چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے جسٹس ورما کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے لیے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شیل ناگو، ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جی ایس سندھاوالیا اور کرناٹک ہائی کورٹ کے جج انو شیورامن پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔

جسٹس ورما کے گھر سے برآمد نقدی کا اسکرین شاٹ۔ (تصویر بہ شکریہ: سپریم کورٹ ویڈیو)
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس یشونت ورما کے سرکاری رہائشی احاطے میں آگ سے تباہ شدہ کمرے میں مبینہ طور پر بھاری مقدار میں نقدی ملنے کے بعد سپریم کورٹ نے سنیچر (22 مارچ) کو دیر گئے اس معاملے سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں دہلی پولیس کی طرف سے فراہم کردہ کچھ تصاویر اور ویڈیو بھی شامل ہیں۔ اس میں جلے ہوئے کمرے میں نقدی کی موجودگی کودکھایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے اس معاملے میں دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی کے اپادھیائے کی رپورٹ اور یشونت ورما کے خلاف الزامات پر ان کے دفاع کو بھی پبلک کیا، جس میں انہوں نے کمرے میں نقدی رکھے جانے سے انکار کیا ہے اور اس معاملے میں سازش کا الزام لگایا ہے۔
اس سلسلے میں جاری ایک پریس ریلیز میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ نے جسٹس ورما کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے لیے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شیل ناگو، ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جی ایس سندھاوالیا اور کرناٹک ہائی کورٹ کے جج انو شیورامن پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اپادھیائے سے کہا گیا ہے کہ وہ فی الحال جج ورما کو کوئی عدالتی کام نہ سونپیں۔
اس ریلیز کے ساتھ ہی جمعہ (21 مارچ) کو جسٹس اپادھیائے کی طرف سےسی جے آئی سنجیو کھنہ کو لکھا گیا ایک خط بھی منسلک ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ‘ پہلی نظر میں رائے رکھتے ہیں کہ پورے معاملے کی مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے۔’
جسٹس اپادھیائے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دہلی پولیس کمشنر کے مطابق جج ورما کی رہائش گاہ پر تعینات ایک گارڈ نے آگ لگنے کے بعد بتایا کہ 15 مارچ کی صبح جس کمرےمیں آگ لگی تھی وہاں سے جزوی طور پر جلی ہوئی اشیاء کو ہٹا دیا گیاتھا۔
جسٹس اپادھیائے نے اس معاملے کی مزید تحقیقات کے لیے سی جے آئی کو لکھا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ ان کی طرف سے کی گئی تحقیقات میں بنگلے کے رہائشیوں، نوکروں، مالی اور سی پی ڈبلیو ڈی (سینٹرل پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ) کے اہلکاروں (اگر کوئی ہو) کے علاوہ کسی بھی شخص کے کمرے میں داخلے یا رسائی کا کوئی امکان ظاہر نہیں ہوتا ہے۔
جسٹس اپادھیائے سے جلے ہوئے کمرے سے ملی نقدی، اس کا ذریعہ اور 15 مارچ کی صبح اسے کس نے ہٹایا، اس بارے میں پوچھے جانے پر تو جج ورما نے جمعہ کو اپنے جواب میں کہا کہ اس اسٹور روم میں انہوں نے یا ان کے خاندان کے کسی فرد نے کبھی کوئی نقدی نہیں رکھی تھی۔
اس سلسلے میں جسٹس ورما نے کہا کہ جس جلے ہوئے کمرے میں نقدی ملی تھی وہ کھلا ہواتھا، گھر کے دروازے وہاں تک پہنچا جا سکتا تھا اور یہ کمرہ ان کے رہنے کی جگہ سے بالکل الگ ہے۔
اپنے دفاع میں جسٹس یشونت ورما نے کہا ہے کہ جب آگ لگی تو وہ مدھیہ پردیش میں تھے، اور وہ 15 مارچ کی شام کو دہلی پہنچے۔ آگ لگنے کے وقت ان کی بیٹی اور عملہ گھر میں موجود تھا۔ لیکن آگ بجھانے کے بعد انہوں نے اسٹور روم میں نقدی کو نہیں دیکھا۔
یشونت ورما کے مطابق، انہیں سب سے پہلے جلی ہوئی نقدی کا علم اس وقت ہوا جب دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے انہیں ویڈیو دکھایا۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے یا ان کے خاندان کے افراد نے آج تک اس اسٹور روم میں کبھی کوئی نقدی نہیں رکھی اور جس کیش کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ ان کا نہیں ہے۔
جسٹس ورما نے اپنے جواب میں لکھا ہے کہ ‘یہ کہنا کہ کوئی ایسے کمرے میں نقدی رکھے گا جو کھلے میں ہے اور جہاں کوئی بھی داخل ہو سکتا ہے، بالکل ناقابل یقین ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ وہ صرف بینک سے کیش نکالتے ہیں اور ان کے پاس تمام لین دین کے کاغذات ہیں اور جس مبینہ کیش کی بات کی جا رہی ہے وہ نہ تو دکھائی گئی ہے اور نہ ہی ان کے حوالے کی گئی ہے۔ انہوں نے اس معاملے میں اپنے عملے سے بھی پوچھ گچھ کی اور انہوں نے بھی کہا کہ اسٹور روم سے کوئی نقدی ہٹائی نہیں گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ پورا کیس ان کے خلاف ایک سازش ہے، جس سے ان کی ساکھ خراب ہوئی ہے، جو انہوں نے ایک دہائی سے زائد عرصے تک ہائی کورٹ کے جج رہ کر بنائی تھی۔ جسٹس ورما نے یہ بھی کہا کہ آج تک ان کے خلاف کوئی الزام نہیں لگایا گیا ہے اور اگر جسٹس ڈی کے اپادھیائے چاہیں تو وہ ان کے عدالتی دور کی تحقیقات کر سکتے ہیں۔
