خاص خبر

مرکزی حکومت کا 2025-26 کا بجٹ: متوسط ​​طبقے کو انکم ٹیکس میں راحت، بہار کے لیے خصوصی اعلانات

مرکزی حکومت نے 2025-26 کا بجٹ پیش کیا، جس میں متوسط طبقے کے لیے انکم ٹیکس میں راحت کا اعلان کیا گیا۔ اب 12 لاکھ روپے تک کی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں لگے گا۔ اس کے علاوہ بہار کے لیے مکھانہ بورڈ، فوڈ ٹکنالوجی انسٹی ٹیوٹ اور آئی آئی ٹی پٹنہ کی توسیع جیسے خصوصی اعلانات کیے گئے ہیں۔

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن بجٹ پیش کرنے جا تی ہوئیں۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن بجٹ پیش کرنے جا تی ہوئیں۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے سنیچر (1 فروری 2025) کو مالی سال 2025-26 کا بجٹ پیش کیا، جس میں متوسط طبقے اور ٹیکس دہندگان کے لیے بڑی راحت کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے اپنی بجٹ تقریر میں اعلان کیا کہ اب 12 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدنی والے افراد کو کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ٹیکس سلیب میں بھی بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

اپنی بجٹ تقریر میں، سیتا رمن نے کہا ، ‘نیا ڈھانچہ متوسط طبقے پر ٹیکسوں میں نمایاں کمی کرے گا اور ان کے ہاتھ میں زیادہ پیسہ چھوڑے گا، جس کے باعث گھریلو کھپت ، بچت اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔’

انکم ٹیکس میں راحت

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے انکم ٹیکس چھوٹ کی حد 7 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے کر دی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی شخص کی آمدنی 12 لاکھ روپے تک ہے تو اسے کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑے گا۔ لیکن کیا اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ 15 لاکھ روپے کمانے والوں کو صرف 3 لاکھ روپے پر ہی ٹیکس دینا پڑے گا؟

جواب ہے – نہیں، یہ چھوٹ صرف ان لوگوں پر لاگو ہے جن کی آمدنی 12 لاکھ روپے تک ہے۔ اگر آپ کی قابل ٹیکس آمدنی 12 لاکھ روپے سے ایک روپیہ بھی  زیادہ ہے تو آپ کو نئے ٹیکس نظام کے تحت سلیب کی شرح کے مطابق ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

نیا ٹیکس سلیب (مالی سال 2025-26)


زیرو(0) فیصد ٹیکس کی شرح: 0 سے 4 لاکھ روپے کی سالانہ آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔

پانچ (5)فیصد ٹیکس کی شرح: 4 لاکھ سے 8 لاکھ روپے تک کی  سالانہ آمدنی۔

دس (10)فیصد ٹیکس کی شرح: 8 لاکھ سے 12 لاکھ روپے تک کی  سالانہ آمدنی۔

پندرہ (15)فیصد ٹیکس کی شرح: 12 لاکھ سے 16 لاکھ روپے تک کی  سالانہ آمدنی۔

بیس (20) فیصد ٹیکس کی شرح: 16 لاکھ سے 20 لاکھ روپےتک کی  سالانہ آمدنی۔

پچیس (25) فیصد ٹیکس کی شرح: 20 لاکھ سے 24 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدنی۔

تیس (30)فیصد ٹیکس کی شرح: 24 لاکھ روپے سے زیادہ  کی سالانہ آمدنی۔


انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے، اگر آپ کی قابل ٹیکس آمدنی، 12.1 لاکھ روپے ہے، تو آپ کو ٹیکس کے طور پر 61500 روپے ادا کرنے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ، اگر آپ کی آمدنی 12 لاکھ روپے سے زیادہ ہے، تو آپ کو 4 لاکھ سے 8 لاکھ روپے کے درمیان کی آمدنی پر 5 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا؛ 8 لاکھ سے 12 لاکھ روپے کے درمیان کی آمدنی پر 10 فیصد ٹیکس لگے گا؛ اور 12 لاکھ سے 16 لاکھ روپے کے درمیان آمدنی پر 15 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ اس طرح 15 لاکھ روپے کمانے والے شخص کو 105000 روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

