خبریں

یوپی: کشی نگر میں تجاوزات کے الزام کے بعد مسجد کا ایک حصہ بلڈوزر سے گرایا گیا

کشی نگرضلع کے ہاٹا قصبے کی مدنی مسجد کے ایک حصے کو تجاوزات قرار دیے جانے کا الزام تھا۔ سنیچر کو عدالت کا اسٹے آرڈرختم ہونے کے بعد اتوار کو اسے توڑ دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے ایک وکیل نے کشی نگر کے ڈی ایم کو قانونی نوٹ بھیجتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی  سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔

ہاٹا قصبہ میں واقع مدنی مسجد کے ایک حصے کو بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکاروں اور اعلیٰ حکام کی موجودگی میں منہدم کر دیا گیا۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@ghulamabbasshah)

ہاٹا قصبہ میں واقع مدنی مسجد کے ایک حصے کو بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکاروں اور اعلیٰ حکام کی موجودگی میں منہدم کر دیا گیا۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@ghulamabbasshah)

نئی دہلی: اترپردیش کے کشی نگر ضلع میں انتظامیہ نے اتوار (9 فروری) کو ایک مسجد کے ایک حصے کو بلڈوزر سے منہدم کردیا۔ الزام ہے کہ اسے سرکاری زمین پر تعمیر کیا گیا تھا۔

ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق، سرکاری حکام کے مطابق، ضلع کے ہاٹا قصبےمیں واقع مدنی مسجد کے ‘متجاوز’ حصے کو بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکاروں اور اعلیٰ حکام کی موجودگی میں مسمار کرنے کے لیے چھ بلڈوزر استعمال کیے گئے۔

بتایا گیا ہے کہ بی جے پی کارکن رام بچن سنگھ نے چیف منسٹر کے پورٹل پر شکایت کی تھی کہ مدنی مسجد سرکاری زمین پر قبضہ کرکے تعمیر کی گئی ہے اور انہوں نے اس کے سروے کا مطالبہ کیا تھا۔ بعد میں مسجد انتظامیہ نے الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور مسجد کے متجاوز حصے کو مسمار کرنے پر روک لگا دی گئی۔ پابندی سنیچر تک تھی۔

مسجد کے نگراں نے بتایا کہ مسلم کمیونٹی نے مسجد کی تعمیر کے لیے تقریباً 15 سال قبل 32 ا ڈیسیمل زمین خریدی تھی۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مسجدکی طرف سے کوئی تجاوزات نہیں تھا اور مسجد 30 ڈیسیمل زمین  پر تعمیر کی گئی تھی۔ عدالت کا اسٹے آرڈر ختم ہونے کے صرف ایک دن بعد اتوار کی صبح 10 بجے توڑپھوڑ شروع ہوئی۔ سی او کندن سنگھ اور ایس ڈی ایم یوگیشور سنگھ کی قیادت میں افسران بھاری پولیس فورس کے ساتھ صبح سویرے موقع پر پہنچے تھے۔

خبروں کے مطابق، رام بچن سنگھ نے مبینہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف پہلی شکایت 1999 میں درج کرائی تھی، لیکن اس وقت کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ دسمبر 2023 میں جب جانچ شروع کی گئی تو معاملہ پھر سے سرخیوں میں آیا۔ تحقیقات کے بعد میونسپل انتظامیہ نے 23 دسمبر کو مسجد کمیٹی کو تین نوٹس جاری کرکے قانونی دستاویزات طلب کیں، لیکن کوئی بھی درست دستاویزات پیش نہیں کی گئیں۔ جس کے نتیجے میں مسجد کی عمارت کے ایک حصے کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا۔

مسجد کمیٹی نے اسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور 8 فروری تک اسٹے آرڈر حاصل کیا۔ تاہم، جیسے ہی 9 فروری کو اسٹے آرڈر ختم ہوا، حکام نے فوراً مسمار کرنے کی مہم شروع کر دی۔

شکایت کنندہ رام بچن سنگھ بی جے پی کے کارکن ہیں

مقامی خبروں کے مطابق، موقع پر پہنچے ایڈوکیٹ شفیع اللہ خان نے بتایا کہ بی جے پی کارکن رام بچن سنگھ کی شکایت پر مسجد کو مسمار کیا گیا۔ سنگھ پہلے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ہندو یوا واہنی سے وابستہ تھے۔ ہندو واہنی کی تحلیل کے بعد سنگھ بی جے پی میں شامل ہو گئے۔

خان نے کہا کہ بی جے پی کارکن کی شکایت پر عمارت کو گرانا شکوک وشبہات کو جنم دیتاہے۔ انہوں نے کہا کہ سنگھ کے پاس مسجد کے قریب کہیں بھی کوئی زمین نہیں ہے اس لیے انہیں مسجد میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔

انہوں نے سوال کیا،’کیا انتظامیہ کسی کے گھر یا عبادت گاہ کو صرف اس لیے گرا سکتی ہے کہ بی جے پی کے ایک کارکن نے اس کے خلاف شکایت کی ہے؟’

میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے خان نے کہا کہ مسجد کے منصوبے کی منظوری پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔

انہوں نے کہا، ‘ہم نے الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور عدالت نے اس سلسلے میں مقامی میونسپلٹی کے حکم کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس کے بعد مسجد تعمیر ہوئی اور یہ بالکل قانونی تھی۔ اس لیے انتظامیہ کو اسے غیر قانونی کہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مسجد غیر قانونی نہیں تھی۔ یہ تجاوزات کرکے نہیں بنائی گئی تھی۔’

انہوں نے بتایا کہ ایس ڈی ایم نے پہلے زمین کا سروے کیا تھا اور اس بات کی تصدیق کی تھی کہ مسجد کی طرف سے کوئی تجاوزات نہیں ہیں۔ اس لیے انہدامی کارروائی غیر منصفانہ اور سمجھ سے بالاتر ہے۔

خان نے کہا کہ ایس ڈی ایم کے سروے کے مطابق مسجد کے پاس 0.33 ہیکٹر اراضی ہے جبکہ تعمیر صرف 0.29 ہیکٹر پر ہوئی ہے۔ خان نے کہا، ‘دستاویزات یا زمین پر کوئی تجاوزات نہیں ملی اور نہ ہی مسجد یا کسی اور نے کسی سرکاری یا نجی زمین پر ناجائز قبضہ کیا تھا۔’

ڈی ایم کو نوٹس

اس دوران، سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ عبدالقادر عباسی نے کشی نگر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو مسجد کے انہدام کے خلاف قانونی نوٹس بھیجا ہے۔

نوٹس میں کہا گیا کہ مسجد کو مسمار کرنا سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی اور آئین کی طرف سے دی گئی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔

نوٹس میں ایڈووکیٹ عباسی نے مسجد کی مسماری کو فوری طور پر روکنے، مسجد کے تحفظ کو یقینی بنانے اور کسی بھی قسم کی مسماری کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر مسماری جاری رہی تو سپریم کورٹ کی توہین پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