تریپورہ میں کوک بوروک زبان کے لیے رومن رسم الخط کے استعمال کا مطالبہ کرتے ہوئے طلبہ تنظیم ٹی ایس ایف نے ریاست گیر غیر معینہ مدت کی ہڑتال شروع کی ہے۔ کوک بوروک تریپورہ کی 19 قبائلی برادریوں کی اکثریت کی زبان ہے۔

ہڑتال کی حمایت کرنے والے مظاہرین نے جمعہ کو ریاست کے مختلف حصوں میں قومی شاہراہوں کو بلاک کیا۔ (تصویر بہ شکریہ: @tipra_official)
نئی دہلی: تریپورہ میں کوک بوروک زبان کے لیے رومن رسم الخط کے استعمال کا مطالبہ کرتے ہوئے توپرا اسٹوڈنٹس یونین (ٹی ایس ایف) کی جانب سے ریاست گیر غیر معینہ مدت کی ہڑتال شروع کرنے کے چند گھنٹے بعد وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مانک ساہا نے جمعہ کو عوام کو یقین دہانی کرائی کہ اس مسئلے کو جلد ہی حل کیا جائے گا۔
انڈین ایکپریس کی رپورٹ کے مطابق، ٹی ایس ایف، جسے بی جے پی حکومت کی حلیف ٹیپرا موتھا کے طلبہ ونگ کی حمایت حاصل ہے، نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ کوک بوروک کے لیے سی بی ایس ای کے 10 ویں اور 12 ویں کے امتحانات نئے سرے سے منعقد کیے جائیں، دراصل بہت سے امیدواروں کو خالی جوابی پرچے جمع کرنے پڑے تھے کیونکہ کچھ مراکز پرذمہ داران نے بنگلہ رسم الخط میں دیے گئے کوک بوروک سوالناموں کا ترجمہ کرنے سے’ انکار’ کر دیا تھا۔
اسمبلی میں رسم الخط کے معاملے پر بات کرتے ہوئے سی ایم ساہا نے کہا، ‘ حکومت مسئلے کو حل کرنا چاہتی ۔ ہم تمام لوگوں کے خیالات، ثقافت، روایات اور زبانوں کا احترام کرتے ہیں۔’
وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ کوک بوروک زبان کے لیے رومن رسم الخط کو متعارف کرانے سمیت قبائلیوں کے کئی مطالبات کو پورا کرنے کے لیے گزشتہ سال نئی دہلی میں مرکز، ریاست اور ٹپرا موتھا کے درمیان ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں۔
انھوں نے کہا، ‘میں نے اخبار میں رسم الخط پر مختلف تبصرے دیکھے، ایک جگہ لکھا تھا کہ ذمہ داران طلبہ کو پرچہ بنگالی میں ہونے پرسمجھاسکیں، تو انھیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ میں آپ کو طلباء کے مستقبل کو بہتر بنانے کی یقین دہانی کراتا ہوں۔ اس معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا… خواہ ایک یا دو طالبعلم کہ کیوں نہ ہوں، ہم انتظام کریں گے تاکہ وہ اسے سمجھ سکیں (اگر کوک بورک کا سوالیہ پرچہ بنگالی میں ہے)۔ لیکن میں رسم الخط کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ جب (سہ فریقی سطح پر) بات چیت ہوگی، ہم یقینی طور پر کسی فیصلے پر پہنچیں گے۔’
دریں اثنا، ہڑتال کی حمایت کرنے والے مظاہرین نے جمعہ کو ریاست کے مختلف حصوں میں قومی شاہراہوں کو بلاک کر دیا۔
ریاستی پولیس ہیڈکوارٹر کے ایک اہلکار نے جمعہ کی شام کو بتایا، ‘ریاست میں کچھ مقامات پر احتجاج واپس لے لیا گیا ہے۔ تشدد کی کوئی خبر نہیں ہے۔ اس کے باوجود حفاظتی اقدام کے طور پر ریاست بھر میں سیکورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔’
