سیل میں سینکڑوں کروڑ کے مبینہ گھوٹالے میں ایک ایسی کمپنی کا نام سامنے آیا ہے، جس نے بی جے پی کو 30 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ دیے تھے۔ اس پورے معاملے کو بے نقاب کرنے والے افسر راجیو بھاٹیہ کو پہلے سیل نے معطل کیا تھا اور اب انہیں قبل از وقت ریٹائر کر دیا گیا ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
نئی دہلی: گزشتہ چند برسوں میں یہ شکایات لوک پال تک پہنچی ہیں کہ بدعنوانی کی وجہ سے حکومت ہند کی ملکیت اسٹیل اتھارٹی آف انڈیا لمیٹڈ (سیل) کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ایسے کچھ معاملوں میں سینٹرل ویجیلنس کمیشن (سی وی سی) سےابتدائی تحقیقات کروانے کے بعد لوک پال نےمعاملےسی بی آئی کو سونپ دیے ہیں، اور کچھ معاملوں کو لوک پال نے براہ راست سی بی آئی کو دے دیا ہے۔
جولائی2023 میں سی وی سی کے ذریعے لوک پال کو پیش کی گئی ابتدائی تحقیقات اور اکتوبر 2024 میں سی بی آئی کی طرف سے درج ایف آئی آر میں ایک ایسی کمپنی کا نام لیا گیا ہے ،جو بی جے پی کو چندہ دیتی آئی ہے۔ یہ کمپنی ہے ایپکو انفراٹیک پرائیویٹ لمیٹڈ۔ اس کی ویب سائٹ کہتی ہے، ‘ایپکو وزیراعظم نریندر مودی کے پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت والے ہندوستان کے خواب کو پورا کرنے میں اہم شراکت داروں میں سے ایک ہے۔’
الیکشن کمیشن کی جانب سے 14 مارچ 2025 کو شائع کردہ ڈیٹاکے مطابق، اس کمپنی نے 15 جنوری 2020 سے 12 اکتوبر 2023 کے درمیان 30 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ خریدے تھے اور ان سب کو بی جے پی نے کیش کرایا تھا۔

ایپکو کی ویب سائٹ
ایپکو پر وینکٹیش انفرا پروجیکٹس پرائیویٹ لمیٹڈ (وی آئی پی پی ایل) کے ساتھ مل کر سیل کو بھاری نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔ 10 جنوری 2024 کے اپنے فیصلے میں لوک پال نے ان کمپنیوں اور سیل کے درمیان گٹھ جوڑ پر سخت تبصرہ کیا تھا۔
جسٹس ابھیلاشا کماری،ارچنا راما سبرامنیم اور مہیندر سنگھ کی بنچ نے فیصلہ سنایا تھا،’ایسا لگتا ہے کہ سیل کے عہدیداروں کی طرف سے محتاط رویہ اختیارنہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے وی آئی پی پی ایل کو دوسرے گراہکوں کے مقابلے کم قیمت پر سامان دیا گیا۔’
سیل کے اندرونی عمل پر سنگین سوال اٹھاتے ہوئے لوک پال نے کہا، ‘یہ صرف مالی نقصان کا سوال نہیں ہے، بلکہ یہ بھی اہم ہے کہ کیا کمپنی کو نقصان پہنچانے اور فائدہ پہنچانے کے ارادے سے سسٹم میں جان بوجھ کر چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ اسٹیل مارکیٹ میں تجربہ کار کھلاڑی، سیل کے عہدیداروں کے ساتھ مل کر، سسٹم میں گڑبڑ ی کر سکتے ہیں۔’
کون ہیں اسٹیل مارکیٹ کے کھلاڑی ؟ سیل کے ساتھ کیا ہے ان کی ملی بھگت ؟
دی وائر کی یہ خصوصی تحقیقات سیل میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور اس کے عہدیداروں کی ملی بھگت کو بے نقاب کرتی ہے۔
