‘انڈیا اگینسٹ کرپشن’ کی بے اُصولی سے قطع نطر اپنی فرقہ پرست سیاست کی ہوشیاری کا مظاہرہ عآپ نے گزشتہ 11 سالوں میں بارہا کیا۔ ہر بار کہا گیا کہ وہ اپنے آئیڈیل ازم یا مثالیت پسندی کی منکر ہے۔ لیکن آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ آئیڈیل ازم کیا تھا۔ پھر ہم کس آئیڈیل سیاست سے دھوکے پر ماتم کناں ہیں؟
آج وہی جماعت، جو کبھی انقلاب کا استعارہ سمجھی جاتی تھی، خود داستانِ عبرت بن چکی ہے۔
بی جے پی 27 سال بعد دہلی میں واپسی کر رہی ہے۔ عام آدمی پارٹی کی شکست کے پیچھے اینٹی انکمبنسی، وعدے پورے نہ کرنا، کانگریس سے اختلافات اور انڈیا الائنس کی ناکامی کو اہم وجہ تصور کیا جا رہا ہے۔
اس الیکشن میں شکست کے باوجود عآپ نے زیادہ تر مسلم اکثریتی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ تاہم، یہ واضح ہے کہ مسلم ووٹ کچھ حد تک عآپ سے الگ ہوگیا ہے، گزشتہ انتخابات میں ان 10 مسلم اکثریتی سیٹوں میں سے 9 سیٹیں عآپ کے پاس تھیں، جبکہ اس بار کے الیکشن میں عآپ صرف 7 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
انڈیا الائنس کے لیڈروں کی جانب سے اٹھائے گئے ان سوالوں کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ بھلے ہی کانگریس اپنا کھاتہ تک کھول نہیں پائی، لیکن پارٹی نے کہا کہ انتخابی نتائج وزیر اعظم مودی کی پالیسیوں کی توثیق نہیں بلکہ اروند کیجریوال اور عآپ پر ریفرنڈم ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھاری اکثریت سے جیت کے بعد حکمران جماعت عام آدمی پارٹی کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جبکہ کانگریس کے ہاتھ تیسری بار بھی خالی رہے اور اسے ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔
اپریل 2020 میں کووڈ کے دوران، دہلی حکومت نے فرنٹ لائن ورکرز کی موت پر متاثرہ خاندان کو ایک کروڑ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن پانچ سال بعد بھی 40 فیصد درخواست گزاروں کو یہ رقم نہیں ملی ہے۔ 154 منظور شدہ درخواست دہندگان میں سے صرف 92 خاندانوں کو ادائیگی کی گئی ہے۔
سیاسی جماعتیں خواتین کو کوئی نہ کوئی لالچ دے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے اس الیکشن کا سب سے بڑا مسئلہ صرف یہی ہے کہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ مالی فائدے کیسے دیے جائیں، وہیں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ دہلی کی خطرناک حد تک آلودہ فضا کسی کو یاد ہی نہیں ہے۔
دہلی کے اسمبلی حلقوں میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان عام آدمی پارٹی کو صرف اس لیے ووٹ کر رہے ہیں کہ وہ اسے بی جے پی کے مقابلے واحد متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں؟ یا پھراروند کیجریوال کے کام سے مطمئن ہیں؟ یا پھر یہ کہ شمال-مشرقی دہلی کے رائے دہندگان کے لیے 2020 کا دنگا اب بھی انتخابی ایشو ہے؟
ہری نگر اسمبلی سیٹ پر عآپ اور بی جے پی کے امیدوار وی ایچ پی کے ‘شستر دکشا پروگرام’ میں ایک ساتھ شریک ہوئے۔ دونوں نے پوجا کی اور جئے شری رام کے نعرے لگائے۔ وی ایچ پی نے اس پروگرام میں 2100 ہتھیار تقسیم کرنے کی بات کہی۔
سپریم کورٹ نے حال ہی میں دہلی میونسپل کارپوریشن اور مرکزی حکومت کو دہلی میں روزانہ 3000 ٹن سے زیادہ ٹھوس کچرے کو ٹھکانے نہ لگانے پر پھٹکار لگائی تھی اور مرکز اور دہلی حکومت کو کچرے کو ٹھکانے لگانے کے سلسلے میں مل کر کام کرنے کو کہا تھا۔ لیکن یہ مسئلہ برسوں سے انتخابی سیاست کا شکار ہے۔
فیک نیوز راؤنڈ اپ:عام آدمی پارٹی نے جس وقت امیدواروں کی اصل فہرست عام کی تو ان کا فرض تھا کہ بی جی پی کے فرقہ وارانہ موقف کے خلاف اتنا ضرور لکھ دیتے کہ اگر کسی بھی سیاسی جماعت کے امید واروں کی فہرست میں اکثریت مسلمانوں کی ہے تو اس میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ اور اس کو پاکستان یا افغانستان سے جوڑنا غلط اور آئین کے خلاف ہے۔
اتر پردیش کے سابق ڈی جی پی نے کہا ہے کہ یہ فیک نیوز کاوقت ہے، جس سے تشدد،فساد اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح کے حالات کوالیکشن کمیشن کے ذریعے قابو میں کیا جا سکتا ہے۔
دہلی کے ماڈل ٹاؤن اسمبلی حلقہ سے بی جے پی امیدوار کپل مشرا نے 8 فروری کو ہونے والے اسمبلی انتخاب کو ہندوستان بنام پاکستان کامقابلہ بتاکرایک ٹوئٹ کیا تھا۔ ٹوئٹر نے الیکشن کمیشن کی ہدایت کے بعد یہ متنازعہ ٹوئٹ ہٹا دیا ہے۔
شیرومنی اکالی دل کے رہنمااور راجوری گارڈن سے ایم ایل اے منجندر سنگھ سرسا نے کہا کہ شیرومنی اکالی دل کی پرزوررائے ہے کہ مسلمانوں کو شہریت ترمیم قانون سے الگ نہیں رکھا جا سکتا۔ ہم این آر سی کے بھی شدید خلاف ہیں۔
عام آدمی پارٹی نے اگلے مہینے ہونے والے دہلی اسمبلی الیکشن کے لیے جاری فہرست میں 15 موجودہ ایم ایل اے کے ٹکٹ کاٹ دیے ہیں۔ 2015 میں چھ خواتین کو ٹکٹ دینے والی عآپ نے اس بار 8 خاتون کو ٹکٹ دیا ہے۔
عام آدمی پارٹی کے ذریعے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کیا گیا تھا، جس میں دہلی بی جے پی صدر منوج تیواری عآپ کے تشہیری نغمہ پر ڈانس کرتے نظر آ رہے ہیں۔ تیواری نے کہا کہ ویڈیو کے بارے میں الیکشن کمیشن سے شکایت کی گئی ہے۔
ویڈیو: راجیہ سبھا ایم پی اور عام آدمی پارٹی کے قومی ترجمان سنجے سنگھ سے دی وائر کے گورو وویک بھٹناگرکی بات چیت۔
دہلی اسمبلی انتخاب کے لیے پرچہ نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ21 جنوری ہے، پرچہ کی جانچ 22 جنوری کو ہوگی اور اس کو واپس لینے کی آخری تاریخ 24 جنوری ہے۔