خاص خبر

بہار ووٹر لسٹ رویژن: غلط فہمیاں اور سچائی

بہار کی کل آبادی تقریباً 13 کروڑ ہے۔ ان میں سے کوئی 8 کروڑ بالغ ہیں، جن کا نام ووٹر لسٹ میں ہونا چاہیے۔ ان میں سے تقریباً 3 کروڑ لوگوں کا نام 2003 کی ووٹر لسٹ میں تھا، باقی 5 کروڑ لوگوں کو اپنی شہریت کا ثبوت اکٹھا کرنا ہوگا۔ ان میں سے نصف یعنی ڈھائی کروڑ لوگوں کے پاس وہ سرٹیفکیٹ نہیں ہوں گے، جو الیکشن کمیشن مانگ رہا ہے۔

بہار میں ووٹر لسٹ رویژن کو لے کر کئی غلط فہمیاں ہیں، جن پر یوگیندر یادو نے تفصیل سے لکھا ہے۔

بہار میں آئندہ اسمبلی انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن آف انڈیا اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) کروا  رہا ہے۔ اس بارے میں کئی غلط فہمیاں ہیں، جس پر عوام کے ساتھ ہی اپوزیشن جماعتیں اور ماہرین  کئی طرح کے سوال اٹھا رہے ہیں۔

پہلی غلط فہمی: الیکشن کمیشن بہار میں ووٹر لسٹ کی گہری چھان بین اور نظر ثانی کر رہا ہے۔

سچائی: جی نہیں، بہار میں اب تک چل آ رہی  ووٹر لسٹ کا رویژن نہیں ہوگا۔ پرانی ووٹر لسٹ کو خارج کر کے نئی ووٹر لسٹ تیار کی جائے گی۔

دوسری  غلط فہمی: اس طرح کا رویژن  پہلے دس بار ہو چکا ہے، اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔

سچائی: جی نہیں، اس بار جو ہو رہا ہے وہ غیر معمولی ہے۔ ووٹر لسٹ کی کمپیوٹرائزیشن کے بعد بار بار نئی لسٹ تیار کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ 22 سال میں پہلی بار ہو رہا ہے۔ پہلے کبھی ووٹر لسٹ میں اپنا نام ڈلوالنے کی ذمہ داری ووٹر پر نہیں ڈالی گئی تھی۔ پہلے کبھی بھی ووٹر سے شہریت ثابت کرنے کے لیے کاغذات نہیں مانگے گئے۔ پہلے کبھی انتخابات سے چار ماہ قبل نئی فہرست تیار نہیں کی گئی۔

تیسری غلط فہمی: بہار کی ووٹر لسٹ میں زیادہ گڑبڑی تھی، اس لیے ایسا کرنا پڑا۔

سچائی:جی نہیں، ابھی چھ مہینے پہلے بہار کی پوری ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کی گئی تھی۔ لاکھوں نام شامل اور حذف کیے گئے۔ نظرثانی شدہ فہرست جنوری میں شائع کی گئی تھی۔ کسی میں بڑی گڑبڑی کی شکایت نہیں کی گئی تھی۔ جو کمی بیشی  رہ گئی تھی ان کو دور کرنے کے لیے مسلسل نظر ثانی کی جا رہی تھی۔ ضرورت تھی تو  اس فہرست پر ایک اور نظر ثانی کی جا سکتی تھی۔ اس فہرست کو مسترد کرنے اور نئی تیار کرنے کا کوئی مطالبہ یا ضرورت نہیں تھی۔

چوتھی غلط فہمی: جن کے نام 2003 کی ووٹر لسٹ میں تھے انہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

سچ: جی نہیں، ہر شخص کو نیا فارم بھرنا ہوگا۔ جن لوگوں کے نام جنوری 2025 کی فہرست میں وہی ہے (وہی پورا نام، وہی والد کا نام، وہی پتہ) جیسا  2003 کی فہرست میں تھا، انہیں صرف یہ چھوٹ دی جائے گی کہ انہیں اپنی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کا ثبوت منسلک کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن انہیں بھی تصویر اور دستخط کے ساتھ فارم  پُر کرنا ہوگا، اور 2003 کی فہرست میں ان کے نام والے صفحہ کی فوٹو کاپی  منسلک کرنی ہوگی۔

پانچویں غلط فہمی: سرٹیفکیٹ صرف ان سے مانگے جائیں گے جن کی شہریت پر شک ہے۔

سچ: جی نہیں، وہ تمام لوگ جن کا بھی  نام 2003 کی فہرست میں نہیں تھا، انہیں فارم بھرنے کے ساتھ سرٹیفکیٹ بھی منسلک کرنا ہوں گے۔ یکم جولائی 1987 سے پہلے پیدا ہونے والوں کو صرف اپنی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کا ثبوت دینا ہوگا۔ جو لوگ 1 جولائی 1987 سے 2 دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہوئے ہیں انہیں اپنا یا اپنے والدین میں سے کسی ایک کا سرٹیفکیٹ فراہم کرنا ہوگا۔ 2 دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والے افراد کو اپنے اور اپنی ماں اور باپ دونوں کے سرٹیفکیٹ فراہم کرنا ہوں گے۔ اگر ماں اور باپ کا نام 2003 کی فہرست میں تھا تو ان کے سرٹیفکیٹ کے لیے اس صفحے کی فوٹو کاپی کافی ہوگی، لیکن اس کے باوجود درخواست گزار کو اپنی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کا ثبوت بھی منسلک کرنا ہوگا۔

