خاص خبر

ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطین کی حمایت کرنے کی وجہ سے ہندوستانی اسکالر کو حراست میں لیا

امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ نے واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے ایک ہندوستانی اسکالر بدر خان سوری کو حراست میں لیا ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کا پروپیگنڈہ کر رہے تھے۔ سوری اس طرح کی کارروائی کا سامنا کرنے والے دوسرے ہندوستانی شہری ہیں۔

بدر خان سوری (تصویر: www.linkedin.com/in/badar-khan-suri۔)

بدر خان سوری (تصویر: www.linkedin.com/in/badar-khan-suri۔)

نئی دہلی: امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ نے واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے ایک ہندوستانی اسکالر بدر خان سوری کو حراست میں  لیا ہے ، ان کا دعویٰ ہے  کہ وہ فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کا’پروپیگنڈہ’ کر رہے  تھے۔

سی این این نے ایک خط کے بارے میں رپورٹ  دی ہے جس میں یونیورسٹی کے عبوری صدر رابرٹ گروز نے اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو مطلع کیا کہ سوری کو محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی نے حراست میں لیا ہے اور ان کا ویزا منسوخ کر دیا گیا ہے۔

گروز نے خط میں کہا کہ جارج ٹاؤن کوسوری کے ‘کسی بھی غیر قانونی سرگرمی’ میں ملوث ہونے کے بارے میں جانکاری نہیں ہے اور یونیورسٹی کو ان  کی حراست کی کوئی وجہ نہیں ملی ہے۔

سوری کی ڈاکٹریٹ کی تحقیق عراق اور افغانستان میں قیام امن پر تھی۔ جارج ٹاؤن میں وہ جنوبی ایشیا میں اکثریت پسندی اور اقلیتوں کے حقوق پر ایک کلاس لے رہے تھے۔

بیوی کی وراثت کی وجہ سے ‘سزا’

سوری کے وکیل حسن احمد نے سی این این کو بتایا کہ سوری لوزیانا میں ہیں امیگریشن عدالت میں سماعت کے منتظر ہیں۔

پولیٹیکو نے اطلاع دی ہے کہ نقاب پوش ایجنٹوں نے 17 مارچ کی رات  کوورجینیا کے آرلنگٹن کے روزلین علاقے میں ان کے گھر کے باہر سوری کو گرفتار کیا۔

احمد نےسی این این  کو بتایا،’میں کہوں گا کہ یہ قابل مذمت ہے کہ ہماری حکومت نے ایک اور بے گناہ آدمی کو اغوا کر کے جیل میں ڈال دیا ہے۔’ ان کا مزید کہنا تھا کہ صورتحال بتاتی ہے کہ ‘مسئلہ حکومت میں ہے اسکالر میں نہیں۔’

پولیٹیکو کی ایک رپورٹ کے بعد ڈی ایچ ایس کی ترجمان ٹریسیا میک لاگھلن نے ایکس  پر ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ ‘حماس کے پروپیگنڈے کو پھیلانے’ کے علاوہ سوری’سوشل میڈیا پر یہود مخالف جذبات کو بڑھاوا دے رہے تھے۔’ میک لاگھلن نے پھر دعویٰ کیا کہ ‘سوری کے ایک معروف یا مشتبہ دہشت گرد سے قریبی تعلقات ہیں، جو حماس کا سینئر مشیر ہے۔’

پولیٹیکو نے سوری کی عرضی  کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سوری کو ان کی اہلیہ کے فلسطینی ورثے کی وجہ سے سزا دی جا رہی ہے – جو ایک امریکی شہری ہیں۔

ہندوستان ٹائمز میں 2018 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ان کی ‘انڈو-فلسطینی لو اسٹوری ‘درج کی گئی تھی۔ ان کا ایک بیٹا بھی ہے۔

مبہم قانونی نظام

میک لاگھلن نےایکس  پر اپنی پوسٹ میں کہا،’سکریٹری آف اسٹیٹ نے 15 مارچ 2025 کو ایک فیصلہ جاری کیا کہ سوری کی سرگرمیاں اور ریاستہائے متحدہ میں موجودگی کی وجہ سے انہیں  آئی این اے  سیکشن 237(اے)(4)(سی)(آئی) کے تحت ملک بدرکیا جا سکتا ہے۔’

مذکورہ وزیر خارجہ مارکو روبیو ہیں، جن سے ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے اس سال کے شروع میں ٹرمپ کی  حلف برداری کے فوراً بعد ملاقات کی تھی۔

امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ (آئی این اے) کے سیکشن 237 کا عنوان ‘ڈیپورٹ ایبل ایلین’ ہے۔ اس میں ‘غیر ملکی’ – امریکہ میں رہنے والے تارکین وطن – کے لیے ملک بدری کی دفعات شامل ہیں، سکریٹری آف اسٹیٹ کی صوابدید سے مشروط ہیں۔

سی این این نے قانونی نظام کو ‘مبہم’ قرار دیا اور پولیٹیکو نے اسے ‘شاذ و نادر ہی استعمال کیا جانے والا’ کہا ہے۔

سوری کی گرفتاری نے اظہار  رائے کی آزادی پر سنگین تجاوز کے بارے میں امریکی دانشوروں کے خدشات میں  مزید اضافہ کر دیا ہے۔ قبل ازیں امریکی حکومت نے کولمبیا یونیورسٹی کے طالبعلم محمود خلیل کو فلسطین کے حق میں مظاہروں پر گرفتار کر کے جیل بھیج دیا تھا۔

سوری اس طرح کی کارروائی کا سامنا کرنے والے دوسرے ہندوستانی شہری ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں کولمبیا یونیورسٹی کی اسکالر رنجانی سری نواسن کو امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ان کا اسٹوڈنٹ ویزا منسوخ کرنے کے بعد امریکہ چھوڑنا پڑا تھا۔ ٹرمپ حکام نے انہیں’دہشت گردوں کا حامی’ قرار دیا تھا، لیکن سری نواسن نے کہا کہ فلسطین پر ان کی سرگرمی سوشل میڈیا تک ہی محدود تھی۔

وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کولمبیا، جو شدید مظاہروں کے لیے معروف ہے، ٹرمپ کے ‘دور رس’ مطالبات کے سامنے جھکنے کے بہت قریب پہنچ گیا ہے،  تاکہ وہ 400 ملین ڈالر کی وفاقی فنڈنگ کو بحال کرسکیں۔

رپورٹ میں کہا گیا،’مطالبات میں ماسک پر پابندی لگانا، کیمپس میں پولیس کو بااختیار بنانا اور اسکول کے مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیائی اور افریقی مطالعات کے شعبے کو ‘اکیڈمک رسیورشپ’ کے تحت رکھنا شامل ہے، یعنی اب اس پر فیکلٹی کا کنٹرول نہیں رہے گا۔’