خبریں

سنبھل میں نیا تنازعہ: 33 مکان اور ایک مسجد کو گرانے کا منصوبہ

ڈی ایم نے دعویٰ کیا ہے کہ چندوسی قصبے میں معائنہ کے دوران 33 مکان اور ایک مسجد سمیت کل 34 ڈھانچے غیر قانونی پائے گئے ہیں۔ یہ اراضی میونسپل کی ہے، یہ بغیر کسی ملکیت کے غیر قانونی طور پر رجسٹرڈ ہے، انہیں قانون کے مطابق گرایا جا سکتا ہے۔

کوتوالی سنبھل کا داخلی دروازہ ۔(تصویر: شروتی شرما/ دی وائر)

کوتوالی سنبھل کا داخلی دروازہ ۔(تصویر: شروتی شرما/ دی وائر)

نئی دہلی: اترپردیش کے سنبھل ضلع کے چندوسی قصبے میں میونسپل کی زمین پر بنے 33 مکان اور ایک غیر قانونی مسجد کو قانونی عمل کے مطابق گرایا جا سکتا ہے۔ ایک سینئر افسر نے سوموار کو یہ جانکاری دی۔

معلوم ہو کہ مغلیہ دور کی شاہی جامع مسجد کے عدالتی سروے کے  بیچ گزشتہ سال نومبر میں احتجاج کے دوران جھڑپوں کے بعدسے سنبھل ضلع میں حالات کشیدہ ہیں۔ مسجد پورے تنازعہ کے مرکز  میں رہی ہے۔ ایک عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس مقام  پر پہلے ایک قدیم ہندو مندر تھا۔ نومبر 2024 میں سنبھل میں جھڑپوں میں کم از کم چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، معائنے کے دوران سنبھل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈی ایم) راجندر پنسیا نے چندوسی نگر پالیکا پریشد کے تحت وارث نگر میں میونسپل زمین کا معائنہ کیا اورپایا کہ  زمین پر غیر قانونی تعمیرات ہو رہی ۔

ڈی ایم پنسیا نے کہا، ‘یہ زمین میونسپلٹی کی ہے، بغیر کسی ملکیت کے غیر قانونی رجسٹریشن کی گئی ہے۔ 33 مکان اور ایک مسجد سمیت کل 34 تعمیرات غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہیں۔’

انہوں نے مزید کہا کہ معاملہ کچھ عرصے سے تحصیلدار کے پاس تصدیق کے لیے زیر التوا تھا اور اس سے قبل رپورٹ سب ڈویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) کو سونپی گئی تھی۔

انہوں نے کہا،’ ہم نے دو مقامات کا دورہ کیا، جن کے خلاف شکایات موصول ہوئی تھیں۔ اب ہم نے اس جگہ کا معائنہ کیا ہے اور اب دوسری  جگہ کا دورہ کریں گے۔ جو بھی تجاوزات پائی  جائے گئی اسے قانون کے مطابق گرایا جائے گا۔’

متنازعہ زمین کا رقبہ تقریباً 6.5 بیگھہ (اتر پردیش میں تقریباً 4.02 ایکڑ) ہے۔ اگلے اقدامات کے بارے میں پوچھے جانے پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے کہا، مقبوضہ زمین پر بنائے گئے کسی بھی ڈھانچے کو قانونی دفعات کے مطابق گرا دیا جائے گا۔’

معلوم ہوکہ حال ہی میں چندوسی علاقے میں ایک مسجد کے امام کے خلاف مبینہ طور پر مقررہ ڈیسیبل سے زیادہ آواز میں  اذان دینے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا اور لاؤڈ اسپیکر کو ضبط کر لیا گیا تھا۔

اس دوران الہ آباد ہائی کورٹ سے اجازت ملنے کے بعد حکام نے اتوار کو شاہی جامع مسجد کی سفیدی  کا کام شروع کیا ۔ اس کام کے لیے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے مقرر کردہ ٹھیکیدار نے کہا کہ یہ کام ایک ہفتے کے اندر مکمل ہونے کی امید ہے، آٹھ لوگوں کی ٹیم اس پر کام کر رہی ہے۔

ہائی کورٹ نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے آرائشی لائٹنگ کی بھی اجازت دی کہ پینٹنگ کے عمل کے دوران کوئی چھیڑ چھاڑ نہ ہو۔

رمضان سے قبل مسجد کے علاقے میں سکیورٹی بھی سخت کر دی گئی ہے اور تین رکنی کمیٹی پینٹنگ کے کام کی نگرانی کر رہی ہے۔