خبریں

مدھیہ پردیش: مسجد کے سامنے اشتعال انگیز نعرے لگانے اور پتھراؤ کرنے کے الزام میں بی جے پی لیڈر کے خلاف کیس

مدھیہ پردیش پولیس نے بی جے پی لیڈر اور گنا کونسلر اوم پرکاش عرف گبر کشواہا کے خلاف مقامی مسجد کے سامنے جلوس نکالنے، اشتعال انگیز نعرے لگانے اور پتھراؤ کرنے کا معاملہ  درج کیا ہے۔ 12 اپریل کو گنا کے کرنل گنج سے گزرنے والے ایک جلوس نے مبینہ طور پر مدینہ مسجد کے قریب امن عامہ میں خلل ڈالا تھا۔

نئی دہلی: مدھیہ پردیش پولیس نے بی جے پی لیڈر اور گنا کے مقامی کونسلر اوم پرکاش عرف گبر کشواہا کے خلاف مقامی مسجد کے سامنے جلوس نکالنے، اشتعال انگیز نعرے لگانے اور پتھراؤ کرنے کا معاملہ  درج کیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق  ، کوتوالی تھانے کے سب انسپکٹر مہیش لاکرا کی طرف سے درج کرائی گئی پولیس رپورٹ کے مطابق، کولہوپورہ سے شروع ہوکر کرنل گنج سے گزر رہے جلوس نےمبینہ طور پر مدینہ مسجد کے قریب امن عامہ میں خلل ڈالا۔

پولیس کو 12 اپریل کو شام 4 بجے کے قریب مسجد کے قریب ایک جلوس کی اطلاع ملی۔ لکڑا، ایس آئی تورن سنگھ اور دیگر افسران کے ساتھ موقع پر پہنچے اور پایا کہ بی جے پی لیڈر کی قیادت میں ایک جلوس نکل رہا ہے، جس میں اس کے ساتھی مونو اوجھا، وشال انوٹیا اور سنجے عرف بگا رگھوونشی بھی شامل تھے۔

جب اس سے جلوس کی اجازت اور ڈی جے کے استعمال کے بارے میں پوچھا گیا تو اس گروپ نے مبینہ طور پر پولیس کے اختیار پر سوال اٹھاتے ہوئے بغاوتی  انداز میں جواب دیا۔ جلوس کو روکنے کی کوششوں کے باوجوداس شامل  افراد مبینہ طور پرمسجد کے سامنے رک گئے، اونچی آواز میں ڈی جے بجایا اور ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بناتے ہوئے اشتعال انگیز نعرے لگائے، جن میں یہ بھی کہا گیا کہ، ‘آپ اس طرح نہیں سمجھیں گے؛ ہمیں آپ کو پاکستان بھیجنا پڑے گا۔’

پولیس نے بتایا کہ حالات اس وقت خراب ہوگئے جب بی جے پی لیڈر اور 10-15 دیگر نے مبینہ طور پر پولیس کی ہدایات پر عمل کرنے سے انکار کردیا، نعرے بازی شروع کردی اور پتھراؤ شروع کردیا۔

پولیس نے بتایاکہ بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے اضافی پولیس فورس طلب کی گئی اور حالات کو قابو میں کر لیا گیا۔

شکایت کی بنیاد پربھارتیہ نیائے سنہتا 2023 کی دفعہ 191 (2)، 299 اور 132 کے تحت غیر قانونی اجتماع، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور سرکاری ملازمین کو عوامی کاموں کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے جیسے جرائم کے لیے ایک مقدمہ درج کیا گیا۔

اس پر کشواہا نے کہا، ‘مجھے سمجھ  میں نہیں آ رہا ہے کہ انتظامیہ مجھے کیوں نشانہ بنا رہی ہے۔ وہ میرے خلاف فوجداری مقدمات درج کر رہے ہیں۔ میرے لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جا رہا ہے۔ تفتیش میں  میرے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے سے پہلے شواہد کو دیکھنا چاہیے۔’

اس واقعہ کے سلسلے میں وشو ہندو پریشد کے کارکنوں کے ایک گروپ کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے جس نے سوموار کو گنا کے ہنومان چوک میں مبینہ طور پر ہنگامہ آرائی کی۔

بی جے پی کے ترجمان نریندر سلوجا نے اخبار کو بتایا، ‘ہر کوئی اس ویڈیو کو دیکھ سکتا ہے، جس میں مسجد سے پتھراؤ شروع ہوا تھا۔ بی جے پی کونسلر کے خلاف مقدمہ کیوں درج کیا گیا؟ اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے۔’

کوتوالی پولیس اسٹیشن میں تعینات ایک پولیس افسر نربھے برج موہن سنگھ بھدوریا کے مطابق، وی ایچ پی کے کارکن پہلے ہنومان چوک پر جمع ہوئے اور میمورنڈم پیش کرنے کے لیے ضلع کلکٹر کے دفتر کی طرف بڑھے۔ لیکن، رنجیت کھٹک، آشیش رگھوونشی، کیلاش موریہ، منیش شرما (سابق کونسلر)، راجندر کشواہا اور 20-25 دیگر کی قیادت میں ایک گروپ مبینہ طور پر چوراہے پر واپس آیا اور نعرے بازی شروع کردی، جس کی وجہ سے سڑک جام ہو گیا۔

پولیس کی طرف سے منتشر ہونے کی بار بار اپیلوں کے باوجود گروپ نے امن عامہ کو درہم برہم کرتے ہوئے اپنا احتجاج جاری رکھا۔ پولیس کنٹرول روم کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں قید ہونے والے واقعے کے بعد ملزمان کے خلاف عوامی نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے اور امن  و امان کو بگاڑنے کا معاملہ درج کیا گیا۔

Categories: خبریں

Tagged as: , , , ,