دریں اثنا، ہڑتال کی کال پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ٹپرا موتھا کے بانی پردیوت کشور دیب برما نے سوشل میڈیا پر لکھا، ‘ایسا لگتا ہے کہ ہمیں میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ کے ماڈل کو دیکھنا ہوگا جہاں مقامی زبانوں کو 8ویں شیڈول میں شامل نہ کیے جانے کے باوجود، لڑکے اور لڑکیاں اپنی زبانیں لکھ اور پڑھ سکتے ہیں اور رومن رسم الخط میں امتحان دے سکتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ یہ ایک ‘ریاست’ کا موضوع ہے اور ان ریاستوں نے واضح فیصلہ لیا ہے۔ تریپورہ میں مقیم قومی پارٹیوں کو اپنا موقف واضح کرنا چاہیے… وہ ٹپراسا طلبہ کو کون سا مضمون پڑھانا اور لکھانا چاہتے ہیں؟الف) بنگالی بی ) دیوناگری سی) رومن۔’
انہوں نے کہا، ‘جنجاتی مورچہ/ایس ٹی سیل/جی ایم پی (گنامکتی پریشد) کو اپنی پارٹیوں پر دباؤ ڈالنا چاہیے کیونکہ یہ ان کے بچوں کے مستقبل کے بارے میں بھی ہے۔ آخر میں، آئیے متحد رہیں اور ایک آواز میں بولیں۔ اگر وہ ٹپراسا کے لوگوں سے ووٹ چاہتے ہیں تو انہیں ماننا پڑے گا… میں یہ ٹپراسا کے طور پر بول رہا ہوں نہ کہ ٹپرا موتھا پارٹی کے بانی کے طور پر – اگر ہم اپنی ذات کے مفاد کو سیاست سے بالاتر نہیں رکھیں گے تو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔’
کچھ دن پہلے پردیوت کشور دیب برما نے بھی الزام لگایا تھا کہ سی بی ایس ای کے کچھ مراکز کے ذمہ داران نے بنگالی رسم الخط میں لکھے گئے کوک بورک سوالیہ پرچے کا ترجمہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ عہدیداروں نے پہلے یقین دہانی کرائی تھی کہ جو طلباء بنگالی نہیں پڑھ سکتے انہیں مراکز پرترجمے میں مدد فراہم کی جائے گی۔
آٹھ مارچ کو پردیوت کشور دیب برما نے کوک بورک اسکرپٹ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان سے مداخلت کی درخواست کی تھی۔
جمعہ کو کانگریس ایم ایل اے سدیپ رائے برمن نے بھی قبائلی طلبہ تنظیم کے مطالبے کی حمایت کی۔ تاہم، انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب انہوں نے گزشتہ سرمائی اجلاس کے دوران اسمبلی میں رسم الخط کا مسئلہ اٹھایا تو کسی بھی قبائلی ایم ایل اے نے ان کی حمایت نہیں کی تھی۔
بی جے پی زیرقیادت حکومت پر قبائلیوں کے ‘جائز مطالبہ’ کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کانگریس لیڈر نے کہا کہ ان کی پارٹی کوک بوروک کے لیے رومن رسم الخط کے حق میں ہے۔
قبائلی لوگوں کی اہم زبان
کوک بوروک تریپورہ کی 19 قبائلی برادریوں میں اکثریت کی زبان ہے۔ اگرچہ اس زبان کی ایک بھرپور تاریخ ہے اور یہ شمال- مشرقی ریاست کی سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے، لیکن اس کا کوئی سرکاری طور پر تسلیم شدہ مقامی رسم الخط نہیں ہے۔ کوک بوروک رومن اور بنگالی دونوں رسم الخط میں لکھا جاتا ہے۔
پچھلے سال اس وقت کافی تنازعہ کھڑا ہوا تھا جب تریپورہ سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر دھننجے گنا چودھری نے اسکرپٹ کے مسئلہ پر کئی بار بحث کی تھی۔ آخر کار ریاستی حکومت نے مداخلت کی اور کہا کہ طلباء رومن اور بنگالی دونوں رسم الخط میں کوک بوروک کا امتحان دے سکتے ہیں۔
اس سے قبل سابق ایم ایل اے شیاما چرن تریپورہ اور ماہر لسانیات پوتر سرکار کی سربراہی میں اسکرپٹ کے معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے دو کمیشن بنائے گئے تھے۔
جب سے بی جے پی ریاست میں 2018 میں برسراقتدار آئی ہے، پارٹی کے کچھ حصوں کی طرف سے کوک بوروک کے لیے دیوناگری رسم الخط کو اپنانے پر زور دیا گیا ہے، جس پر دیگر سیاسی جماعتوں، طلباء، زبان کے کارکنوں اور دانشوروں کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
Categories: خبریں