دسمبر 2024 میں راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ نے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ابھیشیک منو سنگھوی کی سیٹ سے نقدی برآمد ہونے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن آر ٹی آئی میں انکشاف ہوا ہے کہ راجیہ سبھا اور لوک سبھا سکریٹریٹ کے پاس اس معاملے سے متعلق کوئی جانکاری نہیں ہے۔ دونوں سکریٹریٹ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔

ابھیشیک منو سنگھوی اگست 2024 میں تلنگانہ سے راجیہ سبھا کے لیے بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے۔ (تصویر: سنسد ٹی وی)
نئی دہلی: دسمبر 2024 میں پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوران، جب کانگریس پارٹی ‘اڈانی گھوٹالہ’ پر بحث کا مطالبہ کر رہی تھی، راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ نے یہ کہہ کر بحث کا رخ موڑ دیا تھا کہ کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ابھیشیک منو سنگھوی کی سیٹ سے ‘نقدی’ برآمد ہوئی ہے۔
اس کے بعد کچھ دنوں تک حکمراں جماعت اور اپوزیشن لیڈروں کے درمیان الزام تراشیوں کا دور چلا تھا۔ لیکن اب آر ٹی آئی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ راجیہ سبھا اور لوک سبھا سکریٹریٹ کے پاس اس نقدی کیس کے بارے میں کوئی جانکاری ہی نہیں ہے۔
کیا ہے معاملہ؟
چھ (6) دسمبر، 2024 کو راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑنے ایوان میں اعلان کیا کہ 5 دسمبر کو اینٹی سبوتاژ سیکورٹی چیک کے دوران سیٹ نمبر 222 سے نقدی کا بنڈل برآمد کیا گیا ہے۔ فی الحال یہ سیٹ کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ابھیشیک منو سنگھوی کو الاٹ ہے۔
دھنکھڑ نے کہا تھا ، ‘میں نے سوچا کہ کوئی اسے لینے آئے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نقدی اصلی ہیں یا نقلی یہ تو تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ ابتدائی تحقیقات میں یہ 500 روپے کے 100 نوٹوں کا بنڈل معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کی تصدیق کی ضرورت ہے۔’
چیئرمین نے معاملے کی قانونی چھان بین کوضروری بتایا تھا۔
وہیں ابھیشیک منو سنگھوی نے اس واقعے کو ‘مضحکہ خیز’ قرار دیتے ہوئے کہا تھا ، ‘اگر یہ سیکورٹی لیپس نہ ہوتی تو یہ مضحکہ خیز لگ سکتا تھا۔ کیا اب ہمیں اپنی نشستوں پر تاروں سے گھیرا بندی کرنی ہوگی یا شیشے کا باڑہ بنوانا ہوگا تاکہ کوئی بھی سیٹ پر کچھ بھی نہ رکھ سکے؟’
انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے سنگھوی نے کہا تھا کہ اس بات کا بھی پتہ لگایا جانا چاہیے کہ باہر کا شخص ایوان میں کیسے داخل ہوا اور وہاں نقدی کیسے رکھی گئی۔
کانگریس لیڈر جئے رام رمیش نے کہا تھا، ‘حکومت پارلیامنٹ کو نہیں چلانا چاہتی۔ جب ہم اڈانی گھوٹالے پر بات کرنا چاہتے ہیں تو یہ نیا مسئلہ اٹھایا گیا۔ یہ ایک سازش ہے۔’
سی آئی ایس ایف کی اینٹی شبوتاژ ٹیمیں ہر صبح تقریباً تین گھنٹے تک تمام لوک سبھا اور راجیہ سبھا سیٹوں کی جانچ کرتی ہیں۔ یہ ٹیمیں دھماکہ خیز مواد کا پتہ لگانے کے لیے تربیت یافتہ سنیففر کتوں کی مدد لیتی ہیں۔ اس دوران پارلیامنٹ کا عملہ باہر چلا جاتا ہے، اور پورے ایوان کو سی آئی ایس ایف کی سیکورٹی ٹیم کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
آر ٹی آئی سے کیا ملا؟
بہار کے سماجی کارکن کنہیا کمار نے 25 دسمبر 2024 کو ایک آر ٹی آئی دائر کی، جس میں راجیہ سبھا سکریٹریٹ سے چار معلومات طلب کی گئیں؛
براہ کرم اس معاملے کی تحقیقات شروع کرنے کے حکم کی ایک کاپی فراہم کریں۔
براہ کرم اس تفتیش کی موجودہ صورتحال کی تفصیلات فراہم کریں۔
اگر تفتیش مکمل ہو گئی ہے تو براہ کرم تحقیقاتی رپورٹ کی ایک کاپی فراہم کریں۔
براہ کرم تفتیشی ٹیم کے زیر استعمال سی سی ٹی وی فوٹیج کی کاپی فراہم کریں۔
اس پر 9 جنوری 2025 کو راجیہ سبھا سکریٹریٹ نے جواب دیا، ‘جو معلومات مانگی گئی ہیں وہ اس سکریٹریٹ کے پاس دستیاب نہیں ہیں۔ یہ موضوع لوک سبھا سکریٹریٹ سے متعلق ہو سکتا ہے۔ لہذا، آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کے سیکشن 6(3) کے دفعات کے مطابق، اس درخواست کی ایک کاپی لوک سبھا سکریٹریٹ کو منتقل کر دی گئی ہے۔’
اس کے بعد 6 فروری 2025 کو لوک سبھا سکریٹریٹ نے جواب دیا، جس میں، پہلے تین سوالوں کے جواب میں لکھا تھا – ‘یہ معاملہ راجیہ سبھا سیکریٹریٹ سے متعلق ہے۔’
اور چوتھے سوال کے جواب میں کہا گیا، ‘آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کے سیکشن 8(1)(اے) کے تحت سیکورٹی وجوہات کی بنا پر مانگی گئی معلومات نہیں دی جا سکتی ہیں۔’
اگر لوک سبھا اور راجیہ سبھا سکریٹریٹ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں تو جانچ کی شفافیت کو کیسے یقینی بنایا جائے گا؟
کیا یہ اتفاق ہے کہ یہ مسئلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب اپوزیشن اڈانی معاملے پر حکومت سے بحث کا مطالبہ کر رہی تھی؟
لوک سبھا سکریٹریٹ نے اپنے جواب میں مزید کہا، ‘ یہ معاملہ جوائنٹ سکریٹری (سکیورٹی)، لوک سبھا سکریٹریٹ سے متعلق ہوسکتا ہے، درخواست کو آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کے سیکشن 6(3) کے تحت انہیں منتقل کیا جا رہا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا سکریٹریٹ کے پاس اتنے اہم اور سنگین الزام کی تحقیقات کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں۔ کیا اس معاملے کی کوئی تحقیقات نہیں ہوئی؟ کیا چیئرمین کے اعلان کے بعد بھی تحقیقات شروع نہیں کی گئیں؟
یہ سوال اب بھی اپنی جگہ پر قائم ہیں۔