مونی اماوسیہ کے دن بھگدڑ میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن اب اس واقعہ کے دو ماہ بعد بھی سوگوار خاندان اتر پردیش حکومت کی جانب سے اعلان کیے گئے 25 لاکھ روپے کے معاوضے کا انتظار کر رہے ہیں۔

بھگدڑ سے پہلے مہا کمبھ میلے کا منظر۔ (تصویر بہ شکریہ: اندر شیکھر سنگھ)
نئی دہلی: الہ آباد کے مہاکمبھ میں 29 جنوری کو مونی اماوسیہ کے دن بھگدڑ مچنے سے کم از کم 30 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ لیکن اب اس واقعہ کے دو ماہ بعد بھی سوگوار خاندان اتر پردیش حکومت کی جانب سے اعلان کیے گئے 25 لاکھ روپے کے معاوضے کا انتظار کر رہے ہیں ۔
انڈین ایکسپریس نے اپنی خبر میں بتاہا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود متاثرین کے اہل خانہ تذبذب میں ہیں، کیونکہ متاثرین کی فہرست یا معاوضے کی صورتحال کے بارے میں عوامی طور پر جانکاری نہیں دی گئی ہے۔
عالم یہ ہے کہ مسئلہ حل کیے بغیر اہل خانہ کو بار بار مختلف عہدیداروں کے پاس بھیجا جا رہا ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ کئی خاندانوں کو بنیادی دستاویز، جیسے ان کے ہلاک ہونے والے رشتہ داروں کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی نہیں دیے گئے ہیں۔
اخبار کے مطابق، اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ انہیں ابھی تک معاوضے یا دستاویز کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں دی گئی ہے۔
معلوم ہو کہ ریاستی پولیس نے وعدہ کیا تھا کہ بھگدڑ میں ہلاک ہونے والوں کی فہرست جلد منظر عام پر لائی جائے گی، لیکن ابھی تک ناموں کی فہرست جاری نہیں کی گئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ بھگدڑ میں ہلاک ہونے والوں کی حقیقی تعداد کو لے کر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ نیوز لانڈری نے بھی اس بھگدڑ میں کم از کم 79 لوگوں کے مارے جانے کی خبر د ی تھی، جبکہ یوپی کے سابق سی ایم اکھلیش یادو نے دعویٰ کیا تھاکہ کمبھ کے بعد سے تقریباً 1000 لوگ لاپتہ ہیں۔
پارلیامنٹ میں مہا کمبھ تقریب کی تعریف کرتے ہوئے اپنی تقریر کے دوران بھگدڑ اور ہلاکتوں کا ذکر نہ کرنے پر وزیر اعظم نریندر مودی پر بھی اپوزیشن نے حملہ کیا تھا۔ ایک اور سوال کے جواب میں مرکزی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے پاس بھگدڑ میں ہلاک ہونے والوں کا کوئی ڈیٹا نہیں ہے کیونکہ پبلک آرڈر ریاستی حکومت کا معاملہ ہے۔
اتر پردیش حکومت نے واقعہ کے فوراً بعد ہر متاثرہ خاندان کو 25 لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اس کے باوجود، خاندانوں کو یا تو جزوی رقم ملی ہے یا پھر کچھ بھی نہیں۔ بہت سے خاندان اس بات سے ناواقف ہیں کہ انہیں ان فنڈز تک رسائی کے لیے کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
غورطلب ہے کہ سانحہ کے دو ماہ گزرنے کے بعد بھی متاثرہ خاندان اپنے مناسب معاوضے کے منتظر ہیں جبکہ تقسیم کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کیونکہ کچھ خاندانوں کو 25 لاکھ روپے کے بجائے 5 لاکھ روپے ملے ہیں، وہ بھی نقد ی کی صورت میں۔
Categories: خبریں