خاص خبر

راجستھان میں سولر پاور پلانٹس کا قہر

راجستھان میں آ رہے سولر پاور پلانٹس کی وجہ سے قدرتی نباتات تباہ ہو رہی ہیں، چراگاہیں ختم ہو رہی ہیں اور حیاتیاتی تنوع کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ راجستھان کا فخر سمجھے جانے والے کھیجڑی کے درخت بڑے پیمانے پر کاٹے جا رہے ہیں۔

راجستھان کے دور دراز علاقوں میں سولر پاور پلانٹس کے لیے بڑے پیمانے پر زمین مختص کیے جانے کی وجہ سے چراگاہوں اور جنگلات کا بحران شدید ہوتا جا رہا ہے۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ/وکی میڈیا کامنز)

جئے پور: جیسلمیر کے دھولیا گاؤں کے رہائشی رادھےشیام پیمانی شوقیہ فوٹوگرافر تھے۔ (بدقسمتی سے 23 مئی کو رات گئے وہ ایک ہرن کو شکاریوں سے بچانے کی کوشش میں سڑک حادثے میں ہلاک ہو گئے۔) گزشتہ چند سالوں میں ان کے علاقے میں کئی سولر پاور پلانٹس آگئے تھے، جس کے بعد ان کے کیمرے میں بعض عجیب وغریب مناظر قید ہونے لگے۔

ایک رات انہوں  نے شمسی پینل سے لیس ایک میدان پر  پیلیکن پرندےکے ایک جھنڈکواترتے دیکھا۔ پہلے یہاں تالاب ہوا کرتے تھے، لیکن اب سولر پلانٹس آگئے تھے۔ رات کے وقت شمسی پلیٹوں کو چمکتے دیکھ کر ان پرندوں کو لگا کہ  جھیل ہے۔ کانچ کو پانی سمجھ کر ‘یہ پرندہ کانچ پر پھسل گیا اور اس کے پاؤں زخمی ہو گئے،’ انہوں نے بتایا تھا۔

سولر پلیٹوں کی نیلی چمک ایک سراب پیدا کر رہی ہے۔

§ 

اسی علاقے میں بھیڑ، بکریاں، گائے اور اونٹ چرانے والے امیدرام اور ہنومان رام بتاتے ہیں کہ پہلے روہی (وہ علاقہ، جہاں جانور اور پرندے گاؤں سے تھوڑی دور گھومتے نظر آتےہیں) پر کچھ خاص پرندے نظر آتے تھے لیکن اب نظر نہیں آتے۔ جب سے اس علاقے میں بجلی کی تاریں بچھائی گئی ہیں اور سولر لائٹس آئی ہیں، آپ پہلے کی طرح جانوروں کونہیں چرا سکتے۔

راجستھان کے دور دراز علاقوں میں بڑے پیمانے پر سولر پاور پلانٹس کے لیے زمین مختص کرنے سے چراگاہوں اور  جنگلات کی زمین (اورن) پر بحران شدید ہوتا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ باڑمیر، جیسلمیر، بیکانیر اور جودھپور کے دیہی علاقوں میں طویل عرصے سے گونج رہا ہے۔ اس معاملے نے راجستھان اسمبلی میں بھی طول پکڑا، جہاں 21 مارچ کو لینڈ ریونیو اور قانون کی توثیق بل 2025 پر بحث کے دوران باڑمیر کی شیو سیٹ سے آزاد ایم ایل اے رویندر سنگھ بھاٹی نے حکومت پر سخت حملہ کیا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ریاستی حکومت مغربی راجستھان کی زمین کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے قدموں میں ڈال رہی ہے۔

چراگاہوں اور جنگلات پر منڈلا تے خطرے

باڑمیر اور جیسلمیر کی چراگاہ اور اورن پر سب سےزیادہ خطرہ  منڈلا رہا ہے۔ شیو، بھیرو پورہ، ہڑوا، دیوکا، منیہاری، متی کا گول، جھلوڑا بھاٹیان، موکلا سمیت کئی گاؤں میں شمسی توانائی کے منصوبوں کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاج ہوئے ہیں۔

