خبریں

یوپی میں عوامی مقامات پر نماز پڑھنے پر پابندی – یوگی حکومت کا امتیازی رویہ

میرٹھ پولیس نے سڑک پر نماز پڑھنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا انتباہ دیا ہے۔ یوپی کے تمام اضلاع میں عوامی مقامات پر نماز پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اس کے برعکس، کانوڑ یاترا سمیت دیگر ہندو مذہبی تقریبات کے دوران یوپی حکومت خصوصی سہولیات فراہم کرتی رہی ہے، جو اس کے دوہرے اور متعصبانہ رویے کو ظاہر کرتا ہے۔

[علامتی تصویر: Public.Resource.Org/Flickr (CC BY 2.0)]

[علامتی تصویر: Public.Resource.Org/Flickr (CC BY 2.0)]

نئی دہلی: ایک ماہ کے روزے کے بعد منایا جانے والا تہوار عید الفطر اب قریب ہے۔ ادھر ملک کی سب سے بڑی ریاست (اتر پردیش) کی پولیس حفاظتی انتظامات کے نام پر دوہرا معیار اپناتی نظر آرہی ہے۔ کانوڑ یاترا کے لیے سڑک خالی کروانے  والی اتر پردیش پولیس اب سڑک پر نماز پڑھنے پر پابندی لگا رہی ہے۔

میرٹھ میں پولیس نے سڑک پر نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی ہے۔ پولیس نے خبردار کیا ہے کہ اگر کسی نے اس حکم کی خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، فوجداری مقدمات بھی درج کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پاسپورٹ اور لائسنس منسوخ کرنے کی وارننگ بھی دی گئی ہے۔

بی جے پی کی حلیف جماعت کے سربراہ نے احتجاج کیا

اپوزیشن سے پہلے حکمران جماعت کی اتحادی جماعت کے رہنما اس فیصلے کی مخالفت کی۔ مرکزی وزیر اور راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) کے سربراہ جینت سنگھ چودھری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس  پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے، ‘ اآرویل کے پولیس 1984 جیسا پولیسیا کا رویہ!’

جینت جارج آرویل کے ناول ‘1984’ کی  تھاٹ پولیس کا حوالہ دے رہے تھے، جو نہ صرف لوگوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہے بلکہ ان کے خیالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔

دراصل، 1984 کا حوالہ استعمال کر کے وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حکومت اور پولیس حد سے زیادہ کنٹرول کی طرف بڑھ رہی ہے، جہاں شہریوں کے ذاتی حقوق اور مذہبی آزادی پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔

دوسرے لفظوں میں کہیں تو، جینت چودھری کا یہ ٹوئٹ ایک علامتی احتجاج ہے، جس میں وہ یوپی پولیس کی اس پالیسی کا موازنہ ایک اورویلیائی ریاست سے کر رہے ہیں، جہاں حکومت لوگوں کی شخصی آزادی پر بے جا کنٹرول رکھتی ہے اور سخت سزاؤں کا سہارا لیتی ہے۔

کیا ہےمیرٹھ پولیس کا فرمان؟

بدھ (26 مارچ) کو میرٹھ پولیس نے آٹھ افراد کی فہرست ضلع مجسٹریٹ ڈاکٹر وجئے کمار سنگھ کو سونپی، جن پر گزشتہ سال عید کے دوران سڑک پر نماز پڑھنے کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کا الزام ہے۔ پولیس نے ان کے لائسنس اور پاسپورٹ منسوخ کرنے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔

میرٹھ شہر کے ایس پی آیوش وکرم سنگھ نے کہا، ‘ہم نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ قریبی مساجد میں نماز ادا کریں یا وقت پر عیدگاہ پہنچ جائیں۔ ہم نے سخت ہدایات دی ہیں کہ کسی بھی صورت میں سڑکوں پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے سال کچھ لوگوں نے سڑک پر نماز پڑھی تھی جس کی وجہ سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اگر اس بار بھی کوئی کھلے میں نماز پڑھتا ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ہم لوگوں سے مسلسل اپیل کر رہے ہیں۔’

