خبریں

سری نگر: پولیس نے کتاب کی دکانوں پر چھاپے ماری کے دوران جماعت اسلامی سے متعلق لٹریچر ضبط کیا

جموں و کشمیر پولیس نے سری نگر میں کچھ دکانوں سے کالعدم جماعت اسلامی تنظیم سے متعلق 668 کتابیں ضبط کی ہیں۔ پی ڈی پی کی التجا مفتی نے کہا کہ یہ پڑھنے کی آزادی پر حملہ ہے۔ وہیں، نیشنل کانفرنس کے ایم پی آغا سید روح اللہ مہدی نے اسے لوگوں کے’مذہبی معاملات’ میں مداخلت قرار دیا ہے۔

(السٹریشن  بہ شکریہ: پکسابے)

(السٹریشن  بہ شکریہ: پکسابے)

سری نگر: نئی دہلی میں شائع ہونے والی اور کالعدم جماعت اسلامی تنظیم سے متعلق سینکڑوں کتابیں جموں و کشمیر پولیس نے سری نگر کی کچھ دکانوں سے ضبط کی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، اس حوالے سے حکام نے جمعہ (14 فروری) کوجانکاری دی۔

سری نگر ضلع پولیس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس  پر ایک پوسٹ میں کہا؛’ممنوعہ تنظیم کے نظریے کو فروغ دینے والے لٹریچر کی خفیہ فروخت اور تقسیم کے حوالے سے مصدقہ انٹلی جنس کی بنیاد پرپولیس نے سری نگر میں تلاشی مہم چلائی اور 668 کتابیں ضبط کیں۔بی این ایس ایس کی دفعہ 126 کے تحت قانونی کارروائی شروع کی گئی ہے۔’

معلوم ہو کہ انڈین سول سیکورٹی کوڈ (بی این ایس ایس )، 2023 کی دفعہ 126 کے تحت، ایک ایگزیکٹو مجسٹریٹ کسی شخص کو یہ وجہ بتانے کو کہہ سکتا ہے کہ اسے ایک سال سے زیادہ کی مدت کے لیے امن برقرار رکھنے کے لیے بانڈ یا ضمانتی بانڈ پر عملدرآمد کرنے کا حکم کیوں نہ دیا جانا چاہیے، جوبھی مجسٹریٹ مناسب سمجھے۔

سری نگر کے سب سے بڑے بازار لال چوک میں ایک بک شاپ کے مالک نے دی وائر کو بتایا کہ جمعرات کی دو پہر تقریباً ساڑھے تین بجے پولیس والوں کا ایک گروپ دکان پر آیا۔

اسٹور کے مالک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا،’انہوں نے ہمارے پاس موجود کتابوں کی نوعیت  کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ کچھ کتابوں پر پابندی ہے۔ بعد میں انہوں نے مودودی اور اصلاحی کی کچھ کتابیں ضبط کر لیں۔’

بتادیں کہ پاکستان کے ایک اسلامی اسکالر اور مؤرخ ابوالاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی تھی جس کا جموں و کشمیر باب 1952 میں قائم کیا گیا تھا۔ امین احسن اصلاحی بھی ایک پاکستانی مسلم اسکالر اور جماعت کے بانی رکن تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ سری نگر میں پولیس کے ذریعے ضبط کی گئی زیادہ تر کتابیں ایم ایم آئی پبلشرز کی طرف سے شائع کی گئی ہیں، جو دہلی میں واقع مذہبی کتابوں کا پبلشر ہےاور 1948 میں اس کوقائم کیا گیا تھا۔

پولیس کے ذریعےضبط کی گئی کچھ کتابوں میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر کا لٹریچر بھی شامل ہے، جس پر بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت نے 28 فروری 2019 کو انسداد دہشت گردی قانون کی دفعات کے تحت پابندی لگا دی تھی۔

قابل ذکر ہے کہ اس تنظیم پر پانچ سال کی پابندی پلوامہ دہشت گردانہ حملے،جس میں 14 فروری 2019 کو کم از کم چار درجن فوجی مارے گئے تھے، کے پندرہ دن بعد لگائی گئی تھی۔