وزیر خزانہ کے مطابق ، ان تجاویز کے نتیجے میں، حکومت 1 ٹریلین کے براہ راست ٹیکسوں اور 2600 کروڑ روپے کے بالواسطہ ٹیکسوں کی ریونیو میں  ریلیف دے گی ۔ وزیر خزانہ نے پرانے ٹیکس سسٹم میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔

‘بہار اسپیشل’ بجٹ

بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کریم رنگ کی ساڑی پہنی تھی،جس پر بہار کے مدھوبنی آرٹ کی مچھلی کی شکل کی پرنٹنگ تھی۔ میڈیا رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ساڑی انہیں بہار کی ایک آرٹسٹ دلاری دیوی نے تحفے میں دی تھی اور  بجٹ والے دن اسے پہننے کی درخواست کی تھی۔

اس سال کے آخر میں بہار میں انتخابات ہیں۔ بی جے پی کی قیادت والی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) آر جے ڈی کی قیادت والے مہاگٹھ بندھن کو شکست دے کر ریاست  میں جیت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ آر جے ڈی کا اصل ہدف این ڈی اے حکومت کا نظام حکمرانی اور بے روزگاری کا مسئلہ رہا ہے ۔

مرکزی حکومت نے بجٹ 2025 میں بہار کے لیے کچھ خاص اعلانات کیے ہیں:

مکھانہ بورڈ: حکومت نے بہار میں مکھانہ   کی پیداوار، پروسیسنگ، ویلیو ایڈیشن اور مارکیٹنگ کو بہتر بنانے کے لیے مکھانہ بورڈ کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ یہ بورڈ مکھانہ کے کسانوں کو تربیت اور مدد فراہم کرے گا۔ ہندوستان  میں مکھانہ کی پیداوار میں بہار کا حصہ 85-90فیصد ہے اور اس اقدام سے شمالی بہار کے اضلاع جیسے دربھنگہ، مدھوبنی، سیتامڑھی، سمستی پور، پورنیہ اور کٹیہار کے کسانوں کو فائدہ پہنچے گا۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ ٹکنالوجی: نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ ٹکنالوجی، انٹرپرینیورشپ اینڈ مینجمنٹ بہار میں قائم کیا جائے گا، جو ریاست میں فوڈ پروسیسنگ کی سرگرمیوں کو فروغ دے گا۔ اس سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور نوجوانوں کے لیے روزگار اور کاروبار کے مواقع پیدا ہوں گے۔

آئی آئی ٹی  پٹنہ کی توسیع: وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی آئی ٹی پٹنہ میں ہاسٹل اور دیگر انفراسٹرکچر کو بڑھایا جائے گا تاکہ زیادہ سے زیادہ طلباء تعلیم حاصل کر سکیں۔

نئے ہوائی اڈے: بہار میں گرین فیلڈ ہوائی اڈے بنائے جائیں گے اور پٹنہ ہوائی اڈے کی توسیع کی جائے گی۔ اس کے علاوہ پٹنہ ضلع کے بہٹہ میں ایک براؤن فیلڈ ہوائی اڈہ بھی بنایا جائے گا۔

مغربی کوشی کینال پروجیکٹ: وزیر نے کہا کہ مغربی کوشی کینال پروجیکٹ کے لیے مالی مدد فراہم کی جائے گی، جس سے متھلانچل کے خطے میں 50000 ہیکٹر سے زیادہ اراضی کے مالک کسانوں کو فائدہ پہنچے گا۔

بھارتیہ بھاشا پُستک میلا یوجنا: یہ اسکیم اسکولوں اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ہندوستانی زبانوں میں ڈیجیٹل کتابیں تقسیم کرے گی۔

نیشنل سینٹر آف ایکسی لینس: مہارت اور عالمی مہارت کو فروغ دینے کے لیے بہار اور دیگر چار ریاستوں میں نیشنل سینٹر آف ایکسی لینس قائم کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں میں 50000 نئی اٹل ٹنکرنگ لیبز قائم کی جائیں گی۔