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال کانوڑ یاترا کے دوران پوری دہلی میرٹھ ایکسپریس 28 جولائی سے 4 اگست تک بند کی گئی تھی ۔

نماز کے حوالے سے صرف میرٹھ میں فرمان نہیں

نماز پر ایسی پابندیاں صرف میرٹھ میں ہی نہیں لگائی جا رہی ہیں بلکہ یوپی کے کئی اضلاع سے بھی ایسی ہی خبریں آ رہی ہیں۔ لوگوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ وہ نہ صرف عوامی مقامات پر بلکہ اپنی چھتوں پر بھی نماز نہ پڑھیں۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، سنبھل کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کرشن کمار بشنوئی نے بتایا کہ پولیس نے سڑک پر نماز پڑھنے کے خلاف ایک ایڈوائزری جاری کی ہے، ‘کوئی  بھی شخص سڑک پر نماز نہیں پڑھے گا۔ گھر پر اجتماعی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھ سکتے ہیں، لیکن اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔’

علی گڑھ کے ایس پی مرگانک شیکھر پاٹھک نے کہا کہ عید کی نماز کو لے کر کوئی خاص حکم جاری نہیں کیا گیا ہے۔ ‘ہم اتر پردیش حکومت کی ایڈوائزری پر عمل کر رہے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ عوامی مقامات پر نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ امن کمیٹی کا اجلاس بلا کر لوگوں کو یہ ہدایات دی گئی ہیں۔’

ہاتھرس کے ایس پی چرن جیو ناتھ سنہا نے کہا ہے کہ انہوں نے بھی کوئی خاص حکم جاری نہیں کیا ہے۔ ‘ہم کسی بھی برادری کے کسی کو سڑکوں یا عوامی مقامات پر عبادت کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ ایک تہوار کا دن ہے اور لوگ اسے اپنے گھروں میں منا سکتے ہیں۔’

غازی آباد پولیس نے کہا ہے کہ اگر بھیڑ زیادہ ہو جاتی ہے تو لوگوں سے شفٹوں میں نماز پڑھنے کو کہا جائے گا۔ ٹرانس ہندن ڈی سی پی کا کہنا ہے کہ ‘ہم نے تمام حساس علاقوں، مساجد اور عیدگاہوں کے قریب سیکورٹی فورسز کو تعینات کر دیا ہے… ڈرون کے ذریعے مسلسل نگرانی کی جائے گی۔’

بتادیں کہ عام طور پر نماز کو مکمل کرنے میں 5 سے 10 منٹ لگتے ہیں، جبکہ کانوؑ یاترا پورے مہینے چلتی ہے۔ رام نوامی جیسی یاترا کئی گھنٹے اور لمبی دوری تک چلتی ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اتر پردیش کی حکومت ہندو تہواروں میں جوش و خروش سے حصہ لیتی ہے،سیکورٹی کے نام پر کوئی پابندی نہیں لگاتی بلکہ زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرتی ہے۔

کمبھ اس کی تازہ ترین مثال ہے، جس کی وجہ سے الہ آباد کے آس پاس کے اضلاع میں بھی ٹریفک جام کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ کمبھ کی وجہ سے عام شہری کی زندگی درہم برہم ہوگئی تھی، لیکن اس کی وجہ سے حکومت نے کمبھ کو بند نہیں کیا۔ کانوڑ یاترا کے دوران مذہبی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف نان ویجیٹیرینز کی دکانیں بند کرائی گئیں بلکہ دیگر اشیاء فروخت کرنے والے مسلمان دکانداروں کو بھی اپنی شناخت ظاہر کرنے پر مجبور کیا گیا۔ بعد میں عدالت کی مداخلت کے بعد ا س پر روک لگی۔