سیل کے خلاف بنیادی الزام یہ ہے کہ اس نے 100 سے زائد ایسی کمپنیوں کو سستے دام پر 1100000 سے زیادہ میٹرک ٹن اسٹیل فروخت کیا، جو کسی قسم کی مینوفیکچرنگ نہیں کر رہی تھیں، بلکہ مینوفیکچرنگ کے کام کے نام پر سیل سے چھوٹ لے رہی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ کمپنیاں سیل سے کم قیمت پر خریدے گئے اسٹیل کو زیادہ ریٹ پر دوسری کمپنیوں کو فروخت کر رہی تھیں۔ سیل ایم او یو کے تحت اسٹیل خریدنے والی تعمیراتی کمپنیوں کو ‘بلاسود قرض’ فراہم کرتا ہے۔ اگر کوئی کمپنی اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھاتی ہے تو اسے اتنی رقم کی چھوٹ دی جاتی ہے۔
لوک پال کے پاس درج کرائی گئی شکایات کے مطابق، اس بے ضابطگی سے سیل کو 400 کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔
سب سے زیادہ منافع بخش کمپنی
تحقیقاتی اداروں کی تحقیقات کے مطابق، ان مبینہ بے ضابطگیوں کا سب سے بڑا فائدہ وی آئی پی پی ایل کو ہوا ہے، اور اس کمپنی سے جڑے کرپشن کے الزامات میں ایپکو کاکردار ہے۔
یہ کہانی اس وقت شروع ہوئی جب ایپکو کے جاری کردہ سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر، سیل نے 20 اکتوبر 2020 کو وی آئی پی پی ایل کے ساتھ ایک سال میں 150000 میٹرک ٹن اسٹیل کی سپلائی کا معاہدہ کیا۔ وی آئی پی پی ایل پر کنسٹرکشن کمپنی نہ ہونے کا الزام ہے، اس کے باوجود اسے کنسٹرکشن کمپنیوں سے زیادہ مراعات ملیں۔ معاہدے کے مطابق، وی آئی پی پی ایل نے اس اسٹیل کو تعمیراتی کام کے لیے استعمال کرنا تھا۔ لیکن کیا وی آئی پی ایل نے ایسا کیا؟
دراصل، وی آئی پی پی ایل کوئی تعمیراتی کام نہیں کر رہا تھا۔ تفتیشی ایجنسیوں کے مطابق ،اس نے سیل سے اسٹیل کم قیمت پر خریدا اور اسے زیادہ قیمت پر مارکیٹ میں فروخت کیا۔
لیکن ایسا کیوں ہوا؟ کیا سیل کو اس کمپنی کے بارے میں علم نہیں تھا؟
سی وی سی کی تحقیقات کا کہنا ہے کہ سیل کے عہدیداروں نے وی آئی پی پی ایل کے ساتھ معاہدہ (ایم او یو) پر دستخط کرنے سے پہلے کمپنی کی تفتیش نہیں کی۔ وی آئی پی پی ایل 12اکتوبر 2020 کو تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف آٹھ دن پہلے بننے والی کمپنی نے ملک کی اعلیٰ اسٹیل کمپنی کے ساتھ ایک بڑا معاہدہ کر لیا۔

کارپوریٹ امور کی وزارت (ایم سی اے) حکومت ہند کی جانب سے جاری وی آئی پی پی ایل کے رجسٹریشن کا سرٹیفکیٹ
سیل نے دلیل دی تھی کہ وی آئی پی پی ایل تعمیراتی کام کرتا ہے یا نہیں اس کی تحقیقات نہیں کی گئیں کیونکہ سیل کی ایم او یو پالیسی میں اس کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔
اس کے جواب میں سی وی سی نے کہا،’یہ کمپنی سیل کی گراہک نہیں تھی… وی آئی پی پی ایل کی طرف سے جمع کرائے گئے دستاویزات پر اندھا اعتماد کرنے کے بجائے… مستعدی سے کام لیا جانا چاہیے تھا۔’

سیل نے وی آئی پی پی ایل کے ساتھ اپنے پرانے کلائنٹ ایپکو کی طرف سے دیے گئے ایک سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر معاہدہ کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وی آئی پی پی ایل ان کے ساتھ منسلک ہے۔
الزامات کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔
تحقیقاتی ایجنسیوں کے مطابق، سیل سے خریدا گیا زیادہ ترا سٹیل (تقریباً 1 لاکھ 24 ہزار میٹرک ٹن) وی آئی پی پی ایل نے اپنی ‘تعمیراتی سائٹ’ پر نہیں منگوایا تھا، بلکہ دیگر کمپنیوں کے نام اور پتے پر منگوایا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وی آئی پی پی ایل سیل سے اسٹیل خرید کر دوسری کمپنیوں کو سپلائی کر رہا تھا۔