چھٹی غلط فہمی: الیکشن کمیشن نے شہریت کے سرٹیفکیٹ کے لیے کئی آپشن دیے ہیں، کوئی نہ کوئی ثبوت تو ہر گھر میں ہی مل جائے گا۔

سچائی: جی نہیں، ہر گھر میں عام طور جو شناختی کارڈ یا سرٹیفکیٹ ہوتے ہیں ان میں سے کوئی بھی الیکشن کمیشن تسلیم نہیں کرے گا – نہ آدھار کارڈ، نہ راشن کارڈ، نہ الیکشن کمیشن کا شناختی کارڈ، نہ منریگا جاب کارڈ۔ الیکشن کمیشن نے جن 11 سرٹیفکیٹ کو تسلیم کیا ہے، ان میں سے کچھ تو بہار پر لاگو ہی نہیں ہوتے ہیں یا کہیں دیکھنے کونہیں ملتے۔ کچھ چند لوگوں کے پاس  ہی ہوتے ہیں، مثلاً پاسپورٹ (2.4 فیصد)، پیدائش کا سرٹیفکیٹ (2.8 فیصد)، سرکاری ملازمت یا پنشنر شناختی کارڈ (5 فیصد) یا کاسٹ سرٹیفکیٹ (16 فیصد) عام گھرانوں میں نہیں پائے جاتے۔ بچ گیا میٹرک یا ڈگری کا سرٹیفکیٹ ، جو بہار میں آدھے سے کم لوگوں کے پاس ہے۔

ساتویں غلط فہمی: اصول سب کے لیے برابر ہیں، اس میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔

سچائی : جی نہیں، کہنے کے لیے برابر ہیں، لیکن یہ حقیقت میں ان لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے جنہیں زندگی میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کا اثر یہی ہوگا کہ خواتین، غریب، مہاجر مزدور اور دلت قبائلی پسماندہ طبقے کے لوگ سرٹیفکیٹ دینے میں پیچھے رہ جائیں گے اور ان کے ووٹ کٹ جائیں گے۔ تعلیم یافتہ ہونا شہریت کے لیے شرط بن جائے گا۔

آٹھویں غلط فہمی: الیکشن کمیشن نے تین ماہ کا وقت دیا ہے، سب کا نام شامل ہو جائے گا۔

سچائی: جی نہیں، اصل وقت تو صرف ایک ماہ ہے، 25 جولائی تک۔ باقی دو ماہ اعتراضات کے حل اور کمیشن کی اپنی کاغذی کارروائی کے لیے ہیں۔ اس پہلے مہینے میں الیکشن کمیشن کو توقع ہے کہ تمام بوتھ لیول افسران کی  ٹریننگ ہوجائے گی (جبکہ ان میں سے 20 ہزار کی ابھی تقرری بھی نہیں ہوئی تھی)، وہ پارٹیوں کے ایجنٹوں کو تربیت دیں گے، ہر گھر میں نئے فارم پہنچادیں گے، ہر شخص وہ فارم بھر دے گا، مطلوبہ سرٹیفکیٹ منسلک کردے گا، بھرے ہوئے فارم ہر گھر سے اکٹھا کر لیا جائے گا اور کمپیوٹر پر اپلوڈ کرنے کے بعد ان کی تصدیق بھی شروع ہو جائے گی۔ 25 جولائی تک فارم جمع نہ کرانے والے شخص کا نام ووٹر لسٹ میں آئے گا ہی نہیں ۔

نویں غلط فہمی: اس نظر ثانی سے بنگلہ دیشی دراندازیوں کا مسئلہ ختم ہو جائے گا۔

سچائی: جی نہیں، اگر بہار میں غیر قانونی غیر ملکی شہریوں کا مسئلہ ہے تو یہ بنیادی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمانوں کا نہیں بلکہ ترائی کے نیپالیوں کا ہے، جو زیادہ تر ہندو ہیں۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے چند ہزار بنگلہ دیشی شہریوں اور دسیوں ہزار نیپالی شہریوں کے نام ووٹر لسٹ سے حذف ہو جائیں۔ لیکن اس کی وجہ سے تقریباً ڈھائی کروڑ ہندوستانی شہریوں کے نام بھی حذف ہونے کا امکان ہے۔ مکھی کو مارنے کے لیے ناک پر ہتھوڑا نہیں چلایا جاتا۔

آخری سچ: بہار کی کل آبادی تقریباً 13 کروڑ ہے۔ ان میں سے تقریباً 8 کروڑ بالغ ہیں جن کانام ووٹر لسٹ میں ہونا چاہیے۔ ان میں سے صرف 3 کروڑ لوگوں کا نام  2003 کی ووٹر لسٹ میں تھا۔ باقی 5 کروڑ کو اپنی شہریت کا ثبوت دینا ہوگا۔ ان میں سے نصف یعنی ڈھائی کروڑ لوگوں کے پاس وہ سرٹیفکیٹ نہیں ہوں گے جو الیکشن کمیشن مانگ رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس ‘اسپیشل انٹینسو رویژن’ کی وجہ سے، آخری شخص وہ واحد حق کھو دے گا جو اس کے پاس آج بھی ہے یعنی ووٹ کا حق۔ پہلے نوٹ بندی ہوئی، پھر کورونا کے دوران ملک بھر میں لاک ڈاؤن ہوا، اب ووٹ بندی کی تیاری ہے۔

(یہ مضمون  سب سے پہلے سمتا مارگ پر شائع ہوا تھا۔)