شملہ کے ایک پرائیویٹ اسکول نے طلباء سے عید الفطر سے قبل جمعۃ الوداع کے روز جشن منانے کے لیے اچھے کپڑے پہننے اور کھانے پینے کی اشیاء ساتھ لانے کو کہا تھا۔ دائیں بازو کی تنظیم دیو بھومی سنگھرش سمیتی کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کی وارننگ کے بعد اسکول نے یہ فیصلہ واپس لے لیا۔

علامتی تصویر (فوٹو: فیس بک)
نئی دہلی: ہماچل پردیش کی راجدھانی شملہ میں ایک پرائیویٹ اسکول نے سوموار کو اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیا، جس میں طلباء سے عید الفطر سے پہلے خوشیاں منانے کے لیے اچھے کپڑے پہننے اور کھانے پینے کی اشیاء ساتھ لانے کو کہا گیا تھا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، مقامی دائیں بازو کی تنظیم دیو بھومی سنگھرش سمیتی نے تعلیمی ادارے کے باہر احتجاج مظاہرہ کی دھمکی دی تھی۔
شہر کے آکلینڈ ہاؤس اسکول نے عید الفطر منانے سے پہلے جمعۃ الوداع یعنی 28 مارچ کے لیے طلباء کو ہدایات جاری کی تھیں۔ دیو بھومی سنگھرش سمیتی نے کہا کہ یہ ہدایات سیکولرازم کے اصول کے خلاف ہیں اور انتباہ دیا کہ اگر فیصلہ واپس نہیں لیا گیا تو وہ اسکول کا گھیراؤ کریں گے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، کچھ مذہبی تنظیموں اور عام لوگوں نے بھی سوشل میڈیا پر اس معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دیو بھومی سنگھرش سمیتی کے اراکین نے الزام لگایا کہ ‘بدقسمتی سے ہماچل پردیش میں اسلام کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے’ اور خبردار کیا کہ اگر فیصلہ واپس نہیں لیا گیا تو احتجاج شروع کیا جائے گا۔
اسکول حکام نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور کہا کہ ‘ بچوں کی حفاظت اور بہبود ہماری اولین ترجیح ہے۔’
انہوں نے کہا، نرسری سے 2 تک کی جماعتوں کے لیے عید الفطر کا انعقاد بڑےطلباء کو ہندوستان کے ثقافتی تنوع کی تعریف کرنے میں مدد کرنے کی ان کی کوششوں کا ایک حصہ تھا، ٹھیک اسی طرح جیسے ہم ہولی، دیوالی اور کرسمس مناتے ہیں۔
والدین کو بھیجے گئے پیغام میں کہا گیا، ‘اس کامقصد کلچرل ایجوکیشن کا تجربہ فراہم کرنا تھا، اس میں کوئی مذہبی رسم یا کوئی دوسرا پہلو شامل نہیں تھا اور شرکت پوری طرح سے رضاکارانہ تھی۔’
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ حالیہ غلط بیانی اور ممکنہ خلل کے خدشات کے پیش نظر اسکول نے امن برقرار رکھنے اور ماحول کو محفوظ رکھنے کے لیے پروگرام کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے اور طلباء کو معمول کے مطابق یونیفارم میں اسکول آنا چاہیے۔
‘سماجی ہم آہنگی کو نقصان’
دریں اثنا، اس تنازعہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وزیر تعلیم روہت ٹھاکر نے کہا کہ ہماچل پردیش اپنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور خیر سگالی کے لیے جانا جاتا ہے اور’ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یہ برقرار رہے۔’
انہوں نے کہا، ‘جس اسکول کا نام لیا جا رہا ہے وہ ایک معروف کانونٹ ادارہ ہے اور یہ پیغام اسکول انتظامیہ نے صرف فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی نیت سے جاری کیا ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ ‘ہمارے سماجی تانے بانے کو برقرار رہنا چاہیے، تمام مذاہب کا احترام ہونا چاہیے اور ایسے معاملوں کوختم کر دینا چاہیے۔’
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، بعد میں جاری ایک بیان میں اسکول حکام نے کہا کہ آکلینڈ ہاؤس اسکول نے ہمیشہ ث ہولی، عید، دیوالی، گروپرب اور کرسمس جیسے قافتی اور مذہبی تہواروں کو مذہبی اعمال کے طور پر نہیں بلکہ ہر طرح کے پس منظر سے آنے والے بچوں کے درمیان ہمدردی، سمجھ اور احترام کو فروغ دینے کے لیے بلکہ ہندوستان کے تکثیری جذبے کے تحت منایا ہے۔
اس میں کہا گیا،’یہ ہمارے نوٹس میں آیا ہے کہ کچھ افراد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ہمارے ادارے کے بارے میں جھوٹے، گمراہ کن اور فرقہ وارانہ اشتعال انگیز پیغامات پوسٹ کیے ہیں اور ہم ان واقعات کو مذہبی پروپیگنڈہ کے طور پر غلط طریقے سے پیش کرنے کی کوششوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔’
بیان میں کہا گیا، ‘اس طرح کے اقدامات صرف سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور عوام کو گمراہ کرتے ہیں اور ہم احترام کے ساتھ تمام افراد اور پلیٹ فارمز سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسی پوسٹ کو فوراً ہٹا دیں اور ادارہ جاتی اور ذاتی سلامتی سے سمجھوتہ کرنا بند کریں۔’
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لیے اس معاملے کو غیر ضروری طور پر طول دیا جا رہا ہے۔
Categories: خبریں