وی آئی پی پی ایل اور سیل کے معاہدے کی اصل وجہ: ایپکو کا سرٹیفکیٹ
دراصل، سیل نے وی آئی پی پی ایل کے ساتھ اپنے پرانے کسٹمر ایپکو (جو تعمیراتی کام کرتا ہے) کے جاری کردہ سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر معاہدہ کیا تھا۔
وی آئی پی پی ایل 12 اکتوبر 2020 کو تشکیل دیا گیا تھا، جبکہ 12 ستمبر 2020 کو ہی، ایپکو نے یہ سرٹیفکیٹ جاری کر دیا تھا، جس میں کہا گیا تھاکہ وی آئی پی پی ایل ان کے ساتھ 11 منصوبوں (بشمول ایکسپریس وے پروجیکٹس) پر کام کر رہا ہے اور اس کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔
اس بے ضابطگی کے پیش نظر سیل ویجیلنس نے 23 مارچ 2023 کو ایپکوسے رابطہ کیا اور وی آئی پی پی ایل کو دیے گئے ورک آرڈر کی کاپیاں اور سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی وجہ پوچھی۔ ایپکو نے 22 اپریل کو جواب دیا کہ وی آئی پی پی ایل کی پروموٹر ایکتا اگروال کا اس کے ساتھ دیرینہ تعلق ہے اور کمپنی پہلے وینکٹیش اسٹیل کے نام سے چلتی تھی۔ وی آئی پی پی ایل نام کو ایم سی اے (منسٹری آف کارپوریٹ افیئرز) نے 07 ستمبر 2020 کو منظور کیا تھا، جس کے بعد ایپکو نے پرانے آرڈرز کو اس نئی کمپنی کو منتقل کر دیا۔
لیکن ایپکو نے کہا کہ وہ پرانے ورک آرڈر فراہم نہیں کر سکتی کیونکہ ان میں سے زیادہ تر پروجیکٹ اب بند ہو چکے ہیں۔
ایپکو نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے سرٹیفکیٹ سیل کے لیے نہیں دیا تھا۔ لیکن اگر سرٹیفکیٹ سیل کو نہیں دیا گیا تھا، تو پھر سیل نے آخرکیسے ایک بالکل نئی کمپنی کو سٹیل کی فراہمی کم نرخوں پر کر دی؟

سی وی او-سیل نے یہ رپورٹ 6 مئی 2023 کو وزارت اسٹیل کو سونپی تھی۔
سی وی او-سیل نے پایا کہ ایپکو نے سرٹیفکیٹ جاری کرتے وقت غلط دعوے کیے تھے۔ سرٹیفکیٹ میں لکھا تھا ہے کہ وی آئی پی پی ایل اور ایپکو مل کر ہندوستان بھر میں 11 بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں ری انفورسمنٹ اور اسٹرکچرل اسٹیل کا کام کر رہاہے۔ اس میں این ایچ اے آئی (نیشنل ہائی ویز اتھارٹی آف انڈیا) کے کئی پروجیکٹ بھی شامل ہیں، لیکن سی وی سی نے پایا کہ یہ دعویٰ بے بنیاد تھا۔
این ایچ اے آئی نے سی وی او-سیل کو بتایا کہ ایپکو ان کے ساتھ تین پروجیکٹ کر رہا تھا ،لیکن وی آئی پی پی ایل ان میں سے کسی میں بھی سب-کانٹریکٹر نہیں تھا۔ ان حقائق کی روشنی میں، سی وی او-سیل نے درج کیا، ‘یہ دعویٰ کہ وی آئی پی پی ایل کا ایپکو کے ساتھ دیرینہ تعلق ہے اور اس نے ایپکو کے لیے کام کیا ہے، قابل اعتبار نہیں لگتا۔’ سیل کے سی وی او (چیف ویجیلنس آفیسر) نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ‘وی آئی پی پی ایل اور ایپکو کے درمیان کاروباری گٹھ جوڑ ہی اس مسئلے کی جڑ’ ہے۔

اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ وی آئی پی پی ایل سیل سے سامان خرید کر ایپکو کو بھیج رہا تھا۔ مزید یہ کہ سیل سے خریدے گئے زیادہ تر سامان کا بل دوسری فرموں کے مقامات پر دیا گیا تھا۔