اس تحریک کی قیادت کرنے والے ایک مقامی کارکن بھوپال سنگھ بھاٹی کہتے ہیں، ‘یہ سلسلہ 2010-11 سے ہی چل رہا ہے۔ اب تک 1.57 لاکھ بیگھہ سے زیادہ زمین مختلف کمپنیوں کو دی جا چکی ہے۔’

رویندر سنگھ بھاٹی کہتے ہیں، ‘ترقی کے نام پر ہمارے ساتھ غیر منصفانہ سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ اگر پورا علاقہ سولر پلانٹس سے بھر جائے گاتو ہمارے جانور کہاں جائیں گے؟ ہماری چراگاہ اور اورن کا کیا ہو گا؟’

اکھل بھارتیہ جیو رکشا بشنوئی سبھا کےاراکین نے اس ہفتے اس مسئلہ پر وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کی۔ سبھا کے ترجمان شیوراج بشنوئی نے بتایا کہ ا راجستھان میں جہاں بھی سولر کمپنیاں پلانٹ لگا رہی ہیں وہاں نہوں نے درختوں کی کٹائی کو روکنے کا مطالبہ کیا۔

شمسی توانائی کے منصوبوں سے ماحولیاتی خطرات

ماہرین کے مطابق، سولر پلانٹس کی وجہ سے جانوروں کی چراگاہیں ختم ہو رہی ہیں اور حیاتیاتی تنوع کو شدید خطرات کا سامنا ہے ۔ راجستھان کے سینئر ویٹرنری ڈاکٹر ایم ایل پریہار نے خبردار کیا، ‘سولر پلانٹس جانوروں کی قدرتی نباتات کو تباہ کر رہے ہیں۔ کھیجڑی کے درخت، جو صحرائی ماحولیات کی بنیاد ہیں، بڑے پیمانے پر کاٹے جا رہے ہیں۔’

وائلڈ لائف کے ماہر مردل ویبھو کہتے ہیں، ‘راجستھان میں وائلڈ پگ، لنگور، کالا ہرن، صحرائی بلی، صحرائی لومڑی، چنکارا، گوڈاون سمیت جانوروں کی کئی نسلیں اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہی ہیں۔’

سولر پلانٹ میں پیلیکن۔ (تصویر: رادھے شیام پیمانی)

راجستھان کے ان علاقوں میں جانور اور پرندوں کی کئی نسلیں پہلے ہی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے 2018 کی ایک تحقیق میں بتایا ہے کہ راجستھان کے بسٹرڈس کےلیے بجلی کی تاریں مہلک ثابت ہو رہی ہیں، اورجیسلمیر کے ڈیزرٹ نیشنل پارک اور اس کے آس پاس کے 4200 مربع کلومیٹر کے علاقے میں ہر سال 84000 پرندے ہلاک ہو رہے ہیں ۔ ماضی قریب میں بسٹرڈز کی اتنی زیادہ شرح اموات اس نسل کے لیے غیر مستحکم ہے اور معدومیت کی یقینی وجہ ہے۔’

مردل ویبھو نے وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیاکی ‘ پاور-لائن مٹیگیشن ٹو کنزرو بسٹرڈز’ اور ‘سروے رپورٹ: اسٹیٹس سروے آف مائگریٹری برڈز اینڈ کی وائلڈ لائف ان بیکانیر راجستھان’ جیسی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہیں اوربتاتے ہیں کہ ان رپورٹس کے مطالعہ کے وقت سے صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔

§ 

ایسا نہیں ہے کہ اس معاملے پر صرف آزاد یا کانگریس ایم ایل اے اور لیڈر ہی الزامات لگا رہے ہیں۔ بی جے پی کے ایم ایل اے بھی آواز اٹھا رہے ہیں۔

جیسلمیر کے بی جے پی ایم ایل اے چھوٹو سنگھ نے 31 جولائی 2024 کو اسمبلی میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا ۔


