خبریں

جسٹس ورما کے تبادلے کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن غیر معینہ مدت کی ہڑتال پر

سرکاری رہائش گاہ سے خطیر رقم کی برآمدگی کے الزامات کا سامن اکر رہے دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس یشونت ورما کے الہ آباد ہائی کورٹ میں تبادلے کی مخالفت کرنے والے وکلا کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج کسی عدالت یا جج کے خلاف نہیں، بلکہ ان کے خلاف ہے جنہوں نے عدالتی نظام کو دھوکہ دیا ہے۔

دہلی ہائی کورٹ کے جج یشونت ورما (تصویر: دی وائر)

دہلی ہائی کورٹ کے جج یشونت ورما (تصویر: دی وائر)

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ کے جج یشونت ورما سرکاری رہائش گاہ سے خطیر رقم ملنے کے بعد تحقیقات کا سامنا کر ر ہے ہیں اور ان سے عدالتی ذمہ داریاں واپس لینے کے ساتھ ہی  انہیں  ان کی  اصل عدالت الہ آباد ہائی کورٹ  واپس بھیج دیا گیا ہے۔

تاہم، اب الہ آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے جسٹس ورما کو بھیجنے کے کالجیم کے فیصلے کے خلاف منگل (25 مارچ) سے غیر معینہ ہڑتال پر جانے کا اعلان کیا ہے۔

دی ہندو کی خبر کے مطابق، احتجاج کرنے والے وکلاء کی قیادت کرتے ہوئے بار ایسوسی ایشن کے صدر انل تیواری نے نامہ نگاروں کو بتایا،’یہ احتجاج کسی عدالت یا جج کے خلاف نہیں، بلکہ ان کے خلاف ہے جنہوں نے عدالتی نظام کو دھوکہ دیا ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘ہماری لڑائی بدعنوانی میں ملوث لوگوں اور اس نظام کے خلاف ہے جس میں شفافیت کا فقدان ہے۔ فی الحال ہمارا مطالبہ ہے کہ ٹرانسفر آرڈر پر نظر ثانی کیا جائے اور اسے واپس لیا جائے۔’

معلوم ہو کہ سوموار (24 مارچ) کو بار ایسوسی ایشن نے جسٹس ورما کے تبادلے کے خلاف اپنے احتجاج کا اعادہ کیا تھا اور منگل (25 مارچ) سے غیر معینہ مدت کی ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

انل تیواری نے مزید کہا، ‘ایسوسی ایشن اس معاملے پر آر پار کی  لڑائی  کے لیے تیار ہے۔ شروع سے ہی اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آج پورے ہندوستان میں وکلاء یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ جب تک کوئی حل نہیں مل جاتا، ہم کام پر واپس نہیں جائیں گے، چاہے نتائج کچھ بھی ہوں۔’

دریں اثنا، چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کی سربراہی والے سپریم کورٹ کالجیم نے سوموار (24 مارچ) کو جسٹس ورما کو الہ آباد ہائی کورٹ واپس بھیجنے کے اپنے فیصلے کی تصدیق کی۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی گئی تجویز میں جسٹس ورما کو واپس بھیجنے کی مرکزی حکومت سے کی گئی سفارش کو عام کیا گیا۔

معلوم ہو کہ  دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس یشونت ورما کے سرکاری رہائشی احاطے میں آگ سے تباہ شدہ کمرے میں مبینہ طور پر بھاری مقدار میں نقدی ملنے کے بعد سپریم کورٹ نے سنیچر (22 مارچ) کو دیر گئے اس معاملے سے متعلق ایک رپورٹ  جاری کی ہے، جس میں دہلی پولیس کی طرف سے فراہم کردہ کچھ تصاویر اور ویڈیو بھی شامل ہیں۔ اس میں  جلے ہوئے کمرے میں نقدی کی موجودگی کودکھایا گیا ہے۔

اس کے بعد  سپریم کورٹ نے اس معاملے میں دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی کے اپادھیائے کی رپورٹ اور یشونت ورما کے خلاف الزامات پر ان  کے دفاع کو بھی پبلک کیا، جس میں انہوں نے کمرے میں نقدی رکھے جانے سے انکار کیا ہے اور اس معاملے میں سازش کا الزام لگایا ہے۔

اس سلسلے میں جاری ایک پریس ریلیز میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ نے جسٹس ورما کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے لیے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شیل ناگو، ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جی ایس سندھاوالیا اور کرناٹک ہائی کورٹ کے جج انو شیورامن پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اپادھیائے سے کہا گیا ہے کہ وہ فی الحال جج ورما کو کوئی عدالتی کام نہ سونپیں۔

جسٹس ورما کی تردید

غور طلب  ہے کہ جسٹس ورما نے واضح طور پر اس بات کی تردید کی ہے کہ اسٹور روم میں ان کے یا ان کے خاندان کے کسی فرد نے کوئی نقدی رکھی تھی، ساتھ ہی انہوں نےسختی سے اس بات کی بھی تردید کی ہے کہ مبینہ نقدی ان کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ان کی سرکاری رہائش گاہ سے نقدی ملنےکے الزامات واضح طور پرانہیں پھنسانے اور بدنام کرنے کی سازش معلوم ہوتے ہیں۔

جسٹس ورما کو 8 اگست 1992 کو ایک وکیل کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ انہیں 13 اکتوبر 2014 کو الہ آباد ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔

انہوں نے 11 اکتوبر 2021 کو دہلی ہائی کورٹ کا جج مقرر ہونے سے پہلے 1 فروری 2016 کو الہ آباد ہائی کورٹ کے مستقل جج کے طور پر حلف اٹھایا تھا۔