خبریں

دہولی قتل عام: 44 سال بعد تین کو سزائے موت، مجرموں کو کوئی پچھتاوا نہیں

مین پوری کی ایک عدالت نے 1981 میں اتر پردیش کے دہولی میں خواتین اور بچوں سمیت 24 دلتوں کے وحشیانہ قتل کے لیے تین مجرموں کو موت کی سزا سنائی اور کہا کہ یہ قتل جاٹوں کے خلاف ٹھاکروں کے ‘ذات پات اور شدید تعصب’ کے نتیجے میں کیے گئے تھے۔

اتر پردیش کے دہولی میں دلتوں کے قتل عام کے مجرموں کو لے جاتی ہوئی پولیس۔ (تصویر:ایکس  سے ویڈیو گریب)

اتر پردیش کے دہولی میں دلتوں کے قتل عام کے مجرموں کو لے جاتی ہوئی پولیس۔ (تصویر:ایکس  سے ویڈیو گریب)

نئی دہلی: اتر پردیش کے مین پوری ضلع کی ایک عدالت نے 44  سال قبل خواتین اور بچوں سمیت 24 دلتوں کے وحشیانہ قتل کے الزام میں تین افراد کو موت کی سزا سنائی ہے۔ یہ قتل عام کو دہولی قتل عام کے نام سے معروف ہے۔

منگل (18 مارچ) کو اس سلسلے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا، ‘انہوں نے جتنے جاٹو کو  ڈھونڈا، انہیں نشانہ بنایا اور مار ڈالا۔’

تین زندہ بچے ملزمین کو سزا سناتے ہوئے خصوصی جج (ڈکیتی اور متاثرہ علاقہ) اندرا سنگھ نے کہا کہ اس جرم نے انسانیت کے ساتھ ساتھ قانون کے  نظام کو بھی شرمندہ کر دیا ہے۔

جج سنگھ نے کہا، ‘یہ ایک ایسا جرم ہے جو سماجی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ یہ قتل دلت جاٹوں کے خلاف دبنگ  ٹھاکروں کے ‘ ذات پات اور شدید تعصب کا نتیجہ’ تھے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مجرموں میں سے کسی نے بھی اپنے کیے پر پشیمانی کا اظہار نہیں کیا۔

قابل ذکر ہے کہ دلتوں کے قتل عام کو انجام دینے کے بعد، جو دو گھنٹے تک جاری رہا، ملزمین نے گاؤں سے فرار ہونے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے بجائے انہوں نے کچھ مقامی ٹھاکروں کے گھروں میں  آرام سے کھانا کھایا۔

‘ موت کا تانڈوکرنے کے بعد ملزمین نےکھایا کھانا’

جج سنگھ نے کہا، ‘ڈھائی گھنٹے تک موت کا تانڈو کرنے کے بعد ملزمین نے اسی گاؤں میں پورے وقار کے ساتھ کھانا کھایا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اپنے جرم پر کوئی پشیمانی یا پچھتاوا نہیں تھا اور انہوں نے ایک سازش کے تحت منصوبہ بند طریقے سے اس واقعے کو انجام دیا تھا۔’

عدالت نے رامپال سنگھ، رام سیوک اور کپتان سنگھ کو 18 نومبر 1981 کو دہولی گاؤں (اب فیروز آباد کا حصہ) میں مجرمانہ سازش اور 24 دلتوں کے اجتماعی قتل کا مجرم پایا۔ کل 17 ملزمان پر مقدمہ چلایا گیا جن میں سے 13 ٹرائل مکمل ہونے سے پہلے ہی دم توڑ گئے، جبکہ ایک فرار ہوگیا۔

واضح ہو کہ 1981 کے اس دن تقریباً 20-21 لوگوں کا ایک گروپ، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق بااثر ٹھاکر ذات سے تھا، رائفلوں، بندوقوں اور دیسی پستولوں سے لیس اور خاکی پولیس کی وردی میں ملبوس دہولی گاؤں  کے جاٹو (دلت) محلے میں داخل ہوئے اور گولی باری شرو ع کر دی۔

