مونی اماوسیہ کے موقع پر مہا کمبھ میں جو حادثہ پیش آیا، اس کے لیے انسانی بھول اور بھیڑ پر قابو پانے میں ناکامی کو یقیناً ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ اب چوں کہ حکومت اتنی بڑی بھیڑ جمع کرنے کا کریڈٹ لے رہی تھی، تو اسے اس سانحے کے بدنما داغ کو بھی اپنے سر ماتھے پر قبول کرنا ہی چاہیے۔
مونی اماوسیہ کے موقع پر مہا کمبھ میں جس بات کا ڈر تھاآخر وہی ہوا۔اتنے عقیدت مندوں کی موت اور اس سے کہیں زیادہ لوگوں کا زخمی ہوجانا ہی انتہائی افسوسناک ہے، لیکن اس بے تحاشہ اوربے قابو ہجوم میں اور بھی زیادہ خوفناک صورتحال پیدا ہو سکتی تھی۔ اس حادثے کے لیے انسانی بھول اور ہجوم پر قابو پانے میں ناکامی کو یقیناً ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔
حکومت چونکہ اتنی بڑی بھیڑ جمع کرنے کا کریڈٹ لے رہی تھی، اس لیے اسے اس سانحے کے بدنما داغ کو بھی اپنے سر ماتھے پرقبول کرنا ہی چاہیے۔سرکار اور اس کی مشینری کو براہ راست اس حادثے کے لیےذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ لیکن اس حادثے کے پیچھے ایک اور اہم وجہ ہے جس پر کبھی سوال نہیں کیا جاتا۔
دراصل، اس کے پس پردہ مذہبی تقریبات میں زیادہ سے زیادہ بھیڑ جمع کرکے کریڈٹ لینے کی مقابلہ آرائی بھی ہے۔ جتنا بڑا ہجوم ہوتا ہے، اس تقریب کی اہمیت اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے مذہبی تقریبات میں بار بار حادثات رونما ہوتے ہیں، لیکن بھیڑ کی کشش کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جاتی ہے۔
ابھی کچھ وقت پہلے تروپتی میں بھی توبھگدڑ مچ گئی تھی۔ پچھلے ہی سال اتر پردیش کے ہاتھرس میں ایک مذہبی اجتماع میں بھگدڑ مچنے سے 121 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس سے بھی پہلےویشنو دیوی کاحادثہ ہو چکا تھا۔
مہا کمبھ میں تو بھگدڑ کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اس سے پہلے 1840، 1906، 1954، 1986، 2003، 2010 اور 2013 کے کمبھ میں بھگدڑ کی تاریخ کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
سن 1954میں الہ آباد مہا کمبھ کی بھگدڑ میں ہلاک ہونے والوں کی صحیح تعداد سامنے نہیں آئی۔ کچھ لوگوں نے ہلاکتوں کی تعداد 350 بتائی تو کچھ نے 800ہلاکتوں کا اندازہ لگایا تھا۔ پھر بھی کمبھ کی معلوم تاریخ میں بھگدڑ کا اسے سب سے بڑا حادثہ خیال کیا جاتا ہے۔ ہری دوار میں 2010 کے کمبھ حادثے کو ریاستی حکومت نےبھگدڑ ماننے سے انکار کر دیا تھا اور صرف 7 لوگوں کے مارے جانے کی بات کہی تھی۔ لیکن کمبھ کے بعد گنگا ندی کے بیراج پر تین درجن سے زیادہ لاشیں پھنسی ہوئی ملی تھیں۔ تاہم، یہ ضروری نہیں کہ تمام لاشیں بھگدڑ میں ہلاک ہونے والوں کی ہی رہی ہوں۔
مہا کمبھ میں بھگدڑ کے حادثے کی وجوہات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور چند دنوں کے بعد سرکاری طور پر وجوہات سامنے آئیں گی۔ لیکن خود اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ حادثے کی اصل وجہ زیادہ بھیڑ تھی۔ اس سے قبل حکومت کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا کہ زمین پر ہونے والے اس میگا ایونٹ میں 45 کروڑ سے زیادہ عقیدت مندوں کے پہنچنے کی امید ہے۔ ہر روز نہانے والوں کی تعداد کے اعدادوشمار کو بھی سرکاری طور پر مشتہرکیا جاتا رہا اور ریاستی حکومت لامحدود بھیڑ کی آمد سے خوش ہوتی رہی۔ جبکہ دو مہینوں کے اندر ایک چھوٹی سی جگہ پر 45 کروڑ لوگوں کا جمع ہونا بڑے خطرے کی بات تھی اور اس کے لیے بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لیے پہلے سے ہی پختہ انتظامات کیے جانے چاہیے تھے۔
(تصویر بہ شکریہ: X/@MahaKumbh_2025)