گزشتہ سال، مرکزی حکومت نے جماعت اسلامی جموں و کشمیر پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت پابندی کو مزید پانچ سال کے لیے بڑھا دیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ سماجی-سیاسی-مذہبی گروپ ‘جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کے لیے دہشت گردی اور ہند مخالف پروپیگنڈہ کی تشہیر میں ملوث ہے۔’

جماعت کا دفاع کرتے ہوئے حزب اختلاف کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی التجا مفتی نے الزام لگایا کہ کتابوں کو ضبط کرنا’پڑھنے کی آزادی’ پر حملہ ہے۔

نیشنل کانفرنس (این سی) کے سینئر رہنما اور سری نگر کے ایم پی آغا سید روح اللہ مہدی نے بھی پولیس کے چھاپے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے’مذہبی معاملات میں مداخلت’ہے۔

جماعت اسلامی کے سابق اور موجودہ  اراکین کے ایک گروپ نے گزشتہ سال جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا تھا، جس سے تنظیم کے انتخابی عمل کے تین دہائیوں پرانے بائیکاٹ کا خاتمہ ہوا تھا۔ اس فیصلے کا جموں و کشمیر کی تقریباً تمام مرکزی دھارے کی جماعتوں نے خیر مقدم کیاتھا سوائے حکمران نیشنل کانفرنس کے۔

انتخابی بائیکاٹ ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والے جماعت کے سابق جنرل سکریٹری غلام قادر لون  نے گزشتہ سال تنظیم کے آٹھ رکنی پینل کی سربراہی بھی کی تھی، جس نے تنظیم سے پابندی ہٹانے کے لیے مرکزی حکومت سے بات چیت کی تھی۔

خبروں کے مطابق، بات چیت کا اہتمام کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سیاست دان اور بی جے پی کے اتحادی نے کیا تھا۔

تاہم، مبینہ طور پر اس بات چیت کی جماعت کے فعال اراکین نے مخالفت کی تھی،جس میں اس کے موجودہ صدر حمید فیاض بھی شامل تھے، جنہیں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔

معلوم ہو کہ لون کے بیٹے کلیم اللہ لون نے بھی 2024 کے اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن وہ عوامی اتحاد پارٹی کے خورشید احمد شیخ سے ہار گئے تھے۔

کولگام حلقہ سے انتخاب لڑنے والے سیار احمد ریشی کے علاوہ جماعت کے تمام امیدواروں کی ضمانت ضبط  ہوگئی تھی۔

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ جماعت، جس نے اپنا آئین بنایا اور 1952 میں پاکستان میں اپنی مربی تنظیم سے الگ ہو گئی تھی،  کوجموں و کشمیر میں پابندی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس تنظیم پر سب سے پہلے1975 میں ایمرجنسی کے بعد انسداد دہشت گردی قانون کے تحت اندرا گاندھی کی زیرقیادت مرکزی حکومت نے پابندی عائد کی تھی، جب جموں و کشمیر میں این سی کے بانی شیخ عبداللہ کی حکومت تھی۔

بعض  مؤرخین کا خیال ہے کہ عبداللہ نے اس تنظیم کو اپنے لیے سیاسی خطرہ کے طور پر دیکھا تھا۔

جماعت پر دوبارہ پابندی لگا دی گئی جب 1990 کی دہائی کے اوائل میں کشمیر میں مسلح شورش شروع ہوئی اور اس کے ارکان کو ایک سویلین ملیشیا اخوان نے ہراساں کیا۔ اسے حکومت نے بغاوت سے نمٹنے کے لیے قائم کیا تھا۔

یہ پابندی 2004 میں ہٹا دی گئی تھی، جب پی ڈی پی کے بانی مفتی محمد سعید کانگریس پارٹی کے ساتھ اتحاد میں جموں و کشمیر میں حکومت کر رہے تھے۔