‘نہری علاقے کی کمانڈ لینڈ اور ونڈ اینڈ سولر انرجی کے لیے لاکھوں ایکڑ اراضی مختص کرنے کی وجہ سے سیون گھاس ختم ہو گئی ہے۔ لاکھوں جانور کی زندگی خطرے میں ہیں۔ چراگاہیں کم ہو گئی  ہیں۔ جانور چرانے والے یا تو نقل مکانی پر مجبور ہیں یا یہ کام ہی چھوڑ رہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو وہ دن دور نہیں جب اس علاقے میں اپنی نوعیت کا منفرد مویشی معدوم ہو جائے گا۔ صحرائی اضلاع کے قدرتی چراگاہوں اور اورن کو محفوظ قرار دے کر فوری طور پر ریکارڈ میں نشان زد کیا جانا چاہیے اور مختلف توانائی کمپنیوں کو ہوا کی توانائی اور شمسی توانائی کے پلانٹس کے لیے قدرتی سیون گھاس کے علاقوں، چراگاہوں اور اورن سے الگ ہٹ کر صرف چٹانی، پہاڑی اور بنجر زمینیں دی جائیں۔’


جس راجستھان کا تصورکھیجڑی کے بغیر نہیں کیا جا سکتا،اس کے تئیں موجودہ  نظام کی سنگدلی کا عالم یہ ہے کہ پچھلے سال بیکانیر کے ایک علاقے میں سولر پاور پلانٹ کے لیے 60 ہزار کھیجڑیاں کاٹ دی گئی تھیں۔

کھاجو والا کے ایم ایل اے وشوناتھ میگھوال کا کہنا ہے کہ توانائی پیدا کی جانی چاہیے، لیکن بغیر اجازت 50000 سے 60000 کھیجڑیوں کو کاٹنا تباہی ہے۔

وہ کہتے ہیں، ‘کہاں تو 1730 میں ایک کھیجڑی کے لیے 363 مرد و خواتین نے اپنی جانیں قربان کی تھیں اور کہاں اب سب کچھ بے دردی سے تباہ کیا جا رہا ہے۔’

کھیجڑی کو راجستھان کا لائف لائن کہا جاتا ہے۔ یہ صوبے کا ریاستی درخت ہے اور اسے ‘مرودھر کا کلپ ورکش’ کہا جاتا ہے۔ یہ خشک آب و ہوا میں بھی پروان چڑھتا ہے اور زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے پتے اونٹوں، بکریوں، بھیڑوں وغیرہ کے چارے کے طور پر مفید ہیں، جبکہ پھل (سانگری) مشہور پنچکوٹا سبزی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ برسوں سے چارے اور انسانوں کےکھانے کی خشک سبزی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

کھیجڑی ماحولیاتی تحفظ میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور بشنوئی برادری کے لوگ اس کی پوجاکرتے ہیں۔ 1730 میں بشنوئی برادری کی امرتا دیوی اور دیگر افراد نے جودھ پور کے کھیجڑی کے درختوں کو بچانے کے لیے اپنی جانیں قربان کر دی تھیں۔ یہ درخت راجستھان کی ثقافت، زراعت اور ماحولیات کے لیے بہت اہم ہے۔ کھیجڑی کی لکڑی کا استعمال ویدک زمانے سے ہی یگیہ میں ہوتا رہا ہے، کیونکہ صرف دو یا تین درختوں کی انواع ہیں، جن کی لکڑی پر کیڑے مکوڑے نہیں لگتے۔ اسی لیے اسے یگیہ اور دیگر رسومات میں سمیدھا کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

بیکانیر علاقے میں لاکھاسر سولر پلانٹ میں حال ہی میں کاٹے گئے کھیجڑی کے درخت ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

کھیجڑی سے کسی راجستھانی کا کیا رشتہ ہو سکتا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے یہ قصہ مشہور ہے۔


بیکانیر کے مہاراجہ گنگا سنگھ کے پاس ‘اونٹوں کی فوج’ تھی، جسے گنگا رسالہ کہا جاتا تھا۔ اونٹ کی پسندیدہ خوراک کھیجڑی کی کچی -پکی ٹہنیاں ہیں۔ مہاراجہ گنگا سنگھ نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا تھااور گنگا رسالہ نے سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس دوران مہاراجہ نے یورپ کے کسی حصے میں کھیجڑی کا درخت دیکھا تو وہ اسے دیکھ کر بہت جذباتی ہو گئے اور اسے اس طرح گلے لگا لیا گویا یہ ان کی ماں ہو۔


وشو ہندو پریشد کے پرتھوی سنگھ نے حال ہی میں ایک بیان دیا ہے کہ سولر انرجی کمپنیوں نے باڑمیر کی شیو تحصیل میں جوراناڈا روڈ پر ہزاروں کھیجڑی کے درخت کاٹ دیے ہیں۔

