مرادآباد ضلع میں ہندو دیوی-دیوتاؤں کے نام سے بینڈ کا نام رکھنے پر ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ ایک شکایت کے بعد تمام مسلم بینڈ آپریٹرز کو پولیس نے ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے بینڈ کے نام ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام پر نہ رکھیں۔

علامتی تصویر: مرادآباد ضلع میں ہندو دیوی-دیوتاؤں کے نام سے بینڈ کا نام رکھنے پر نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)
نئی دہلی: اتر پردیش میں ہندو ناموں سے ریستوران چلانے والے مسلم مالکان کا تنازعہ ابھی تھما ہی تھا کہ مرادآباد ضلع میں ہندو دیوی-دیوتاؤں کے نام پر بینڈوں کے نام پر ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، اس سلسلے میں 9 جولائی کو ایک وکیل شبی شرما نے چیف منسٹر کے پورٹل پر شکایت درج کرائی تھی، جس کے بعد یوپی پولیس اس ہفتےحرکت میں آئی ہے۔
منگل (20 اگست) کو سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (سٹی) کمار رانا وجئے سنگھ نے کئی بینڈ آپریٹرز کو ، جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے، طلب کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ اپنے بینڈ کے نام ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام پر نہ رکھیں۔
بینڈ آپریریٹرز پولیس کی اس بات پر راضی بھی ہو گئے۔
پولیس نے بتایاکہ شکایت میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ضلع میں تقریباً 15 سے 20 مسلم بینڈ آپریٹرز ہندو دیوی-دیوتاؤں کے نام پر اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ انہوں نے دلیل دی کہ اس سے مذہبی جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔
رنوجئے سنگھ نے مزید کہا، ‘وزیراعلیٰ کے پورٹل پر شکایت درج کرائی گئی تھی کہ بینڈ آپریٹرز ہندو دیوی-دیوتاؤں کے نام استعمال کر رہے ہیں۔ انہیں منگل کو طلب کیا گیا اور ایسے ناموں کو ہٹانے کی ہدایت کی گئی۔ سب نے اس پر اتفاق کیا۔’
یقیناً کسی مسلمان بینڈ کے مالک کے لیے اپنے بینڈ کا نام ہندو دیوتا کے نام پر رکھنا غیر قانونی نہیں ہے۔
اس سلسلے میں شکایت کنندہ شیبی شرما نے کہا کہ مرادآباد میں بینڈ انڈسٹری پر مسلمانوں کا غلبہ ہے، اس کے باوجود ان میں سے کئی ہندوؤں کے ناموں سے اپنا کاروبار چلاتے ہیں، جن میں دیوی-دیوتاؤں کے نام بھی شامل ہیں۔ یہ شناخت کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔ وزیر اعلیٰ نے خود ایسی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ‘میں نے چیف منسٹر کے پورٹل پر باضابطہ شکایت درج کرائی تھی اور اب پولیس نے کارروائی کی ہے۔ یہ امتیازی سلوک نہیں بلکہ قانونی کارروائی ہے۔’
معلوم ہو کہ کانوڑ یاترا کے دوران بھی ایسا ہی تنازعہ دیکھنے میں آیا تھا، جب مسلمانوں کے ذریعے چلائے جانے والے ڈھابوں اور ریستورانوں کے ہندو ناموں پر اعتراض کیا گیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ مرادآباد میں 500 سے زیادہ بینڈ چل رہے ہیں۔ اور کسی بھی بینڈ آپریٹر نے فوری طور پر اس شکایت اور پولیس کے فرمان پر اعتراض نہیں کیا۔
ہندو نام سے بینڈ چلانے والے ایک مسلمان ویڈنگ بینڈ آپریٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اخبار کو بتایا، ‘ہم نے بینڈ کا نام اپنے گرو کے نام پر رکھا ہے، جو ہندو تھے۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘یہ کاروبار دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے چل رہا ہے۔ ہم نے پولیس سے درخواست کی ہے کہ ہمیں نئے آرڈر کی تعمیل کے لیے کچھ وقت دیا جائے کیونکہ ہمارے پاس پہلے سے ہی بکنگ موجود ہے۔ ہم نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ آئندہ تمام بکنگ نئے نام سے کی جائیں گی۔’
Categories: خبریں