خبریں

سپریم کورٹ نے پاکسو کیس میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو غیر حساس اور غیر انسانی قرار دیا، فیصلے پر روک

الہ آباد ہائی کورٹ نے 17 مارچ کو ایک نابالغ کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملے پر ایک متنازعہ فیصلے میں کہا تھا کہ متاثرہ کی چھاتی پکڑنا اور اس کے پاجامے کا ازاربند توڑ دینا ریپ یا ریپ کی کوشش نہیں سمجھا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو ‘غیر حساس اور غیر انسانی’ قرار دیا ہے۔

سپریم کورٹ. (تصویر: سنتوشی مرکام/دی وائر)

سپریم کورٹ. (تصویر: سنتوشی مرکام/دی وائر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ریپ  کی کوشش کی تعریف سے متعلق الہ آباد ہائی کورٹ کے 17 مارچ کے متنازعہ فیصلے پر بدھ کو روک لگا دی ہے۔ عدالت نے فیصلے کو ’غیر حساس اور غیر انسانی‘ قرار دیتے ہوئے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ذمہ دار جج کے خلاف ’مناسب کارروائی‘ کرنے کی ہدایت دی ہے۔

معلوم   ہوکہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس رام منوہر نارائن مشرا نے ایک نابالغ کے جنسی استحصال کے دو ملزمین کے خلاف ٹرائل کورٹ کی جانب سے لگائے گئے الزامات میں ترمیم کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ متاثرہ کی چھاتی کو پکڑنا اور اس کے پاجامے کا ازاربند توڑنا ریپ یا ریپ کی کوشش نہیں سمجھا جائے گا۔

ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، جسٹس بھوشن آر گوئی اور  جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے ہائی کورٹ کے جسٹس رام منوہر نارائن مشرا کے لکھے گئے فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ‘قانون کے اصولوں’ کی خلاف ورزی کی ہے اور ‘بے حسی ‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔

سینئر وکیل شوبھا گپتا سے مداخلت کی درخواست کرنے والا خط موصول ہونے کے بعد منگل کو معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا۔

بدھ کی سماعت کے دوران بنچ نے جسٹس مشرا کے استدلال پر تنقید کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

بنچ نے کہا، ‘یہ ایک بہت سنگین معاملہ ہے اور جج کی جانب سےبے حسی کا مظاہرہ کیا گیا  ہے… ہمیں آئینی عدالت کے جج کے خلاف ایسے سخت الفاظ استعمال کرنے پر افسوس ہے، لیکن یہ ان معاملات میں سے ایک ہے۔’

سالیسٹر جنرل تشار مہتہ  نے بھی خدشات کو دہرایا اور کہا، ‘کچھ فیصلے ایسے ہیں جن میں فیصلے پر روک لگانے کی وجوہات بتائی گئی ہیں۔ یہ ان میں سے ایک ہے۔ مجھے اس فیصلے پر شدید اعتراض ہے۔ یہ ان معاملات میں سے ایک ہے جہاں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔’

اس کے بعد بنچ نے فوری طور پر فیصلہ ملتوی کرتے ہوئے اپنے حکم میں لکھا، ‘ہمیں فیصلے کے پیراگراف 21، 22 اور 26 پر سخت اعتراض ہے، جو فیصلہ لکھنے والے کی بے حسی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ فیصلہ اچانک سنایا گیا تھا بلکہ نومبر میں محفوظ کیا گیا  تھااور چار ماہ بعد سنایا گیا۔ اس طرح یہ واضح ہے کہ جج نے اپنے دماغ کا استعمال کیا اور یہ فیصلہ لکھا۔’

فیصلے میں مزید کہا گیا، ‘یہ پیراگراف قانون کے اصولوں کے خلاف ہیں اور مکمل طور پر غیر حساس اور غیر انسانی نقطہ نظر کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس فیصلے پر روک لگائی جاتی ہے۔’

معاملے کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ہدایت دی کہ اس حکم کو فوری طور پر الہ آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل کو مطلع کیا جائے، اور چیف جسٹس سے درخواست کی کہ وہ معاملے کی جانچ کریں اور ‘جو مناسب سمجھیں’ کارروائی کریں۔

سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت، ریاست اتر پردیش اور الہ آباد ہائی کورٹ کو بھی باضابطہ نوٹس جاری کیا اور چار ہفتوں کے بعد اگلی سماعت مقرر کی۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے اسپیشل لیو پٹیشن (ایس ایل پی ) دائر کرنے والے رائٹس فار چلڈرن الائنس کو بھی کارروائی میں فریق بنایا گیا ہے۔ نابالغ کی ماں کی طرف سے پیش ہونے والے ایک وکیل نے بھی کیس کا ذکر کیا۔ عدالت نے انہیں کیس میں فریق بننے کے لیے درخواست دائر کرنے کی اجازت دے دی۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے سامنے یہ معاملہ تین میں سے دو ملزمین پون اور آکاش کی طرف سے دائر نظرثانی کی درخواست سے متعلق تھا،  جنہوں  نے کاس گنج ٹرائل کورٹ کی جانب سے جاری تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 376 (ریپ) اور دیگر الزامات کے تحت انہیں سمن جاری کرنے کو چیلنج کیا تھا۔ یہ واقعہ 10 نومبر 2021 کو پیش آیا، جب تینوں ملزمین – پون، آکاش اور اشوک نے اپنے پڑوس کی ایک 11 سالہ لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی زیادتی کی۔

استغاثہ کے مطابق،  ملزمین نے لڑکی کو اپنی موٹرسائیکل پر گھر چھوڑنے کی پیشکش کی، گاڑی روک کر اس کی چھاتیوں کو پکڑنا شروع کر دیا، اسے ایک پلیا  کے نیچے گھسیٹ کر لے گئے اور اس کے پاجامےکا ازار بند توڑ دہا۔

جسٹس مشرا نے فیصلہ سنایا تھا کہ یہ واقعہ تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 376 کے تحت ریپ  کی کوشش کے الزام کی قانونی حد کو پورا نہیں کرتا ہے۔ عدالت نے الزامات کو کم کرتے ہوئے کہا کہ ملزمین پر آئی پی سی کی دفعہ 354 (بی) (برہنہ کرنے کے ارادے سے حملہ  یا مجرمانہ طاقت کا استعمال) اور پروٹیکشن آف چلڈرن فرام سیکسول آفنس (پاکسو) ایکٹ کی دفعہ 9 (سنگین  جنسی حملہ) کے تحت مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ فیصلہ اس استدلال پر مبنی تھا کہ ریپ  کی کوشش کے لیے ایک حد تک پختہ ‘ارادے’ کی ضرورت ہوتی ہے جو محض تیاری سے اوپر کی چیز ہے۔

فیصلے پر شدید تنقید

قانونی ماہرین، کارکن اور سیاست دانوں کی جانب سے اس فیصلے کی شدید مذمت کی گئی۔ خواتین و اطفال کی ترقی کی وزیر  ان پورنا دیوی نے اس فیصلے کو ‘ناقابل قبول’ قرار دیا اور کہا کہ’مہذب معاشرے میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے’ اور سپریم کورٹ کو اس میں مداخلت کرنی چاہیے۔

شیوسینا (یو بی ٹی) کی رکن پارلیامنٹ پرینکا چترویدی نے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ اور مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال کو خط لکھ کر جسٹس مشرا کو عدالتی فرائض سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے لکھا،’مجھے پختہ یقین ہے کہ یہ ایک کرپٹ جج کی طرف سے دیا گیا ایک ناقص فیصلہ ہے۔’ انہوں  نے دلیل دی کہ اس فیصلے نے جنسی ہراسانی کو معمولی بنا دیا ہے اور معاشرے کو ایک خطرناک پیغام دیا ہے۔

سینئر وکیل شوبھا گپتا نے 20 مارچ کو سی جے آئی  کو لکھے اپنے خط میں زور دیا تھا کہ فیصلہ ایک ‘غیر حساس، غیر ذمہ دارانہ’ نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے، جس نے جنسی جرائم کے متاثرین کے تحفظ میں عدلیہ کے کردار کو کمزور کیا ہے۔

انہوں نے عدالت پر زور دیا کہ وہ نہ صرف عدالتی کارروائی کرے بلکہ جسٹس مشرا کو مزید تفتیش تک مجرمانہ روسٹڑ سے ہٹایا جائے۔

معلوم ہو کہ سپریم کورٹ نے اپنے سابقہ فیصلوں میں صنفی حساسیت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے رہنما خطوط جاری کیے ہیں۔

سال 2021 کے ایک تاریخی فیصلے میں ججوں کے لیے بہترین طرز عمل کا خاکہ پیش کیا گیاتھا، جس میں ایسی زبان استعمال کرنے کے خلاف انتباہ  تھی جو جنسی جرائم کی سنگینی کو کم کرتی ہے یا متاثرین کے تجربات کو کم کرتی ہے۔ عدالت نے مشاہدہ کیا تھا کہ تعاقب، چھیڑ چھاڑ اور ہراساں کرنے جیسے جرائم کو معمول بنانے والے رویے کا ‘ متاثرین پر دیرپا اور نقصان دہ اثر پڑتا ہے۔’ اور اس نے نیشنل جوڈیشل اکیڈمی کو ہدایت کی  تھی کہ تمام ججوں کے لیے صنفی حساسیت کی تربیت شامل کی جائے۔