ندیوں کا وجود خطرے میں

محکمہ جنگلات کے ایک پرانے افسر کہتے ہیں، ‘ایسا لگتا ہے جیسے صحرا کو ایک خاص قسم کا جنگلاتی علاقہ بنانے کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔ اب لالچی نظریں صحرا کے ہر حصے پر جمی ہوئی ہیں۔ اب لوگ پریشان ہیں کہ اس لونی ندی کا کیا ہو گا، جس کے لیے یہ کہاوت مشہور تھی کہ لونی علاقے کی ضرورت کا آدھا اناج ک لے کر آتی ہے۔ اب مانسون میں بھر نے والی چھوٹی ندیاں جیسے لک، رانیگاؤں نالہ، کواس نالہ، کھورایل نالہ خطرے میں ہیں۔ باڑمیر ضلع کی جغرافیائی ساخت ریگستانی ہونے کے باوجود، یہ سرزمین کئی اہم ندیوں، نالوں اور موسمی پانی کی ندیوں سے مالا مال  رہی ہے۔’

غور طلب ہے کہ لونی اس علاقے کی سب سے بڑی اور تاریخی ندی ہے، جو اجمیر سے نکل کر کئی اضلاع سے ہوتی  ہوئی باڑمیر میں داخل ہوتی ہے اور اسے یہاں کی زراعت، آبپاشی اور روایتی طرز زندگی کی لائف لائن سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چرواہے اور گاؤں والےموسمی ندیوں جیسے سکڑی اور میٹھڑی کے لیے تشویش میں مبتلا ہیں۔

دلت کارکن بھنور میگھونشی کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی کے نام پر ان آبی ندیوں کے کیچمنٹ ایریاز، تلہٹی اور آس پاس کی زمینیں بڑی مقدار میں نجی کمپنیوں کو الاٹ کی جارہی ہیں۔ ایک بڑا بحران دروازے پر دستک دے سکتا ہے کیونکہ زمین کو برابر کرنے، باؤنڈری والز کی تعمیر اور سولر پروجیکٹ کے لیے بھاری مشینری کے ساتھ تعمیراتی کام کی وجہ سے دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں خلل پڑتا ہے۔

اب خطرہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ آنے والے برسوں میں باڑمیر کی روایتی آبی ثقافت، چراگاہوں پر مبنی مویشی پروری اور دیہی طرز زندگی مکمل طور پر غیر متوازن ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ شمسی توانائی کی ترقی کی دوڑ میں ماحولیاتی توازن اور آبی وسائل کے تحفظ کو ترجیح دی جائے۔

جانوروں اور پرندوں کو بچانا ہوگا

جب دی وائر نے چرواہوں سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ سندیشرا، مورلی، ارانی، فراش جیسے درخت شدید خطرے میں ہیں۔ سولر کمپنیوں کی تار بندی میں آنے سے دھامن، بھورٹ، بھانکھڑی، بیلڑی، ٹانٹیا، بکاریا، سیون، ماکڑا، موٹھیا، لانپ، کُڑی، گرامنا، دھماسہ، کامی جیسی گھاس بھی دستیاب نہیں ہوں گی، جس پر یہاں کے مویشی مکمل طور پر منحصر ہیں۔

پرندوں سے محبت کرنے والے بھی فکرمند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے نیل کنٹھ، ہدہد، بلبل، رابن، گوڈاون، سینڈ گراؤز، چکوا، چکور، بطخ، گڈوال، پنٹیل، وگیون، پوچارڈ، ٹیل، سوان، امپیریل سینڈ گراؤز، وور، بٹیر، بارش بٹیر،فلوریکن، سارس کرکرے،اسٹارلنگ جیسےپرندوں کی نسلیں خطرے میں ہیں۔

باڑمیر-جیسلمیر کے باشندوں نے صدیوں تک  قحط، خشک سالی اور شدید گرمی کو جذب کیا ہے۔ لیکن اب وہ ٹوٹ رہے ہیں، گویاہوا کے چلنے پر علاقے کے ریت کے ٹیلے بکھرنے لگتے ہیں، بغیر آواز اور امید کے۔

(تریبھون سینئر صحافی ہیں۔)