یہ لوگ شام 4-5 بجے کے قریب گاؤں کے جنوب مشرق سے آئے اور دلتوں پر اندھا دھند فائرنگ کی اور یہاں تک کہ کچھ گھروں میں گھس کر لوگوں کو گولی مار دی۔ انہوں نے کئی گھروں میں لوٹ پاٹ بھی کی۔ فائرنگ سے دو لڑکیوں سمیت چھ افراد زخمی ہو گئے۔

معاملے کی تفصیلات کے مطابق، ٹھاکروں نے گاؤں کے کچھ دلتوں کے خلاف رنجش پال رکھی تھی، کیونکہ قتل عام سے تقریباً 15 ماہ قبل جب دو ٹھاکروں کو پولیس کے ساتھ مڈبھیڑ کے دوران ہتھیاروں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا تو چار دلتوں نے گواہی دی تھی۔

عدالت نے پایا کہ یہ جرم ٹھاکر برادری کے ارکان نے جاٹوں کو سبق سکھانے کے لیے کیا تھا، جنہیں وہ ‘سماجی طور پر نیچ  اور کمتر’ سمجھتے تھے اور ان کے ذہنوں میں ‘دہشت، دہشت اور خوف’ پھیلانا چاہتے تھے۔

جسٹس سنگھ نے کہا کہ نوجوانوں اور خواتین سمیت غیر مسلح دلتوں کا قتل ایک ‘سفاکانہ قتل’ تھا۔

‘ریئریسٹ آف دی ریئر’

تین زندہ بچے ملزمان کو موت کی سزا سناتے ہوئے جسٹس سنگھ نے کہا،’اگر عدالت ایسے وحشیانہ، ظالمانہ اور سفاکانہ جرائم میں نرمی کا مظاہرہ کرتی ہے، تو یہ سماج اور انسانیت کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔’

انہوں نے اسے ‘نایاب میں  نایاب’ (ریئریسٹ آف دی ریئر)جرم قرار دیا۔

عدالت نے کہ،’ٹرائل کے دوران گواہوں کے بیانات کے مطابق گولیوں کی آوازیں سننے کے بعد خواتین اپنی جان بچانے کے لیے گھروں میں نہیں چھپیں بلکہ ہاتھ جوڑ کر ان لوگوں سے اپنے بچوں کو چھوڑنے کی التجا کرتی رہیں، لیکن ان لوگوں نے کسی پر رحم نہیں کیا، چاہے وہ مرد ہو، عورت ہو، نابالغ ہو یا بچے’۔

اگرچہ ملزمان کی کوئی مجرمانہ تاریخ نہیں تھی،  لیکن جج سنگھ نے کہا کہ ‘جرم کی غیر معمولی سفاکیت، جس بے دردی سے اسئ انجام دیا گیا اور انسانی زندگی کو سراسر نظر انداز’ کرتے ہوئے انہیں سزائے موت دی جانی چاہیے ۔ جج نے ذات پر مبنی برتری کے تصورات کے توسط سےجرم کی نوعیت کا بھی حوالہ دیا۔

جسٹس سنگھ نے کہا، ‘سال 1981 میں جب دنیا کمپیوٹر اور جینیات کی شکل میں سائنسی ترقی کا مشاہدہ کر رہی تھی، کچھ لوگ اس کٹر اور قدیم عقیدے سے چمٹے ہوئے تھے کہ وہ صرف اس لیے برتر ہیں کیونکہ وہ ایک خاص ذات میں پیدا ہوئے  ہیںاور اس لیے کسی کو ان کے خلاف جانے کا حق نہیں ہے۔ جدید دور میں یہ  ذہنیت باقی ہے کہ افراد نام نہاد ‘نچلی’ ذاتوں میں پیدا ہونے والے دوسروں کے وقار کو بغیر کسی منفی نتائج کے مجروح کر سکتے ہیں۔

جج نے ملزمین میں پچھتاوے کی کمی کو بھی نوٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ سزا یافتہ رام سیوک نے اپنے کھشتری پس منظر پر فخر کیا اور کہا کہ تاریخ خود سب کچھ بتائے گی۔

جج سنگھ نے کہا کہ کسی بھی مجرم نے پچھتاوا نہیں دکھایا اور اس کے برعکس ان کا رویہ تکبر اور غرور سے بھرا تھا، جیسے انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )