی کے حلف نامہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہلی میں کیا ہو رہا ہے؟ ہم یہ حلف نامہ پڑھ کر حیران رہ گئے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسے صاف کرنے میں دسمبر 2027 تک کا وقت لگے گا۔ عدالت نے کہا کہ کچرے کا یہ ڈھیر 2027 تک رہے گا۔ یہ کیا ہے؟

اس پر سینئر ایڈوکیٹ اپراجیتا سنگھ، جو عدالت کی ایمیکس کیوری کی مدد کر رہی ہیں، نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ دہلی حکومت اور مرکز اس معاملے پر تال میل کے ساتھ کام نہیں کر رہے ہیں۔ اس پر عدالت نے مرکز سے اس مسئلہ پر توجہ دینے کو کہا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان کو ساتھ بٹھائیں گے۔ عدالت نے کہا کہ ہمیں کچھ سخت ہدایات جاری کرنے پر مجبور نہ کریں۔ ایسے معاملات سے سختی سے نمٹا جانا چاہیے۔

دی وائر کی ٹیم نے حال ہی میں اوکھلا لینڈ فل کا دورہ کیا تھا، جس کا ویڈیو آپ نیچے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