بہار کے نائب وزیر اعلیٰ اور بی جے پی لیڈر سمراٹ چودھری نے اعلانات کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ‘تاریخی بجٹ’ قرار دیا اور کہا کہ یہ بہار کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت ریاست کی ترقی کو لے کر سنجیدہ ہے اور وزیر خزانہ نے کئی اسکیموں کا اعلان کیا ہے۔

آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے بجٹ کو ‘غریبوں اور دیہاتوں کے خلاف’ قرار دیا اور پوچھا کہ بہار کو خصوصی درجہ کیوں نہیں ملا اور خصوصی پیکیج سے بہار کو اب تک کیا فائدہ ہوا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ بہار میں اس سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔

اپوزیشن نے تنقید کی

اپوزیشن نے مرکزی بجٹ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے اس سال کے آخر میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ اعلان کردہ انکم ٹیکس میں کٹوتیوں کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے اپوزیشن نے اسے دہلی کے ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے، جو 5 فروری کو ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں۔

راشٹریہ جنتا دل کے ایم پی منوج جھا نے کہا کہ وزیر خزانہ نے انکم ٹیکس میں کٹوتی کا اعلان کیا، لیکن یہ بھی کہا کہ حکومت اگلے ہفتے نیا انکم ٹیکس بل لائے گی۔ ‘اعلانات میں جو”اگرمگر” ہیں، وہ ابھی تک واضح نہیں ہیں۔ اگلے ہفتے انکم ٹیکس کا نیا بل لانے کی وجہ یہ ہے کہ تب تک دہلی کے انتخابات ختم ہو جائیں گے’، منوج جھا نے کہا۔

ڈی ایم کے کے ایم پی دیاندھی مارن نے بجٹ کو ملک کے لیے ’’بڑی مایوسی‘‘ قرار دیا۔

سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے کہا، ‘حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ عالمی معیار کا بنیادی ڈھانچہ بنائے گی، لیکن ہمارے شہروں کی حالت دیکھیے، وہ بھیڑ سے دوچار ہیں۔ یہ بجٹ محض اعداد و شمار کا جال ہے جس کا مقصد عام آدمی کو دھوکہ دینا ہے۔’ یادو نے  وارانسی، پریاگ راج اور ایودھیا کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ان تینوں مقدس شہروں میں دباؤ کو کم کرنے اور بھیڑ کو سنبھالنے کے لیے کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے۔

ترنمول کانگریس کے قومی جنرل سکریٹری اور رکن پارلیامنٹ ابھیشیک بنرجی نے کہا کہ وزیر خزانہ نے صرف بہار پر توجہ دی۔ مغربی بنگال کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ‘مرکزی بجٹ میں بنگال کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ہمارے (ٹی ایم سی) ممبران پارلیامنٹ نے مرکزی پروجیکٹوں کے لیے فنڈ مختص کرنے میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم نے بنگال کے لیے نئے پروجیکٹوں کا مطالبہ کیا ہے، لیکن ریاست کو نظر انداز کیا گیا ہے’ بنرجی نے کہا۔

سی پی آئی کے راجیہ سبھا کے رکن سندوش کمار نے کہا کہ بجٹ نےمعیشت کے ڈھانچہ جاتی مسائل کو مخاطب کرنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا،جیسے دیہی بحران، جمود کا شکار زراعت اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری۔ انہوں نے کہا کہ بالواسطہ ٹیکسوں پر حد سے زیادہ انحصار بھی تشویشناک ہے۔

ایک بیان میں، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے پولٹ بیورو نے کہا کہ آبادی کی اکثریت کی گرتی ہوئی قوت خرید  کی بنیادی وجہ ،جیسے بے روزگاری اور گرتی اجرتوں کی پر توجہ دینے کے بجائے مودی حکومت معیشت کو چھوٹی اقلیت اعلیٰ آمدنی والے طبقے کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