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مہا کمبھ میں بڑی تعداد میں عقیدت مندوں کے جمع ہونے کے امکان کو مدنظر رکھتے ہوئے اتر پردیش حکومت نے بڑے پیمانے پر تیاریاں کی تھیں۔ میلے کا رقبہ تقریباً 40 مربع کلومیٹر تک پھیلا دیا گیا ہے اور اسے 25 سیکٹرز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر سیکٹر میں رہائش، سڑکیں، بجلی، پانی کی فراہمی اور کمیونی کیشن ٹاور جیسی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ یہ توسیع 2019 کے کمبھ سے 800 ہیکٹر زیادہ ہے، جو اس تقریب کے پیمانے کی نشاندہی کرتی ہے۔دراصل میلے کے علاقے کو جتنا چاہو اتنا پھیلا دو، لیکن نہانے کے گھاٹ یا گنگا کنارے کی لمبائی تو گنگا ندی کی لمبائی تک ہی محدود رہےگی۔
اس کے علاوہ لوگ اپنی مذہبی اہمیت کی وجہ سے صرف مخصوص گھاٹوں پر ہی نہانا چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض جگہوں پر بھیڑ کا دباؤ اور بھی ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ اس لیے ان گھاٹوں کی گنجائش کے مطابق بھیڑ کا انتظام کیا جانا چاہیے تھا۔ اگرچہ ہری دوار میں لوگ ‘ہر کی پوڑی’ میں نہانے کی خواہش رکھتے ہیں،پھر بھی وہاں سنگم نہیں ہے اور گنگا کا کنارہ اتنا لمبا ہے کہ لوگ کہیں بھی نہا سکتے ہیں۔
ہری دوار مہا کمبھ میں بھی کئی کلومیٹرتک الکنندا اور بھاگیرتھی کے سنگم دیوپریاگ تک کو کمبھ علاقہ قرار دیا گیا ہے، لیکن غسل صرف ہری دوار کے گھاٹوں پر ہی ہوتا ہے۔
سائنس اور ٹکنالوجی کے اس دور میں بھی ایک ہی جگہ پرچلتے ہوئےکروڑوں انسانی سروں کو درست طریقے سے شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے باوجود جمع ہونے والے کروڑوں لوگوں کی گنتی کے اعداد و شمار جاری کیے جاتے ہیں۔ ایسا نہ صرف الہ آباد میں ہوتا ہے بلکہ ہری دوار، ناسک اور اجین کے کمبھوں میں بھی اعداد و شمار جاری کیے جاتے ہیں۔ 2010 کے ہری دوار مہا کمبھ میں اتراکھنڈ حکومت نے اپنے اسپیس ایپلی کیشن سینٹر کے ذریعے سیٹلائٹ امیجری کا استعمال کرتے ہوئے گنتی کی تھی اور گنگا گھاٹوں پر نہانے والے 9 کروڑ لوگوں کا اعداد و شمار جاری کیا تھا۔
درحقیقت، حکومتیں بھیڑ میں اضافے کو اپنی کامیابی کا پیمانہ سمجھتی ہیں۔ صرف کمبھ ہی کیوں، اتراکھنڈ کی چاردھام یاترا کے دوران بھیڑ جمع ہونے کی بھی یہی کہانی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2000 میں چار دھام یاترا پر کل 1292411 یاتری آئے تھے، جن کی تعداد 2024 میں 4544975 تک پہنچ گئی تھی۔ حکومتیں یاتریوں کی تعداد میں اس بڑے اضافے کو اپنی کامیابی سمجھ رہی ہیں۔ جبکہ حکومت اپنے تمام تر وسائل لگانے کے باوجود اتنی بڑی بھیڑ کو صحیح طریقے سے سنبھال نہیں سکتی اور ماحولیاتی نقصان کا حساب تو کسی شمار میں ہی نہیں ہے۔
تاہم، حکومتیں اپنی بھاری بھرکم مشینری کے ذریعے بڑی حد تک ہجوم کو کنٹرول کرتی ہیں۔ لیکن مذہبی اداروں کے لیے اتنے بڑے ہجوم کا انتظام کرنا آسان نہیں ہوتا اور وہ اب بھی لوگوں کی تعداد میں دوگنا اور چوگنا اضافہ ہونے کی توقع رکھتے ہیں، چاہے ان کے پاس وسائل ہوں یا نہ ہوں۔ جتنی زیادہ بھیڑ آتی ہے، اس مذہبی مقام کی عظمت اور شہرت اتنی ہی زیادہ مشتہر کی جاتی ہے تاکہ اگلی بار اور زیادہ ہجوم جمع ہو سکے اور ریونیو بھی اکٹھا ہو سکے۔
مشہور مذہبی مقامات کے علاوہ سنت مہاتما، روحانی گرو بھی اپنے خطبات اور سنتوں کے اجتماعات کے لیے بھیڑ جمع کرتے ہیں۔ پچھلے ہی سال، ہاتھرس میں بھولے بابا کے مذہبی اجتماع میں بھگدڑ میں 121 عقیدت مندوں کی جانیں گئیں۔ اسی طرح کی بھگدڑ 9 نومبر 2011 کو ہری دوار کے شانتی کنج میں ہونے والے اجتماع میں ہوئی تھی۔
(جئے سنگھ راوت آزاد صحافی ہیں۔)