جسٹس اپادھیائے نے سی جے آئی کھنہ کی ہدایت کے بعدجسٹس ورما سے درخواست کی تھی کہ وہ جمعہ کی دوپہر تک نقدی کی دریافت کے بارے میں تحریری جواب دیں۔
اب یہ معاملہ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کی تشکیل کردہ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ پولیس کو جسٹس یشونت ورما کے پچھلے چھ ماہ کے کال ریکارڈ فراہم کرنے کو بھی کہا گیا ہے اور جسٹس یشونت ورما کو اپنے فون سے کوئی ڈیٹا ڈیلیٹ کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔
کیس کی عدالتی ‘ان ہاؤس’ تحقیقات میں تین رکنی کمیٹی شامل ہے
جمعہ کو سپریم کورٹ نے ذکر کیا کہ جسٹس اپادھیائے نے اس معاملے کی ‘ان ہاؤس انکوائری کا عمل’ شروع کیا ہے ۔
معلوم ہو کہ ہائی کورٹس کے موجودہ ججوں کے خلاف مس کنڈکٹ کے الزامات کی صورت میں ان کے خلاف اصلاحی کارروائی کے لیے ‘ان ہاؤس کارروائی ‘شروع کی جا سکتی ہے۔ اس طریقہ کار کے مطابق اگر متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محسوس کرتے ہیں کہ کیس میں مکمل تفتیش ضروری ہے تو جج کے جواب کے ساتھ جج کے خلاف شکایت سی جے آئی کو بھیجی جاتی ہے۔
اس کے بعد اگر سی جے آئی کو بھی لگتا ہے کہ اس سلسلے میں مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے تو انہیں تین رکنی کمیٹی بنانی ہوتی ہے، جس میں دو ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور دوسری ہائی کورٹ کے جج شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی ‘فیکٹ فائنڈنگ’ کی طرح کی ہوتی ہے، جس کے سامنے زیر بحث جج کو پیش ہونے اور اپنے خیالات پیش کرنے کا حق حاصل ہوتاہے۔ یہ کوئی باضابطہ عدالتی تفتیش نہیں ہے، جس میں گواہوں یا وکلاء کی نمائندگی کی جانچ اور جرح شامل ہو۔
اس تحقیقات میں کمیٹی کو یا تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیر تفتیش جج کے خلاف الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یا یہ کہ الزامات ثابت ہیں اور جج کو عہدے سے ہٹانے کی ضمانت دینے کے لیے کافی سنگین ہیں؛ یا یہ کہ الزامات میں حقیقت ہے لیکن وہ جج کو ہٹانے کے لیے کافی نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اس کا کالجیم جسٹس ورما کے تبادلے پر ‘ایک تجویز پاس کرے گا’
جمعہ کے روز سپریم کورٹ نے جسٹس ورما کو ان کے بنیادی ہائی کورٹ، الہ آباد میں واپس منتقل کرنے کی تجویز کے بارے میں بھی بات کی تھی، اور کہا تھا کہ اس تجویز کی جانچ سی جے آئی کھنہ نے عدالت کے باقی کالجیم کے ساتھ کی ہے، جس میں ان کے بعد اگلے چار سینئر ترین جج شامل ہیں۔
اس کے بعد سپریم کورٹ نے کہا کہ اس معاملے میں مشاورتی کمیٹی میں شامل ججوں، متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور جسٹس ورما کو لکھے گئے خطوط کے جوابات کی جانچ کی جائے گی، جس کے بعد کالجیم ‘تجویز کو پاس کرے گا۔’
دریں اثنا، الہ آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ وہ ‘کوڑا دان ‘ نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ کالجیم کے ایک رکن نے دی وائر کو بتایا ،’ہمیں سی جے آئی نے یقین دلاہانی کرائی تھی کہ ٹرانسفر صرف شروعات ہے اور یقینی طور پر ان کی طرف سے فالو اپ کارروائی کی جائے گی۔’
سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج نے یہ بھی کہا، ‘اس معاملے میں ہمیں ایک سخت پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی طرح کی مذموم سرگرمیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہیں صرف ان کے بنیادی ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کا فیصلہ کرکے، ہم کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟ کہ جب ہماری اپنی ہائی کورٹ کی بات آتی ہے تو ہمارے مختلف قوانین ہیں؟’
انہوں نے مزید کہا، ‘امید ہے، اب جب کہ سب کچھ کھل کر سامنے آ گیا ہے، سی جے آئی اور دیگر لوگ کچھ ایسا کریں گے جو پہلےہی کیا جانا چاہیے تھا۔ سب سے پہلے ان سے ان کا کام واپس لیا جانا چاہیے۔’
جسٹس ورما کون ہیں؟
قابل ذکر ہے کہ جسٹس ورما 12 اکتوبر 2014 کو الہ آباد ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج کے طور پر مقرر کیا گیا تھا اور کم فروری 2016 کو مستقل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد جسٹس ورما کوسی جے آئی این وی رمنا کے دور میں 11 اکتوبر 2021 کو انہیں دہلی ہائی کورٹ منتقل کر دیا گیا تھا۔ جسٹس ورما 5 جنوری 2031 کو ریٹائر ہو جائیں گے۔
تاہم، وہ اپنے بنیادی ہائی کورٹ کے سینئر ترین ججوں میں سے نہیں ہیں، لیکن وہ اس وقت دہلی ہائی کورٹ میں تین ججوں کے کالجیم کے رکن ہیں۔
Categories: خبریں