ایپکو کا بی جے پی کنکشن
الیکشن کمیشن کے مطابق، لکھنؤ کے ایک پتے پر رجسٹرڈ ایپکو نے 15 جنوری 2020 سے 12 اکتوبر 2023 کے درمیان 30 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ خریدے تھے اور انہیں بی جے پی نے کیش کرایا تھا۔ ان دنوں میڈیا رپورٹس میں کہا جاتا تھا کہ اس کمپنی پر بی جے پی کی ‘خاص مہربانی’ تھی۔ حالیہ برسوں میں، ایپکو نے ہزاروں کروڑ روپے کی لاگت کے کئی بڑے اور باوقار سرکاری منصوبے حاصل کیے ہیں۔
کمپنی کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ وہ ہندوستان میں 10 ایکسپریس وے پروجیکٹس پر کام کر رہی ہے، جس میں ملک کا پہلا 14 لین ایکسپریس وے (دہلی-میرٹھ ایکسپریس وے) بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ، یہ جموں و کشمیر میں زیڈ-موڑ ٹنل پروجیکٹ، ممبئی میں کیبل اسٹے برج، اور دہلی/این سی آر میں ایلیویٹڈ وائڈکٹ میٹرو پروجیکٹ جیسے بڑے کاموں کو بھی انجام دے رہا ہے۔
سی بی آئی کی ایف آئی آر
لوک پال کے حکم پر سی بی آئی نے 10 اکتوبر 2024 کو اس معاملے میں ایف آئی آر درج کی ، جس میں وی آئی پی پی ایل کے ساتھ ایپکو کا بھی نام ہے۔ سی بی آئی ایف آئی آر میں سیل کے افسر، وینکٹیش انفرا پروجیکٹس پرائیویٹ لمیٹڈ اور ایپکو کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔ مقدمہ مجرمانہ سازش، دھوکہ دہی، جعلسازی، جعلی دستاویزات کے استعمال اور انسداد بدعنوانی ایکٹ کے تحت درج کیا گیا تھا۔
یہاں یہ بات شامل کرنا ضروری ہے کہ یہ واحد کمپنیاں نہیں ہیں جنہوں نے جعلی ‘پروجیکٹس’ کے نام پر سیل کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ وی آئی پی پی ایل کی طرح کل 43 کمپنیوں کے خلاف لوک پال سے شکایت کی گئی ہے جنہوں نے گزشتہ کئی سالوں میں تعمیرات کے نام پر سیل کی پالیسیوں کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ ایسی کئی کمپنیوں کی شکایات سی وی سی (سینٹرل ویجیلنس کمیشن) اور سیل کے چیف ویجیلنس آفیسر (سی وی او-سیل) کے پاس زیر التوا ہیں۔ ان کے بارے میں ہم بعد میں تفصیل سے رپورٹ کریں گے۔
لوک پال کا حکم
لوک پال کے فیصلے میں لکھا ہے کہ ‘سیل کے عہدیداروں نے ضروری جانچ –پڑتال نہیں کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وی آئی پی پی ایل کو باقی سامان گراہکوں کے مقابلے کم قیمت پر فراہم کیا گیا۔ اس کی وجہ سے سیل نے زیادہ منافع کمانے کا موقع کھو دیا۔ اس لیے ممکن ہے کہ کچھ اہلکار وی آئی پی پی ایل کے ساتھ ملی بھگت میں ملوث ہوں۔’
لوک پال نے مزید لکھا کہ اسٹیل کی وزارت چاہتی ہے کہ ‘اس معاملے کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے’، جو ‘کسی بیرونی ایجنسی کے ذریعے’ کی جانی چاہیے تاکہ ‘یہ معلوم کیا جاسکے کہ سرکاری افسران کے نجی کمپنیوں کے ساتھ کیا تعلقات رہے ہیں’۔
جواب میں سیل نے کہا تھا، ‘کوئی نقصان نہیں ہوا ہے – نہ ہی قیاس آرائی پر مبنی اور نہ ہی علامتی…. سیل میں وی آئی پی پی ایل کوٹی ایم ٹی بار فروخت کرنے کی تجویز کو منظور کرنے میں کوئی بے ضابطگی نہیں تھی، کیونکہ وی آئی پی پی ایل نہ تو کوئی جعلی کمپنی تھی اور نہ ہی کوئی شیل کمپنی، بلکہ اسٹیل مارکیٹ میں ایک حقیقی اور فعال کاروبار کر رہی تھی۔’
لیکن لوک پال نے اس دفاع کو مسترد کرتے ہوئے کہا، ‘ایسا لگتا ہے کہ سیل کے حکام کی طرف سے احتیاط سے کام نہیں لیا گیا، جس کی وجہ سے وی آئی پی پی ایل کو دیگر صارفین کے مقابلے میں کم قیمت پر سامان دیا گیا۔’
اعلیٰ حکام سے لے کر سی بی آئی تک شکایت کیسے پہنچی؟
قابل ذکر ہے کہ17 نومبر 2022 کو سیل –سی ایم او ہیڈکوارٹر (کلکتہ) میں تعینات جنرل منیجر، (مارکیٹنگ) اینڈ پروڈکٹ مینیجر، راجیو بھاٹیہ نے سیل کے اس وقت کے چیئرمین سوما منڈل اور ڈائریکٹر کمرشیل وی ایس چکرورتی کو تین شکایات بھیجیں۔ پہلی شکایت وی آئی پی پی ایل کے حوالے سے تھی۔ شکایت کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد 24 نومبر 2022 کو راجیو بھاٹیہ کو بغیر کسی وضاحت کے معطل کر دیا گیا۔ وہ 10 ماہ تک معطل رہے۔ معطلی کے دوران بھاٹیہ نے 1 دسمبر 2022 کو وزیر اعظم کو ایک خط لکھا، جس میں انہیں اس معاملے سے آگاہ کیا اور انکوائری کا مطالبہ کیا۔
اس کے بعد بھاٹیہ نے وزیر اعظم کے دفتر کو دو اور شکایات بھیجیں، جس میں ایپکو کے علاوہ کئی دیگر کمپنیوں کا نام لیا گیا۔ لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اس کے بعد بھاٹیہ نے 11 جنوری 2023 کو لوک پال سے رجوع کیا۔ لوک پال نے 28 مارچ 2023 کو ان شکایات کا نوٹس لیا اور سینٹرل ویجیلنس کمیشن (سی وی سی) کو ابتدائی تحقیقات کا حکم دیا۔ پھر سی وی او-سیل کی تحقیقاتی رپورٹ 24 اگست 2023 کو سی وی سی کے پاس پہنچی۔
دس جنوری 2024 کو لوک پال نے سی بی آئی کو تحقیقات کا حکم دیا۔ اس کے فوراً بعد، 19 جنوری، 2024 کو، اسٹیل کی وزارت نے 29 اہلکاروں کو معطل کر دیا ، جن میں سیل کے دو اہلکار، وی ایس چکرورتی (ڈائریکٹر – کمرشیل)، شری اے کے تلسیانی (ڈائریکٹر – فنانس) کے ساتھ ساتھ این ایم ڈی سی کے ڈائریکٹر وی سریش بھی شامل تھے۔
اس کے علاوہ سیل نے ایگزیکٹو ڈائریکٹر (فنانس اینڈ اکاؤنٹس) سی ایم او ایس کے شرما، ایگزیکٹو ڈائریکٹر (کمرشیل) ونود گپتا، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر (سیلز اینڈ آئی ٹی ڈی) اتل ماتھر، اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر (مارکیٹنگ سروسز) آر ایم سریش سمیت کئی دیگر سینئر افسران کو بھی معطل کر دیا۔
عام انتخابات 2024 کے بعد تمام افسران کو جون 2024 میں بحال کر دیا گیا۔
لیکن شکایت کرنے والےراجیو بھاٹیہ کو سیل نے اس سال 16 فروری کو کچھ دیگر افسران کے ساتھ قبل از وقت ریٹائر کر دیا ۔ سیل کے مطابق، یہ افسران ‘ایمانداری اور احتساب’ کے معیار پر پورا نہیں اترے تھے۔
قابل ذکر ہے کہ راجیو بھاٹیہ خود اس معاملے کو سامنے لائے تھے، لیکن انہیں سات سال قبل نوکری چھوڑنے کے لیے کہا گیا۔
ملزمین کا کیا کہنا ہے؟
دی وائر نے اس معاملے میں شامل تمام فریقوں سے رابطہ کیا۔ سیل نے اس موضوع پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ ہم نے وی آئی پی پی ایل کو ایک میل بھیجا اور اس کے ڈائریکٹر ایکتا اگروال سے رابطہ کیا۔ ایپکو کو بھی ای میل کے ذریعے سوالات بھیجے گئے، لیکن ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